مالیاتی استحکام اور سٹیٹ بینک ترمیمی بل

جس ملک میں اپوزیشن باہم دست وگریباں ہو‘ چھوٹے چھوٹے عہدوں کے لیے اپنے اصولوں اور ضابطوں کو اناؤں کی بھٹی میں جھونک دیتی ہو‘ اُس ملک میں حکومت کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں۔ وہ سیاہ کرے یا سفید‘ سچ بولے یا جھوٹ‘ عوام پر پھول برسائے یا کانٹے‘ اُسے کوئی پوچھنے والا ہوتا ہے نہ ہاتھ روکنے والا۔ صرف اپوزیشن کیا، ایسے ممالک کے عوام بھی تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جو غلط اور صحیح میں تمیز نہ کرتے ہوں‘ اچھے اور برے کا فرق نہ جانتے ہوں‘ موت و حیات کو الگ الگ نظر سے نہ دیکھتے ہوں۔ جس ملک کے شہری بیماری اور تندرستی میں تفاوت نہ کرتے ہوں‘ خوشی اور غمی کی تفریق کو سنجیدہ نہ لیتے ہوں‘ آنسو اور مسکراہٹ کو جدا جدا نہ گردانتے ہوں انہیں اس بات سے کیا غرض کہ سٹیٹ بینک کے قوانین میں کیا ترامیم لائی جا رہی ہیں اور کیا نہیں۔ جو قوم ایک سال بعد بھی کورونا وائرس کے وجود کے حوالے سے شک و یقین کے مابین جھول رہی ہو اور اُسے انسانیت کے لیے خطرہ نہ سمجھتی ہو‘ اُس قوم کو کیا فکر کہ نیپرا ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کس بلا کا نام ہے؟ جو قوم کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد تو کجا‘ انہیں سنجیدہ تک نہ لیتی ہو اسے کیا پڑی ہے کہ وہ جانے کہ سبسڈی ختم کرنے اور نئے ٹیکسز کی بھرمار سے عام آدمی کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا اور کیا نہیں۔ اگر بھولے سے جان بھی جائے تو اس وقت تک پروپیگنڈا کی دھول اتنی اڑ چکی ہو گی کہ اسے ادراک ہی نہیں ہو پائے گا کہ کس چیز پر تنقید کرنی ہے اور کس کو درست ماننا ہے، کس کو اپنا سمجھنا ہے اور کس کو دشمن۔ کس سے خوف کھانا ہے اور کسے سر آنکھوں پر بٹھانا ہے۔ جیسے جیسے پروپیگنڈا بڑھتا ہے عوام کی کنفیوژن بھی دوچند ہوتی جاتی ہے۔
حکومت کو ان دنوں سٹیٹ بینک ترمیمی بل، نیپرا آرڈیننس اور ایف بی آر آرڈیننس کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کرنے کے لیے اپنی خود مختاری اور معاشی استحکام کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک کو اتنے اختیارات دے دیے ہیں کہ ''وائسرائے‘‘ بھی اس کے سامنے کیا ہو گا۔ اپوزیشن اور ماہرین کو تنقید ضرور کرنی چاہیے مگر منطق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اچھا کام دشمن بھی کر سکتا ہے‘ مگر دیکھنے والی آنکھ تو ہو۔ میرے نزدیک سٹیٹ بینک ترمیمی بل تمام کا تمام ایسا نہیں کہ اس پر تنقید کا اندھا جھاڑو پھیر دیا جائے۔ کچھ اقدامات ایسے بھی ہیں جو وقت کی ضرورت ہیں۔ ہم تہتر برسوں سے پِیٹ رہے ہیں کہ پاکستان میں ادارہ جاتی اصلاحات ناگزیر ہیں‘ اگر ان اصلاحات کی ابتدا سٹیٹ بینک سے ہو رہی ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ کیا ہم دہائیوں سے اداروں پر سیاسی اثرو رسوخ کا نوحہ نہیں پڑھ رہے؟ اگر سٹیٹ بینک پر حکومتی دباؤکم کیا جا رہاہے تو ہمیں برا کیوں لگ رہا ہے؟ آج تک سٹیٹ بینک کا بڑا کام مانیٹری پالیسی بنانا اور افراطِ زر کو کنڑول کرنا رہا ہے۔ اب اگر اس کے مقاصد زیادہ واضح اور بڑے ہونے جا رہے ہیں تو چیخ وپکار کیوں شروع کر دی گئی ہے؟ اس بل کی منظوری کی بعد سٹیٹ بینک کو مہنگائی کنڑول کرنے کا اختیار بھی مل جائے گا جو نہایت خوش آئند بات ہے۔ آج تک پاکستان میں کون سی حکومت آئی ہے جو تن تنہا مہنگائی کے طوفان کا مقابلہ کر سکی ہے؟ یقینا یہ اداروں کی مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ مہنگائی کی بڑی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ نئے نوٹوں کو بغیر گارنٹی کے چھاپنا ہوتا ہے۔ حکومتیں اپنا مالیاتی خسارہ اور ضروریات پوری کرنے کے لیے سٹیٹ بینک سے دھڑا دھڑ نوٹ چھپواتی ہیں جس کے باعث افراطِ زر پیدا ہوتا ہے اور مہنگائی کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد حکومت ایسا نہیں کر سکے گی۔ اُسے اپنے وسائل میں رہ کر ہی مسائل کا سدباب کرنا ہو گا یا پھر اپنے وسائل میں اضافہ کرنا ہو گا۔ جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے‘ حکومت انہیں ٹیکس دینے پر مجبور کرے گی۔ اس طرح ہی سہی، اگر پاکستان کی ٹیکس آمدنی بڑھ جائے تو فائدہ کس کا ہو گا۔ پاکستان پھلے پھولے گا اور عوام خوش وخرم ہوں گے۔ یہی نہیں‘ اب سٹیٹ بینک ملک میں مالیاتی استحکام کے لیے بھی تگ ودو کرے گا۔ یہ بات طے ہے کہ مالیاتی استحکام صرف اسی صورت میں آ سکتاہے جب اداروں پر سیاسی بوجھ کم سے کم ہو۔ سٹیٹ بینک آپریشنل خود مختاری حاصل کرکے ہی یہ کارنامہ سر انجا م دے سکتا ہے ورنہ ہنوز دلی دور است۔
ہاں البتہ! جو بات قابلِ اعتراض ہے وہ معاشی ترقی کی لگام مکمل طور پر سٹیٹ بینک کے ہاتھ میں دے دینا ہے۔ سٹیٹ بینک حکومت کی مدد تو کر سکتا ہے مگر اتنی بڑی ذمہ داری کو اکیلاکیسے نبھا سکتا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر اگر یہ کام بھی سٹیٹ بینک نے کرنا ہے تو وزارتِ خزانہ کس مرض کی دوا ہے؟ دنیا بھر میں ریاستی بینک کا کام معاشی ماحول بنانا ہوتا ہے، سرمایہ کار سرمایہ کاری کرتے وقت حکومت کی پالیسیوں کو آئینہ بناتے ہیں۔ اگر حکومت اور سٹیٹ بینک الگ الگ سمت میں سفر کریں گے تو معاشی ترقی کیسے ممکن ہو گی؟ روزگار کے مواقع کیسے بڑھیں گے؟ نئی صنعتیں کیسے لگیں گی؟ اگر سٹیٹ بینک پندرہ بڑی صنعتوں پر مراعات اور مالیاتی سہولتوں کے دروازے بندکر دے گا تو کیا گروتھ ریٹ منفی سے نکل پائے گا؟ کیا برآمدات مطلوبہ حد تک بڑھ سکیں گی؟ خدارا! آنکھیں کھولیں۔ یہ بل صرف کابینہ سے منظور ہوا ہے‘ ابھی پارلیمنٹ سے پاس ہونا باقی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو چاہیے کہ تنقید برائے تنقید سے نکل کر ملکی ترقی کی طرف قدم بڑھائیں۔ اس بل میں جو اچھا ہے‘ اسے منظورکیا جائے اور جو پاکستان کی معاشی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتا اسے تبدیل کیا جائے۔ باقی رہی بات گورنر سٹیٹ بینک کی مدتِ ملازمت میں اضافے کی‘ تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ پالیسیوں کے تسلسل کے لیے ایسے اقدامات ضروری ہوتے ہیں۔ ایک اور جو واویلا کیا جا رہا ہے وہ یہ کہ مجوزہ ترامیم کے بعد سٹیٹ بینک کے اہلکار ایف آئی اے اور نیب کے شکنجے سے نکل جائیں گے تو اس میں قباحت ہی کیا ہے؟ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو معاشی میدان میں جن بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے وہ خوف کے سائے میں نہیں ہو سکتے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ احتساب سرے سے ہو گا ہی نہیں۔ سٹیٹ بینک کا احتساب کا اپنا نظام ہوگا جو سب پر لاگو ہوگا۔ بنگلہ دیش جیسا ملک بارہ سال پہلے پوری معیشت کو حکومتی اثر سے نکال چکا ہے اور ہم ہیں کہ سٹیٹ بینک کو خودمختار کرنے کو تیار نہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر ہم آج مشکل اور بڑے فیصلے نہ کر سکے تو اپنی آئندہ نسلوں کا مستقبل کیسے محفوظ بنائیں گے؟
سٹیٹ بینک کی خودمختاری کا فیصلہ تو اب پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہے‘ دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے مگر جو کام حکومت دو آرڈیننس کے ذریعے کر چکی ہے‘ نجانے کیوں اس پر زیادہ دہائی نہیں دی جا رہی۔ حکومت نے نیپرا آرڈیننس کے ذریعے 2023ء تک ساڑھے پانچ روپے تک بجلی مہنگی کرنے کا اختیار حاصل کر لیا ہے۔ صرف یہی نہیں‘ حکومت صارفین پر ایک روپے چالیس پیسے فی یونٹ تک سرچارج بھی لگائے گی۔ یوں عام آدمی کی جیب سے 700 ارب روپے اضافی صرف بجلی کی مد میں بٹورے جائیں گے۔ حکومت کا یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 73 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے مگر حکومت کو کیا پروا؟ اسے تو آئی ایم ایف کو خوش کرنا ہے۔ ایک اور آرڈیننس کے ذریعے 140 ارب روپے کا ٹیکس استثنا بھی ختم کر دیا گیا ہے جس کے بعد نئے مینوفیکچرنگ یونٹ اور رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ پر ٹیکس چھوٹ نہیں ہو گی۔
میرے نزدیک حکومت نے یہ سارے کام جلد بازی میں کیے ہیں کیونکہ تینوں اقدامات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ جب بجلی اتنی مہنگی ہو گی تو مہنگائی کا زور کیسے ٹوٹے گا؟ جب سٹیٹ بینک نئی کاروباری سکیمیں متعارف نہیں کروائے گا تو معاشی ترقی کا خواب کیسے پورا ہوگا؟ نئے کاروباری یونٹ نہیں لگیں گے تو بیروزگاری کا قلع قمع کیسے ہوگا؟ پاکستان اب تک 22 دفعہ آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹا چکا ہے مگر اتنی فرمانبرداری پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ حکومت فرمانبرداری کرنا چاہتی ہے تو ضرور کرے مگر ملکی مفادات کو قربان کرنا بند کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں