ایوارڈ کی حقدار حکومت

گوربا چوف نے1985ء میں سویت یونین کی کمان سنبھالی تو روسی معیشت بربادی کے دہانے پرکھڑی تھی۔ دنیا کی دوسری بڑی طاقت معاشی طور پر کھوکھلی ہو چکی تھی۔ گوربا چوف نے تبدیلی کا نعرہ لگایا اور معاشی اصلاحات کے دو بڑے منصوبے شروع کردیے۔ اس کا خیال تھا کہ ان منصوبو ں سے پرائیویٹ سیکٹر کو فائدہ ہوگا،غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھے گی،کاروبار دنوں میں ترقی کرنے لگے گا اور ملک منہ زور معاشی بحران سے باہر نکل آئے گامگر گوربا چوف کی ساری تدبیریں الٹی ہوگئیں۔ سویت یونین میں مہنگائی کو پَر لگ گئے،کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہونے لگی اور لوگ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے لائنوں میں لگنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سار ا ملک معاشی، سیاسی اور نظریاتی بحران کا شکار ہوگیا۔ پھر وہی ہوا جو ایسی صورتحال میں ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ 25 دسمبر1991ء کو گورباچوف نے استعفیٰ دے دیا اور اگلے ہی دن لینن کی بنائی ہوئی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ اس کے بعد روس نے گوربا چوف کی معاشی پالیسیوں کے تجزیے کے لیے ایک انکوائری کروائی۔ اس انکوائری رپورٹ میں حیرت انگیز باتیں تھیں۔ رپورٹ کے مطابق‘ گورباچوف اپنی معاشی پالیسیوں کو لے کر ضد پر اتر آئے تھے۔ ان کی معاشی ٹیم انہیں عوام کے مسائل سناتی تو ان کا ایک ہی جواب ہوتاکہ میری معاشی پالیسیوں کے نتائج دوررس ہوں گے اور ایک نہ ایک دن ہم اپنے شبابِ رفتہ میں لوٹ جائیں گے، آپ عوام کو بتائیں کہ مشکل وقت گزرنے والا ہے۔ رپورٹ کے آخر میں لکھا تھا کہ اطمینان کی میٹھی گولی کا اثر دیر پا نہیں ہوتااور محض وعدوں اور دلاسوں سے عوام کا پیٹ بھرتا تو سوویت یونین کبھی نہ ٹوٹتا۔ اس رپورٹ کو ''گوربا چوف انکوائری رپورٹ‘‘ کہا جاتا ہے جس سے ترقی پذیر ممالک کے حکمران بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اس رپورٹ کا سبق یہ ہے کہ شِکر دوپہر اندھیرا چھا جائے تو اسے رات نہیں کہتے اورکالی رات میں مصنوعی روشنیوں سے اجالا کرکے دن ہونے کا اعلان نہیں کیا جاتا۔ روشنی اور اندھیرے کو اپنے ہونے کا احساس دلانے کے لیے ڈھنڈورا نہیں پیٹنا پڑتا ‘چاندچڑھتا ہے تو دنیا دیکھتی ہے اور سورج نکلتا ہے تو ساری دھرتی روشن ہوجاتی ہے۔
کسی بھی ملک میں معیشت تین طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ معیشت جسے حکمران طبقہ اپنے اعدادوشمار سے بیان کرتا ہے، دوسری کاروباری حضرات کی معیشت اور تیسری قسم کی معیشت عوام کی روزمرہ زندگی سے جڑی ہوتی ہے۔ حکومتیں اور کاروباری شخصیات اپنے سیاسی اور مالی فائدے کے لیے سچ‘ جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں مگرعوام کے حالات ملکی معیشت کا حقیقی آئینہ ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی اصل معاشی ترقی کا اندازہ لگانا ہوتو عوام سے رجوع کیا جاتا ہے۔ ملک میں کاروباری سرگرمیاں بڑھیں تو عوام کے چہرے خوشی سے کھِل اٹھتے ہیں۔ لوگوں کی سالانہ آمدنی میں اضافہ ہو تو عوام حکمرانوں کے گیت گاتے نہیں تھکتے۔ ملک کی معیشت کا حجم بڑھ جائے تو عام آدمی کی اداسی کم ہوجاتی ہے۔ روزگار کے مواقع زیادہ ہوجائیں تو عوام کا اضطراب گھٹ جاتا ہے۔ ایک بار آپ اپنے اردگر موجودد لوگوں کے چہروں کو ضرور دیکھیں‘ کیا نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد ان کے چہروں کے تاثرات میں بدلاؤ آیا ہے ؟ کیا وہ خود کو پہلے سے زیادہ خوش محسوس کررہے ہیں ؟
چند روز قبل نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے پاکستان کے حکمرانوں کو شاد اور اپوزیشن کو حیران کردیا۔ کمیٹی کے مطابق‘ پاکستان میں ترقی کی شرح منفی سے نکل کر 3.94 تک پہنچ چکی ہے اور جی ڈی پی کا حجم 263 بلین ڈالر سے بڑھ کر 296 بلین ڈالر ہوچکا ہے۔ یہی نہیں‘ پاکستانیوں کی اوسط سالانہ آمدنی 1361 ڈالرزسے تجاوز کرکے1543 ڈالرز ہوچکی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ معیشت کی ترقی کی رفتا ر میں اضافہ اس لیے ہوا کیونکہ زراعت کے شعبے میں گروتھ 2.8 فیصد، صنعتی شعبے میں 3.6فیصد اور سروسزسیکٹر میں گروتھ4.4 فیصد رہی۔ ہوسکتا ہے حکومت کے اعدادوشمار درست ہوں اور یہ بھی ممکن ہے حکومت نے سیاسی فائدے اور عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ایک میٹھی گولی تیار کی ہو۔ معیشت کے اعدادوشمار حکومت کے پاس ہوتے ہیں اس لیے غلط صحیح کا اعلان ہم نہیں کرسکتے مگر ایک بات طے ہے کہ یہ اعدادوشمار حیران کن ہیں اور عوام کی زندگیوں سے مطابقت بھی نہیں رکھتے۔
چند سوالات‘ جو حکومت سے کرنا بنتے ہیں‘ کے جوابات سے معیشت کی ترقی پر مہر تصدیق ثبت کی جا سکتی ہے۔ حکومت کے اپنے اعدادوشمارکے مطابق‘ اس سال ملک میں گیس اور بجلی کی کھپت میں تقریباََ 23 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ بجلی اور گیس کو استعمال کیے بغیر صنعتی شعبے نے اتنی ترقی کیسے کر لی ؟ سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات سروسزسیکٹر میں ترقی ہے۔ جب سال کا زیادہ حصہ ہول سیل، ریٹیلر شاپس، ہوٹلز، سکول، کالجز، مواصلات اور دیگر شعبوں کو بندش کا سامنا رہا تو ایک دم اتنی گروتھ کا معمہ سمجھ میں نہیں آتا؟ کیا حکومت سروسز سیکٹر میں ہونے والی ترقی کا منتر عوام کو سمجھائے گی؟ جب ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں 32.5 فیصد اور پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری میں بھی کمی کا سامنا رہا ہو اور اہداف پورے نہیں ہوسکے تو کس طرح ترقی کی شرح اتنی تیزی سے بڑھ سکتی ہے؟ حکومت نے خود بتایا تھا کہ اس سال گروتھ ریٹ 2.9 فیصد رہنے کی توقع ہے جبکہ آئی ایم ایف نے اسے 2 فیصد اور ورلڈ بنک نے 1.5 رہنے کی پیشگوئی کی تھی۔ حکومت صرف یہ بتا دے کہ کیا اس نے آئی ایم ایف اور نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کو الگ الگ ڈیٹا دیا تھا؟ اور اگر ایسی بات نہیں ہے تو دونوں اداروں کی رپورٹس میں اتنا فرق کیسے ہو سکتا ہے؟ حکومت کا کہنا ہے کہ رواں سال لوگوں کی جانب سے سات فیصد زیادہ خرچ کیا گیا ہے جس کا اثر شرح نمو میں دیکھنے میں آیا ہے۔ حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ اس زیادہ خرچ کرنے کی وجہ کیا ہے؟ جب ملک میں مجموعی طور پر مہنگائی بڑھ رہی ہے اور فوڈ انفلیشن 17 فیصد سے تجاوز کرچکا ہے تو عوام کیسے زیادہ خرچ کرسکتے ہیں ؟ ہاں ! ایک اور اہم سوال جس کا جواب حکومت کے ذمے ہے‘ وہ یہ کہ حکومت نے ''نوید‘‘سنائی ہے کہ عوام کی سالانہ آمدن میں 14.6 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ ہوسکتا ہے اس پر عوام بھی متعجب ہوں کہ ان کی سالانہ آمدن اتنی بڑھ چکی ہے اور انہیں معلوم ہی نہیں۔ سوال صرف اتنا ہے کہ عوام کی سالانہ آمدن کا تخمینہ لگاتے ہوئے آبادی کے نئے اعدادوشمار کا استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟ جب 2017ء میں ہونے والی مردم شماری کے تنائج منظور ہوچکے ہیں تو پھر اس امر کی وجہ کیا ہے ؟ آبادی کے سرکاری نتائج کے مطابق‘ پاکستانیوں کی سالانہ آمدنی میں کمی ہوئی ہے۔
حکومت کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ شرح نمو میں اضافہ کی وجہ بیس ایفیکٹ بھی ہے کیونکہ گزشتہ برس ہماری معاشی ترقی کی رفتار منفی میں تھی۔ اب تھوڑی شرح نمو بڑھی ہے تو ہمیں زیادہ نظر آرہی ہے جبکہ حقیقتاً وہ 2018-19 کے مالی سال سے بھی کم ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ سال لوگ کورونا سے زیادہ ڈرے ہوئے تھے اور انہوں نے خریداری کے لیے بازاروں کا رخ کم کیاتھا۔ اس بار لوگوں کا ڈر کچھ کم ہوا ہے تو انہوں نے جی بھر کر اخراجات کیے ہیں۔ یہ تمام علامات وقتی ہیں، ہوسکتا ہے آئندہ سال ایسا نہ ہو۔ یہی صورت حال برآمدات کے حوالے سے بھی ہے۔ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمیں آرڈرز پہلے سے زیادہ ملے ہیں۔ ہوسکتا ہے باقی ملکوں میں لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد آرڈرزکم ہوجائیں۔ میرے نزدیک معیشت کی ہانڈی میں ابال وقتی ہے۔ حکومت شادیانے بجانے کے بجائے اپنی معاشی پالیسیوں پر توجہ دے اور کھوج لگائے کیا ہماری معیشت کے کرتا دھرتا عوام کو محض دلاسے اور تسلی تو نہیں دے رہے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور معیشت نے فی الواقع ترقی کی ہے تو حکومت یقینا ایوارڈ کی حق دار ہوسکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں