حکومت سے امیدوابستہ کر سکتے ہیں ؟

آپ کسی فرانسیسی شخص کی فیس بک وال پر چلے جائیں۔ آپ پر حیرتوں کے نئے جہاں وا ہوں گے۔ وہ آپس میں مباحثہ کرتے دکھائی دیں گے اور دھیمے سروں میں گفتگو بھی مگر مہنگائی ان کا مسئلہ ہو گی نہ بے روزگاری۔ وہ بدانتظامی کا رونا روئیں گے نہ مافیاز کا بلکہ فرانسیسی اس لیے پریشان ہوں گے کہ دنیا کا درجہ حرارت معمول سے 1.5 ڈگری زیادہ ہو چکا ہے اور اگر یہ پارہ 2 ڈگری تک بڑھ گیا تو چالیس کروڑ افراد کو ہیٹ ویو کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی نہیں، اگر دنیا کا درجہ حرارت ایسے ہی بڑھتا رہا تو آنے والی دہائیوں میں خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا انسانوں کے رہنے کے قابل رہے گی نہ حیوانوں کے۔ جانور زندہ رہیں گے نہ پرندے۔ درخت بھی مرجھا جائیں گے اور ہوائیں بھی شدت اختیار کر جائیں گی‘‘۔ اگر آپ اس موضوع سے اُکتا جائیں توکسی امریکی شہری کی وال پر نظر دوڑائیں۔ اُن کا موضوع سخن کورونا وائرس ہو گا۔ وہ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں گے ''کیا ویکسین کے بعد دنیا کورونا وائرس سے مکمل طور پر محفوظ ہو جائے گی ؟ اگرنہیں ہو گی تو پھرسائنسدانوں کو اور کیا کرنا چاہیے؟ ویکیسن ابھی صرف بڑے ممالک کو دستیاب ہے‘ چھوٹے اور غریب ملکوں کو کب ملے گی؟‘‘ یہ موضوع بھی اگر آپ کی طبیعت پر گراں گزرے تو چینی باشندوں کی ٹائم لائن پر چلے جائیں۔ چینی مضطرب ہوں گے کہ ''براعظم افریقہ سے غربت کب اورکیسے ختم ہو گی؟ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے سے گلوبل اکانومی پرکیا اثرات مرتب ہوں گے؟ چین اور کتنے سالوں میں سپر پاور بن جائے گا؟ جی 7 ممالک کے چین کے خلاف مشترکہ محاذ کے نتائج کیا ہوں گے؟‘‘ یہ کاروباری قسم کی گفتگو بھی آپ کو بیزار کر دے تو برطانوی شہریوں کی سرگرمیوں پر نظر جما لیں۔ وہ بھی دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث ہیجان کا شکار دکھائی دیں گے۔ وہ آپس میں گفتگو کررہے ہوں گے کہ ''دنیا کے ہر کونے سے لوگ جوق در جوق بڑے شہروں اور ملکوں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ یہ رجحان خطرے کی علامت ہے۔ اگر اسی رفتار سے لندن، نیویارک، پیرس، ٹوکیو اور دبئی کی آبادی بڑھتی رہی تو حالات بہت مخدو ش ہو جائیں گے اور مقامی باشندوں کو رہنے کے لیے جگہ نہیں ملے گی۔ ترقی پذیر ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے آگے بند باندھیں ورنہ نقصان اقوامِ عالم کا ہوگا‘‘۔ اگر آپ برطانوی افراد کے خیالات سے بھی متفق نہ ہوں تو جرمن شہریوں کی وال کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ وہ لوگ فضائی آلودگی کے نقصانات کا احاطہ کرتے نظر آئیں گے۔ جرمن ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں گے کہ ''فضائی آلودگی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ دنیا بھر میں سانس کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں نوزائیدہ بچے ہلاک ہورہے ہیں۔ افریقہ، بھارت اور پاکستان فضائی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اگر دنیا بھر میں صنعتوں کا بڑھتا رجحان کم نہ ہوا تو فضائی آلودگی ایٹم بم جتنا بڑا مسئلہ بن جائے گی۔ جدت کی اہمیت اپنی جگہ مگر دنیا کو اپنی رفتار میں کمی لانا ہوگی‘‘۔ مجھے یقینِ کامل ہے کہ جرمن بھی آپ کو متاثر نہیں کر سکیں گے۔ پھر بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں‘ دل کرے تو اپنے لوگوں کے ''کمالات‘‘ پر نظر دوڑا لیں۔
ہمارے ملک کی تو بات ہی الگ ہے۔ جدھر دیکھیں اُدھر تماشا لگا ہے۔ سوشل میڈیا دیکھ لیں، بازاروں اور شاپنگ مالز میں چلے جائیں، پارلیمنٹ کی راہ داریوں میں گھوم لیں، حکومتی ایوانوں کا چکر لگا لیں، چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے عہدے دار سے بات کر لیں آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ ہر دوسرا شخص الجھنوں میں گھرا نظر آئے گا۔ کسی کی الجھن ذاتی ہو گی تو کوئی حکمرانوں کی پھیلائی کنفیوژن کا بوجھ اُٹھائے ہو گا۔ ستم تو یہ ہے کہ ہمیں اس کا ادراک بھی نہیں ہے کہ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں۔ باقی دنیا اپنے مسائل پر قابو پا کر عالمی قضیے حل کرنے میں لگی ہے مگر ہم ہیں کہ بنیادی ضروریات ہی پوری نہیں کر پا رہے۔ آج کے مشینی دور میں بھی آٹا، چینی، گندم، دالیں، پھل، گھی اور گوشت کی قیمتیں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ پیڑول، گیس اور بجلی نے ہماری زندگیوں میں آسانیاں نہیں مشکلات بھر دی ہیں۔ آپ خود فیصلہ کریں جب مسائل حل کرنے والے ہی مسائل کا موجب ہوں توکوئی کیا کر سکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک پوری کائنات کو تسخیر کرنے میں لگے ہیں اور ہم ابھی تک اچھے اور برے میں تمیز نہیں کر سکتے۔ جھوٹ اور سچ کو الگ الگ نہیں کر سکتے۔ دیانت دار اور بددیانت کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ قابل اور نالائق کی صف بندی نہیں کر سکتے۔ ہم آج بھی معاشی طور پر کمزور اور نظریاتی طور پر ابہام کا شکار ہیں۔ سائنس، معیشت اور ٹیکنالوجی ہماری ترجیح ہی نہیں۔ ہمارے اخبارات آج بھی زیادتی کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔ کہیں کسی بچی کو ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کہیں عمر رسیدہ خواتین کو شکار بنایا جاتا ہے۔ کبھی ایک صاحب کی وڈیو منظر عام پر آتی ہے اور کبھی دوسرے کی۔ اکیسویں صدی میں بھی ہم ہیجان اور زیادتی کے محرکات پر مباحثے کرتے ہیں۔ کوئی اس کو لباس کے ساتھ جوڑتا ہے تو کوئی اسے ذہنی عارضہ قرار دیتا ہے۔ کوئی خواتین کو کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے تو کوئی مرد حضرات کو۔ سیاستدان اپنی رائے پیش کرتے ہیں اور سکالرز اپنی توجیہات بیان کرتے ہیں مگر کوئی بھی ماہرین کی رائے کو اہمیت نہیں دیتا۔ سب کو اپنی اپنی دکان کا مال بیچنے کی جلدی ہے اور اسی باعث نقصان نسلوں کا ہو رہا ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ سے لے کر چوراہے تک‘ ہماری بحث اور گفتگو کے موضوعات ایک جیسے ہیں۔ الزام تراشی، گالم گلوچ اور ذاتی حملے۔ بجٹ پر تقریر ہو یا سوال جواب کا سیشن، ہم الزامات کی آندھی چلانا نہیں بھولتے۔ ہم ایک دوسرے کو چور، ڈاکو اور نااہل کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ہم آج بھی ملک دشمنی کے ٹھپے لگاتے ہیں۔ ہم لسانی تقسیم پر یقین رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر لیڈر چنتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ہم پنجابی، سندھی، بلوچ اور پشتون نہیں‘ پہلے پاکستانی ہیں۔ ہم ہر وہ کام کرنے میں پہل کرتے ہیں جو غیر ضروری ہو اور غیر منطقی بھی۔ ہم آج بھی اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ مرغی پہلے آئی تھی یا انڈہ۔ دن پہلے آتا ہے یا رات۔ صبح زیادہ سحر انگیز ہوتی ہے یا شام۔ کرپٹ زیادہ معیشت کا کباڑہ کرتا ہے یا نااہل۔ جھوٹا زیادہ خطرناک ہوتا ہے یا منافق۔ یوٹرن عظیم لیڈر لیتے ہیں یا کمزور رہنما۔ مہنگائی بڑا مسئلہ ہے یا احتساب۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم سر تا پا کنفیوژن میں اٹے ہوئے ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، دنیا کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے دن رات ویکسین بنانے میں مگن ہے اور ہماری آدھی آبادی آج بھی کورونا کو خطرہ مانتی ہے نہ ویکسین کو علاج۔ حکومت اب تک لگ بھگ پندرہ کروڑ لوگوں کو ویکسین لگوانے کی دعوت دے چکی ہے مگر مجال ہے دس فیصد نے بھی ویکیسن لگوائی ہو۔ کوئی کہتا ہے ویکسین لگوانے سے بانجھ پن لاحق ہو جاتا ہے تو کوئی اس سازشی تھیوری میں یقین رکھتا ہے کہ ویکسین سے دو سال بعد موت واقع ہو جائے گی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم موت کے علاج کو موت کے ساتھ جوڑ رہے ہیں اور شرمسار بھی نہیں ہوتے۔
جتنا وقت ہم لوگوں کو ڈرانے اور کنفیوز کرنے میں لگاتے ہیں اگر اس سے آدھا وقت بھی تعمیری کاموں پر صرف کریں تو قوم کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ ہم اندھیرے سے روشنی کی طرف جا سکتے ہیں۔ آنسوؤں کو مسکراہٹ میں بدل سکتے ہیں اور بدحالی سے نکل کر ترقی کی منزلیں عبور کر سکتے ہیں۔ خدارا! کوئی تو ہو جو ہماری قومی کنفیوژن کو ختم کر سکے۔ کوئی تو ہو جو ہمیں قوم کہنے کا حق دلا دے۔ کیا ہم موجودہ حکومت یا وزیراعظم عمران خان سے امید رکھ سکتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں