حکومت کو درپیش پانچ چیلنج

خوش گمانی کوبدگمانی کی سوتن کہا جاتاہے ۔بدگمانی کا زہر کڑواہٹ میں گوندھا ہوتا ہے جبکہ خوش گمانی کا زہر مٹھاس کا لبادہ اوڑھے ہوتا ہے ۔دونوں میں زہر برابر ہوتاہے مگرفرق یہ ہے کہ خوش گمانی کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا ۔ جیسے ہماری بصارت شمعوں کی دھندلی روشنی کی عادی ہوجاتی ہے تو اس سے دھوپ برداشت نہیں ہوتی اسی طرح جب کسی فرد یا گروہ میں خوش گمانی حد سے تجاوز کرجاتی ہے تو بدگمانی کے لیے کرنے کو کچھ باقی نہیں بچتا۔معلوم نہیں کیوں مگر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے ان دنوں ہماری حکومت بھی خوش گمانی کا شکار ہوچکی ۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی لڑائی سے پی ڈی ایم کا شیرازہ کیا بکھراحکومت پھر پرانی ڈگر پر چل نکلی ہے۔ حکومت سوچ رہی ہے کہ پی ڈی ایم ختم توسارے چیلنجز ختم ‘ مگرحقیقت میں ایسا نہیں ہوا ۔
حکومت اپنا بہترین وقت گزار چکی ‘ آنے والاوقت کانٹوں کی سیج کے سوا کچھ نہیں ۔ حکومت کو باقی ماندہ مدت میں بڑے بڑے چیلنجز کے پہاڑ سر کرنے ہیں ۔ عوام کا دل بھی جیتنا ہے اور اپوزیشن کی تقسیم کو مزید تقسیم بھی کرنا ہے ۔گھر کے بھیدیوں کا راستہ بھی روکنا ہے اور مقتدر حلقوں کی دل جوئی بھی جاری رکھنی ہے۔ نااہلی اور بدانتظامی کا لگا دھبہ بھی صاف کرنا ہے اور مہنگائی کو واپسی کی راہ بھی دکھانی ہے ‘ مگر یہ سب تب ہوگا جب حکومت خود کو خوش گمانی کے چنگل سے نکالنے میں کامیاب ہوگی۔ ڈسکہ الیکشن میں ہار حکومت کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے مگر کیا حکومت نیند سے بیدار ہونے کیلئے تیار ہے ؟ کیا خوش گمانی کا بخار اُسے ایسا کرنے کی اجازت دے گا ؟ڈسکہ الیکشن میں ہار کا مارجن بتاتا ہے کہ حکومت اتنی بھی غیر مقبول نہیں جتنی دور سے نظر آتی ہے ۔ ابھی حکومت کا دوسال سے زیادہ عرصہ باقی ہے وہ اگر مستقبل میں آنے والے بڑے چیلنجز کا مقابلہ کرسکی تو اگلے الیکشن میں اس کی عزت بچ جائے گی ورنہ (ق) لیگ حکومت کی اتحادی ہے ۔اس سے بہت سا سبق سیکھا جاسکتا ہے۔
حکومت کو اس وقت جوسب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ اس کے اندرونی جھگڑے ہیں ۔ یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ الیکشن میں ووٹ دینے والے 16 ایم این ایز کی اُڑائی ہوئی گرد ابھی بیٹھی نہیں تھی کہ جہانگیر ترین نے حکومتی ناؤ کے شگاف کو اور واضح کردیا۔ ا یسا ہر گز نہیں کہ یہ تیس کے تیس پارلیمنٹیرین حکومت کے خلاف بغاوت کردیں گے مگرایک لمحے کیلئے سوچیں اگر ان میں سے آدھے بھی باغی ہوگئے تو؟ایک بات مت بھولیں! جہانگیر ترین اکیلے نہیں ہیں ‘ انہیں چودھری صاحبان کی مکمل آشیر باد حاصل ہے اور نہلے پہ دہلا یہ کہ چودھریوں کی پیپلزپارٹی سے محبت کے چرچے بھی عام ہیں ۔اگر ایسے میں پنجاب یا وفاق میں عدم اعتماد کی تحریک آگئی تو جہانگیر ترین کے وارے نیارے ہوجائیں گے ۔ ابھی یہ سوال اہم نہیں ہے کہ جہانگیر ترین کیا کرنے والے ہیں ۔ اہم سوال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کیا سوچ رہے ہیں ؟ کیا وہ اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو جہانگیر ترین سے دور رہنے کا حکم صادر کریں گے ؟ اور اگر ایسا کریں گے تو اُن ارکان کا جواب کیا ہوگا؟اگر انہوں نے انکارکردیا تو حکومت کی ساکھ کا کیا بنے گا ؟ جہانگیر ترین کا پیغام واضح ہے کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پیغام کو وفاقی کابینہ میں ہم نوا ملتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہاں بھی خطرے کی بو سونگھ لی گئی تو پھر محترم وزیراعظم کیا کریں گے؟ کیا احتساب سب کیلئے کا نعرہ اپنی موت آپ مر جائے گا ؟ اور اگر ایسا ہواتو حکومت کی نیک نامی کا کیا بنے گا ؟ حالات کی نزاکت بتارہی ہے کہ حکومت کسی صورت جہانگیر ترین کو این آر او نہیں دے گی مگر کیسز میں جو تیزی ہے اسے سپیڈ بریکر لگا کرکم ضرورکردیا جائے گا تاکہ ترین صاحب بھی سکھ کا سانس لیں اور حکومت بھی ۔ حکومت کیلئے دوسرا بڑا چیلنج ایک نہیں‘ دو پی ڈی ایم ہیں ۔ پیپلزپارٹی نے ایسے ہی اپوزیشن اتحاد سے راہیں جدا نہیں کیں۔کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ پی ڈی ایم اندرونی ا نتشار کا شکار تھی ۔ ہر طرف فیصلہ سازی کا فقدان تھا ۔ (ن) لیگ الگ سوچتی تھی اور پیپلزپارٹی الگ۔ جے یو آئی کی اپنی رائے تھی اور اے این پی کی اپنی ۔اب لکیر کھینچی جا چکی ۔ مفاہمت اور مزاحمت والے اپنے اپنے راستے پر چل نکلے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں پی ڈی ایم اب سڑکوں پر بھی آئے گی اور اسمبلی کا ماحول بھی خراب رکھے گی ۔ ہو سکتا ہے کسی موقع پر استعفے بھی دے دیں تاکہ حکومت ضمنی الیکشن کے گرداب میں پھنسی رہے اور کارکردگی نہ دکھاسکے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی اور اے این پی پارلیمنٹ میں حکومت کی مشکلات بڑھاتی رہیں گی اور اگر پیپلزپارٹی مقتدر حلقوں سے رابطے مضبوط کرلیتی ہے تو حکومت کی پریشانی دوچند ہوجائے گی ۔ میرے خیال میں ایک پی ڈی ایم حکومت کے وارے میں تھی ‘ اوردو پی ڈی ایم سے حکومت کا نقصان ہی نقصان ہے ۔ حکومت کا تیسرا بڑا چیلنج ترقیاتی کاموں کا نہ ہوناہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہر شہر جا کر اربوں روپے کے ترقیاتی پیکیجز کا اعلان تو کررہے ہیں مگر ابھی تک یہ اعلانات محض اعلانات ہی ہیں ۔ پنجاب حکومت نے پانچ ماہ قبل لاہور کیلئے 60 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا خوب شور مچایا تھامگر ابھی تک کام شروع نہیں ہوسکا ۔ کیوں؟ کوئی ہے جو بتائے؟یہی نہیں ‘ گوجرانوالہ ‘ سرگودھا ‘ چنیوٹ ‘ میانوالی ‘حافظ آباد‘ ساہیوال سمیت متعدد اضلاع میں بھی اربوں روپے کے اعلانات ہوچکے مگر چیلنج یہ ہے کہ اگلے دو سالوں میں یہ کام ہوسکیں گے یانہیں ۔ ابھی تک سوائے وزیراعلیٰ کے اپنے ضلع ڈی جی خان کے کہیں کوئی قابل ذکر ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ دیکھئے دو سالوں میں یہ اعلانات حقیقت کا روپ دھارتے ہیں یانہیں ۔ حکومت کا چوتھا بڑا چیلنج معیشت کا بگاڑ ہے ۔ حکومت سوائے تجارتی خسارہ کم کرنے کے باقی کچھ بھی نہیں کرسکی ۔ مہنگائی کنڑول ہوئی نہ بے روزگاری۔ ڈالر کے پر کاٹے گئے نہ برآمدات میں اضافہ ہوسکا ۔ جی ڈی پی کا حجم پچاس ارب ڈالر کم ہو گیا اور معاشی ترقی کی رفتار منفی میں چلی گئی۔بڑی صنعتوں کو ضروروقتی سہارا مل گیامگر چھوٹی صنعتیں اخراجات کا بوجھ نہ اٹھا سکیں ۔ بجلی ‘ گیس اور تیل کی قیمتوں نے تو عوام کا جینا دوبھر کردیا۔ اب حکومت کا سب سے اہم چیلنج یہ ہے کہ وہ کیسے ان مسائل پر قابو پاتی ہے ۔ بجلی ‘ گیس اور پیڑول کی قیمتیں کم نہ ہوئیں تو مہنگائی کا سیلاب بڑھتا جائے گا مگر ستم یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ میں ہے وہ کبھی بھی قیمتیں نہیں گھٹائے گی ۔ اگر حکومت کو اگلا الیکشن عزیزہے تو معیشت کے میدان میں کچھ انوکھا کرنا ہوگا ورنہ عوام کبھی کسی کے سگے نہیں ہوتے ۔
حکومت کا پانچواں بڑا چیلنج مافیا ز کو نکیل ڈالنا ہے ۔ مافیازحکومت کے ساتھ وہ سلوک کر رہے ہیں جو فلموں میں ولن کیا کرتے ہیں کہ پولیس اگر انڈر ورلڈ کا ایک کارندہ ماردیتی ہے تو بدلے میں انڈرورلڈ کے لوگ سارا شہر بند کروا دیتے ہیں ‘ ایک قتل کے بدلے میں درجنوں قتل ہوتے ہیں ۔ حکومت بھی چینی مافیا کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو بدلے میں چینی مافیا ہر وہ کام کرتا ہے جس سے چینی کی قیمت دو سے تین گنا بڑھ جاتی ہے ۔ آٹا ‘ گندم‘ پٹرول ‘ ادویات اور بجلی مافیاز کا بھی یہی حال ہے ۔ حکومت جتنا قابو پانے کی کوشش کرتی ہے وہ اتنے ہی بڑھتے جارہے ہیں ۔ بلیک میلنگ کرتے ہیں اور حکومت گرانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ حکومت نے اگر ان کو کنٹرول نہ کیا تو آئندہ دو سال بھی ویسے ہی گزریں گے جیسے پہلے ڈھائی سال گز ر چکے ۔ حکومت کیلئے یہ پانچ چیلنج ہیں مگرمیں انہیں امتحانات کہوں گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ان امتحانات میں پاس ہوتی ہے یانہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں