لاتوں کے بھوت

ضد کی دھوپ میں جلنے والے کبھی شام کے سحر سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔ وہ نامراد ہی نہیں ہمیشہ ناشاد بھی رہتے ہیں۔ وہ چاہ کر بھی نہیں سمجھ پاتے کہ آنکھیں بند کر کے چلنا ایک فرد کے لیے جتنا مہلک ہو سکتا ہے اس سے کہیں زیادہ خطرناک ایک قوم کے لیے ہوتا ہے۔ آپ کھلے میدان میں بھی آنکھیں موند کر چلیں تو ٹھوکر سے محفوظ نہیں رہ سکتے کجا کہ مصروف شاہراہ پر نکل آئے ہوں۔ ایسا کرنے سے آپ خود کو ہی نہیں دوسروں کو بھی ہلاکت اور تباہی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ پاکستانی قوم جان لے! امتحان کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ حالات انتہائی نازک ہیں۔ اس بار صرف ظاہری آنکھ سے کام نہیں چلے گا، عقل و بصیرت کی روشنی کو بھی بروئے کار لانا ہوگا۔ چشمِ دیدہ ہی نہیں چشمِ دل کو بھی کھولنا ہو گا۔ تدبیر اور تدبر کو لگے تالے توڑنا ہوں گے پھر جاکر موت اور خوف کا موسم تمام ہو گا۔ غالب یاد آتے ہیں ؎
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
کورونا وائرس کی تیسری لہر میں قوم کا اجتماعی درد تمام حدیں پار کر چکا۔ ہر انہونی ہو چکی مگر ہماری قوم کی ضد ہے کہ ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ درد ابھی تک دوا کے منصب تک نہیں پہنچا۔ آپ بازاروں میں چلے جائیں، عبادت گاہوں کا رخ کریں، پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کر لیں، چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے کاروباری یونٹ کا چکر لگا لیں۔ آپ کو جا بجا ایسے ''زرخیز دماغ‘‘ لوگ ضرور ملیں گے جو کورونا کو عالمی ڈرامے بازی اور فراڈ سے تشبیہ دیں گے۔ پاکستان میں ہزارو ں اور دنیا بھر میں لاکھوں افراد جان سے چلے گئے مگر ان ''اعلیٰ مرتبت‘‘ افرادکی سوچ بدلنے کا نام نہیں لے رہی۔ مجھے ذاتی طور پر پہلی بار احساس ہوا ہے کہ ہماری قوم کتنی اڑیل، خودسر اور خود غرض ہے۔ چند روز قبل ایک صاحب سے فون پر بات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کورونا کا شکار ہوگئے تھے مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ بخار کے باوجود اپنے کام پر جاتے رہے اور لوگوں سے ملتے رہے۔ میں نے موصوف کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے ٹکا سا جواب دے کر فون بند کر دیا ''یہ نوکری نہیں ہے‘ کاروبار ہے۔ مجھے بھی تو وائرس کسی سے لگا ہے نا! ایک دو کو مجھ سے لگ جائے گا تو کیا فکر‘‘۔ ان کا جواب سن کر میں ششدر رہ گیا کہ خدایا! یہ کیسا شخص ہے؟ اپنے چھوٹے سے کاروبار کی وجہ سے اس نے سینکڑوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں اور اسے کوئی پشیمانی ہے نہ احساس۔ یہ تو ایک شخص کی کہانی تھی۔ نجانے کتنے ہی ایسے افراد روز ہمارے اردگرد پھرتے ہوں گے اور کورونا کا زہر ایک سے دوسرے شخص میں منتقل کرتے ہوں گے۔ معلوم نہیں! ہمیں ماسک سے کیوں چڑہے؟ سینی ٹائزر ہمیں کیوں برا لگتا ہے؟ سماجی فاصلے کو ہم کیوں ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے؟ ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے اجتناب کرنا ہمیں کیوں معیوب لگتا ہے؟ ہمیںغیر ضروری محفلوں میں اتنی کشش کیوں محسوس ہوتی ہے؟ آپ خود فیصلہ کریں‘ حکومت ایسے میں کیا کرے؟ لاک ڈاؤن لگائے اور کاروبار بند کر دے؟ کیا عوام کے لیے یہ قابلِ قبول ہوگا؟ کیا ہماری معیشت اس کی متحمل ہو سکے گی؟ اگر نہیں تو ایس او پیز پر عمل درآمد ہم کیوں نہیں کرتے؟ کتنے افسوس کی بات ہے کہ حکومت کو اس کام کے لیے بھی فوج کو زحمت دینا پڑی ہے؟ کیا فوج اسی کام کے لیے رہ گئی ہے؟یہ بحیثیتِ قوم ہمارے لیے فخر کی بات ہرگز نہیں ہے‘ کیا کبھی ایک درخت کو دوسرے درخت اور ایک جانور کو دوسرے جانور کے ساتھ زور زبردستی کرتے دیکھا ہے؟ کیا اب ہم درختوں اور جانوروں سے بھی بدتر ہو چکے ہیں؟ ہم کیوں اپنے ملک کے قوانین کا احترام کرنا ضروری نہیں سمجھتے؟ ہم ایس او پیز کا احترام کرتے تو حکومت کو یہ انتہائی قدم نہ اٹھانا پڑتا۔ ہمارے رویوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم صرف لاٹھی کے یار اور لاتوں کے بھوت ہیں‘ بھلاخالی باتوں سے کیسے مانتے۔
پاکستان میں کورونا وائرس کی پہلی دونوں لہریں اتنی خطرناک نہیں تھیں جتنی یہ تیسری لہر ہے مگر غضب خدا ہم کوئی سبق سیکھنے کو ہی تیار نہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک انڈیا میں کہرام مچا ہے۔ ہر طرف موت ہی موت ہے۔ جن کے پاس وسائل ہیں وہ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں مگر وہ کیا کریں جن کا جینا مرنا اسی دھرتی کے ساتھ ہے؟ وہاں لاکھوں لوگ روزانہ کورونا کا شکار ہو رہے ہیں اور ہزاروں موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اب وہاں مریضوں کے لیے بیڈز موجود ہیں نہ آکسیجن۔ وینٹی لیٹرز ہیں نہ ایمبولینسز۔ ڈاکٹرز ہیں نہ نرسز۔ لوگ سٹرکوں پر پڑے ہیں اور حکومت کو کوس رہے ہیں۔ اب حکومت کیا کرے اور کیا نہ کرے‘ سرکار کے وسائل بھی محدود ہوتے ہیں۔ سپین، اٹلی، برطانیہ، امریکا اور فرانس کا ہیلتھ سسٹم تباہ ہو سکتا ہے تو بھارت کا کیوں نہیں۔ وہ تو ویسے ہی آبادی کا ایٹم بم ہے، پہلی بار پھٹا ہے تو مودی سرکار کی چولیں ہل گئی ہیں۔ بھارت میں کورونا سے تباہی راتوں رات نہیں ہوئی۔ عوام اور حکومت‘ دونوں ہی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ حکومت اپنے فرائض سے غافل رہی اورعوام نے لاپروائی کی چادر نہیں اتاری۔ جب پتا تھا کہ کورونا کی وبا خطرناک حدوں کو چھو چکی ہے تو حکومت کو کیا ضرو رت تھی بنگال الیکشن کو اتنی ہوا دینے کی؟ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں نے بڑے بڑے جلسے کیے جس کا نہایت بھیانک نتیجہ اب برآمد ہو رہا ہے۔ کمبھ کا میلہ 2022ء میں منعقد ہونا تھا توکیوں ایک سال پہلے کرنے کی اجازت دی گئی؟ کروڑوں لوگ وہاں گئے اور موت کا پروانہ لے کر گھروں کو لوٹ گئے۔ تیسری بڑی وجہ پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کا احتجاج ہے۔ حکومت نے ان کے مطالبات کو رد کر کے عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا۔ نہلے پر دہلا یہ کہ بھارت دنیا میں سب سے زیادہ ویکسین بنا رہا ہے مگر اس کا سارا زور ویکسین کی برآمد پر ہے۔ اپنے لوگوں کوضرورت کے مطابق ویکسین نہ دے کرمودی سرکار نے تباہی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ کوئی حکمران بھلا اتنا بے رحم کیسے ہو سکتا ہے؟
بھار ت کی صورت حال ہم سب کے سامنے ہے مگر پھر بھی نجانے کیوں ہم مسلسل آنکھیں بندکیے ہوئے ہیں۔ ہم بھارت میں ہونے والے بنگال الیکشن، کمبھ میلے اور کورونا ویکسین کی عوام کو عدم فراہمی سے کیوں کچھ نہیں سیکھتے؟ ہمارے ہاں بھی پی ڈی ایم عوام کو سٹرکوں پر لانا چاہتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے عوام بھارت سے کوئی سبق سیکھیں گے ؟ ابھی رمضان کا دوسرا عشرہ چل رہا ہے اور عید کی آمد آمد ہے‘ کیا ہمارے لوگ کمبھ کے میلے کی طرح بد احتیاطی کا مظاہرہ تو نہیں کریں گے؟ عید سال میں دو بار آتی ہے مگر زندگی بار بار نہیں ملتی۔ حکومت پہلے ہی ویکسین کی خریداری کے معاملے میں شدید غفلت کی مرتکب ہو چکی ہے مگر مزید دیر کسی بڑے پچھتاوے کے در پر دستک دے سکتی ہے۔ یاد رکھیں! ہمارے ہسپتال بھی بھر چکے ہیں، ویکسین ہے نہیں اور آکسیجن ختم ہونے کے قریب ہے۔ بھارت کے پاس پھر وسائل ہیں وہ ویکسین کی تعداد بڑھا سکتا ہے مگر ہم... ہمارے پاس سوائے احتیاط کے اور کیا آپشن ہے؟ خدا عقل والوں کو جا بجا بکھری نشانیوں سے سبق سیکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ اگر ہم ہوش کے ناخن لیں تو بھارت کے مخدوش حالات ہمارے لیے سبق کا ذریعہ بن سکتے ہیں، مگر اس کے لیے بھی ہمیں پہلے اپنے اندر کے ضدی بچے کو خاموش کرانا ہوگا۔ ازل سے ہمارے اندر موجود اَنا، تعصب، فریب اور احساسِ برتری کو دفن کرنا ہو گا۔ پھر جا کر کہیں زندگی کے چراغ جلیں گے اور اندھیرا چھٹے گا۔ کورونا کے ہنگام میں عبدالحمید عدم کے شعر کا مطلب ہی بدل گیا ہے۔
اے عدمؔ احتیاط لوگوں سے ؍ لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں