ملکۂ برطانیہ کا پی ڈی ایم کے لیے پیغام

یہ 1966ء کے برطانیہ کی کہانی ہے۔ اس کہانی سے ہمیں کتنے ہی سبق سیکھنے کو ملتے ہیں۔ جیمز وِلسن کو لیبر پارٹی کی طرف سے وزیراعظم کا منصب سنبھالے دو سال بیت چکے تھے۔ یہ دو سال برطانوی عوام کے لیے نہایت کٹھن اور جان لیوا ثابت ہوئے تھے۔ ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار تھی‘ ہر طرف مہنگائی کا راج تھا‘ پاؤنڈ کی قدر روز بروز گرتی جا رہی تھی‘ سٹاک مارکیٹ میں کاروبار نہ ہونے کے برابر تھا‘ بڑی صنعتیں تباہ ہو رہی تھیں اور چھوٹے کاروبار بند۔ ان حالات میں عوام کی زندگی مشکل سے مشکل ہوتی جارہی تھی، اس لیے انہوں نے سڑکوں کا رخ کر لیا۔ اب روزانہ کی بنیاد پر وزیراعظم آفس کے باہراحتجاج ہونے لگا تھا۔ حالات کی نزاکت بھانپ کر بینک آف انگلینڈ کے کچھ بڑے حرکت میں آئے۔ انہوں نے نامور سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور چوٹی کی کاروباری شخصیات کو اپنے ساتھ ملایا اور منتخب وزیراعظم کو نکالنے کے لیے سازش شروع کر دی۔ اس سازشی ٹولے نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا۔ جی ہاں! وہی لارڈ ماؤنٹ بیٹن جو تقسیمِ ہندکے وقت وائسرائے تھا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن پرنس فلپ کا رشتے میں چچا تھا اور اُس کی وزیراعظم جیمز ولسن سے ذاتی مخاصمت بھی تھی، اس لیے اُسے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے دو دن تک سوچ بچار کے بعد حکومت مخالف گروپ کو ایک پریزنٹیشن دی۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کہنا تھا ''پچھلی ایک دہائی میں دنیا کے 46 ممالک میں 73 بار حکومتوں کا تختہ الٹا گیا ہے جو ہمارے لیے بہت حوصلہ افزا بات ہے۔ دو سال پہلے گھانا کے صدر کو صرف 500 لوگوں نے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔ 1961ء میں ساؤتھ کوریا میں 3500 مسلح افراد نے حکومت کو چلتا کیا تھا لیکن اِن تمام کامیاب بغاوتوں سے جو اہم باتیں سامنے آئی ہیں وہ آسان ہدف نہیں ہیں۔ اگر ہم حکومت تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں وزیراعظم کو گرفتار کرنا ہو گا۔ میڈیا اور معیشت پر کنٹرول حاصل کرنا ہو گا۔ ہوائی اڈے اور ریلوے سٹیشنز بند کرنا ہوں گے۔ آئین کو بے آبرو کرنا ہو گا۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ میں اپنے ہمدرد پیدا کرنا ہوں گے۔ ہماری سرکار کو برسوں سے قائم اداروں سے طاقت ملتی ہے۔ کوئی بھی ایکشن اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک ہم ان اداروں اور اصولوں کو اکھاڑ کر نہیں پھینک دیتے۔ برطانیہ جیسی جمہوریت جو برسوں کی ریاضت کا نتیجہ ہے‘ وہاں یہ سب کرنا ناممکن ہے۔ کوئی فرد، کوئی ادارہ یا کوئی تنظیم ہمارے ساتھ کھڑی نہیں ہو گی۔ البتہ یہ کام صرف ایک صورت میں ہو سکتا ہے‘‘۔ سب حیرانی سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ اپنی با ت جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے ''اگر ملکۂ برطانیہ چاہیں تو ایسا ممکن ہے۔ 1920ء میں ایمرجنسی پاور ایکٹ لاگو کیا گیا تھا جو ملکہ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ مخصوص حالات میں پارلیمنٹ کو ختم کرکے ایک نئی حکومت کا اعلان کرسکتی ہیں‘‘۔ سازشی ٹولے میں سے ایک شخص نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے سوال کیا کہ کیا آپ کو کیا لگتا ہے کہ وہ ہماری بات مانیں گی؟ لارڈ ماؤنٹ بیٹن دوبارہ گویا ہوا۔ ''ہاں! ملک کے بگڑتے ہوئے معاشی حالات انہیں ایسا کرنے پر مجبور کریں گے۔ میری ان سے عزیزداری ہے‘ میں ان سے خود جا کر بات کروں گا‘‘۔
دوسری جانب وزیراعظم جیمز ولسن کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور اس کے ساتھیوں کی سازش کا پتا چل گیا۔ اس نے ملکۂ برطانیہ کو فون کرکے سخت الفاظ میں شکوہ کیا ہے جس پر ملکہ کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن پر شدید غصہ آیا۔ ملکہ کے کہنے پر لارڈ مائونٹ بیٹن کو فوری طور پر ملنے کے لیے بلایا جاتا ہے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ملکہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو بڑے ادب سے کہا کہ آپ مجھ سے ملنا چاہتی تھیں اور میں آپ سے! دو عمدہ دماغ ایک ہی خیال رکھتے ہیں۔ یہ سن کر ملکہ عالیہ قدرے ناگواری سے کھڑی ہو جاتی ہیں اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے کہتی ہیں کہ آپ بینک آف انگلینڈ کیا کرنے گئے تھے؟ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہتا ہے: میں لنچ کے لیے بینک آف انگلینڈ گیا تھا۔ وہاں لوگوں سے ملنے اور اُن کو سننے کیونکہ وہ خوف زدہ ہیں۔ اُن کے اس خوف سے آپ بھی واقف ہیں۔ ملکہ سخت لہجے میں جواب دیتی ہیں: ہاں شاید! مگر اُن کے ساتھ سازش رچانا اِس کا حل بالکل نہیں ہے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن فوراً جواب دیتا ہے: یہ حل کی شروعات ہے‘ آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں؟ آپ ولسن کو کیسے بچا سکتی ہیں؟ ملکہ غصے سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو دیکھتی ہے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تاریخی الفاظ بولتی ہے: میں بچا رہی ہوں ہمارے وزیراعظم کو۔ میں بچا رہی ہوں ہمارے آئین کو۔ میں بچا رہی ہوں ہماری جمہوریت کو‘‘۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتا ہے: وہ شخص جمہوریت کی وجہ سے ہمارے ملک کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ کیا ہم کھڑے کھڑے تماشا دیکھتے رہیں؟ ملکہ صوفے پر بیٹھ کر پورے اعتماد کے ساتھ کہتی ہے: ہاں! ایسے ہی ہے۔ کچھ نہ کرنا ہی ہمارا کام ہے۔ آرام سے انتظار کریں، جنہوں نے اُسے پہلے ووٹ دے کر منتخب کیا تھا‘ وہی دوبارہ ووٹ دے کر اس کو باہر نکال سکتے‘ اگر وہ ایسا چاہتے ہیں تو... کسی اور کے پاس وزیراعظم کو نکالنے کا اختیار نہیں ہے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن شرمندہ سا ہوکر خالی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگتا ہے۔
یہ واقعات اگرچہ برطانیہ کے ہیں مگر ہم اِن سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر کیوں 40 سالہ سیاسی طور پر ناتجربہ کار ملکہ نے 66 سالہ جہاں دیدہ شخص کو نظریں جھکانے پر مجبور کر دیا۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر کیوں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو سازش کرتے ہوئے بھی اپنے اداروں کے کردار اور جمہوریت کے گرد فولاد سے بنے آئین کی مضبوطی کا یقین تھا۔ اسے پتا تھا کہ ہم لاکھ جتن کر لیں‘ لوگوں کو پارلیمنٹ اور جمہوریت سے بددل نہیں کر سکتے۔ ہم چاہ کر بھی بغاوت کامیاب نہیں کروا سکتے۔
آج پاکستان کے حالات بھی ویسے ہی ہیں۔ وہی مہنگائی، وہی روپے کی ناقدری، وہی معیشت کی تباہی اور وہی حکومت گرانے کے نعرے۔ پی ڈی ایم کی صورت میں ایک گروہ چاہتا ہے کہ یہ حکومت کل کی ختم ہوتی آج چلی جائے۔ کچھ بھی ہو جائے یہ حکومت بدل جائے۔ آئین پامال ہو یا جمہوریت، ادارے بدنام ہوں یا سیاسی جماعتیں‘ انہیں اس سے کچھ غرض نہیں ہے۔ غرض ہے تو حکومت کے جانے سے۔ پیپلز پارٹی نے یہاں لارڈ ماؤنٹ بیٹن والا کردار ادا کرنے کی کوشش کی اور اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ تبدیلی آئینی طریقے سے آ سکتی ہے‘ غیر جمہوری انداز سے نہیں۔ فی الحال کوئی ادارہ ہمارے ساتھ نہیں کھڑا ہو گا مگر پی ڈی ایم پر تو ایک ہی دھن سوار ہے؛ حکومت کی نااہلی کا راگ الاپنا اور وزیراعظم کی تبدیلی کا شور مچانا۔
کاش! پی ڈی ایم کی قیادت نیٹ فلکس کی سیریز ''The Crown‘‘ کے تیسرے سیزن کی پانچویں قسط دیکھ لے جس میں ملکۂ برطانیہ کو جمہوری وزیراعظم کے حق میں بولتے دکھایا گیا ہے‘ شاید اُنہیں کچھ احساس ہو جائے کہ وہ کس جرم کے مرتکب ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ کاش! ہماری اپوزیشن جماعتوں کو ادراک ہو جائے کہ غیر جمہوری انداز سے وزیراعظم تو بدل جاتے ہیں مگر آئین کی عزت تار تار ہو جاتی ہے۔ سازش اور زور زبردستی کرنے سے حکومت گھر چلی جاتی ہے مگر ساتھ ہی جمہوری اقدار بھی رخصت ہو جاتی ہیں۔ کاش! پی ڈی ایم کو کسی طرح اندازہ ہو جائے کہ عزت شخصیات کی نہیں‘ عہدے کی ہوتی ہے۔ آج عمران خان اس عہدے پر ہیں تو کل کو کوئی اور بھی آ سکتا ہے۔ آج تحریک انصاف حکومتی جماعت ہے تو کل کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی باری بھی آ سکتی ہے۔ پھر کیا کریں گے؟ کیا تب کی اپوزیشن یہی روش اختیار نہیں کرے گی؟ برطانیہ سے نہیں تو تحریک انصاف سے ہی سبق سیکھ لیں۔ شاید آج وہ دل میں 2014ء اور 2016ء کے دھرنوں کو کوس رہے ہوں۔ شاید آج انہیں بھی لگ رہا ہوکہ وزیراعظم کو صرف ووٹ کی طاقت سے بدلا جا سکتا ہے، سازشوں اور دھرنوں سے نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں