عوام پر رحم کریں!

سیاسی جھگڑے ختم ہوں تو عوامی مسائل پر دھیان جائے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے فرصت ملے تو روپے کی بے قدری کا کرب محسوس ہو۔ مخالفین پر کیچڑ اچھالنے سے خلاصی ملے تو عوام کی مہنگائی سے نکلتی چیخیں سنائی دیں۔ کوئی تو بتائے عوام کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے؟ کیا ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے زنداں کے روشن دان سے سرسبز وادیوں اور نیلے آکا ش میں جھانکنے کی خواہش کی تھی؟ کیا وہ اسی لیے قصوروار ہیں کہ انہوں نے آزاد اور کرپشن سے پاک فضا میں سانس لینے کی کوشش کی تھی؟ کیا ان کی یہی خطا ہے کہ انہوں نے ووٹ ڈالتے وقت معاشرتی روایت نہیں بلکہ دیانت داری کو افضل جانا تھا؟ عوام کے لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ وقت کا ستم اور حالا ت کا جبر دوچند ہوتا جا رہا ہے۔ نجانے کیوں غم کی صلیب اٹھائے زندگی کے خاردار اور تھکا دینے والے راستے پر چل کر بھی عوام کے حصے میں آسائشیں ہیں نہ سکون۔ وعدے وفا ہوئے نہ رات کی سیاہی مدھم ہوئی۔ قانون شکنی کی رسم انجام کو پہنچی نہ مافیاز سے نجات مل پائی۔ ڈھنگ سے احتساب ہوا نہ لوٹی دولت کا سراغ مل سکا۔ وہی پرانا طرزِ حکمرانی، وہی پرانے نعرے۔
ترے وعدوں پہ کہاں تک مرا دل فریب کھائے
کو ئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے
میاں شہباز شریف یا ان کے بیٹے سلمان شہباز کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے اگر منی لانڈرنگ کے الزامات سے بری کیا ہے تو حکومت کام کاج چھوڑ کر خبر کو غلط ثابت کرنے کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہے؟ کیا حکومت کے پاس کرنے کو اور کوئی کام نہیں جو ہر وقت سیاسی درجہ حرارت بڑھانے کی خاطر جلتی آگ پر تیل چھڑکتی رہتی ہے؟ ملک میں تیل کی قیمتیں اس وقت آسمان کو چھو رہی ہیں، پھر بھی کچھ حلقے جلتی پر تیل چھڑکنے سے باز نہیں آتے۔ بتایا جا رہا ہے کہ عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں پٹرولیم مصنوعات کو ''کم مہنگا‘‘ کرنے پر حکومت کو دو ارب کا نقصان ہوا۔ عجب ہنگامہ برپا ہے‘ لندن کورٹ کا ایک فیصلہ سامنے آتا ہے اور حکومت کہتی ہے ہم اس کیس میں مدعی نہیں تھے بلکہ مدعی تو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی تھی۔ حکومت پاکستان سے تو انہوں نے معاونت مانگی تھی جو انہیں مہیا کر دی گئی۔ حکومت کا اصرار ہے کہ برطانوی کرائم ایجنسی نے سلمان شہباز کے صرف دو اکاؤنٹس کی چھان بین کی ہے، میاں شہباز شریف کا تو اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ عدالتی فیصلے میں کہیں بھی سابق وزیراعلیٰ کا نام بلکہ ذکر تک نہیں بلکہ چھوٹے میاں صاحب کے خلاف تو منی لانڈرنگ کے دو کیسز پاکستان میں چل رہے ہیں۔
میڈیا کا کام کسی کو سچا ثابت کرنا ہے نہ جھوٹا۔ میڈیا خود خبر نہیں بناتا بلکہ خبر کو من وعن رپورٹ کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت جو کہہ رہی ہے‘ وہ درست ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ میاں شہباز شریف کا مؤقف ہی ٹھیک ہو۔ اس ضمن میں میرے صاحبانِ اقتدار سے چند سوال ہیں، اگر ان کے مناسب جواب حکومت دے سکے تو بہت ساری گتھیاں خود بخود سلجھ جائیں گی۔ حکومت کہتی ہے کہ وہ اس کیس میں مدعی نہیں تھی‘ سوال یہ ہے وہ کیوں مدعی نہیں تھی؟ اپنے احتساب کے بیانیے کے اعتبار سے تو حکومت کو اس کیس میں مدعی ہونا چاہیے تھا۔ تمام حکومتی اکابرین شریف فیملی کی مبینہ منی لانڈرنگ پر درجنوں پریس کانفرنسز کر چکے اور ان پر بیسیوں الزامات لگا چکے ہیں۔ اگر برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے حکومت سے معاونت مانگی تھی تو حکومت نے تمام ثبوت ان کے حوالے کیوں نہیں کیے؟ اور اگر تمام شواہد دیے گئے تھے تو پھر وہ ثابت کیوں نہیں ہو پائے؟ دوسرا، حکومت کہتی ہے کہ برطانوی عدالت کے فیصلے میں میاں شہباز شریف کا نام یا ذکر تک نہیں ہے۔ حکومت کی یہ بات اگرچہ درست ہے مگر میرا سوال یہ ہے کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کی جانب سے برطانوی کرائم ایجنسی کو لکھے گئے خط میں تمام الزامات تو شہباز شریف کے خلاف تھے‘ پھر برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ان کے خلاف تحقیقات کیوں نہیں کیں؟ اگر ان الزامات میں صداقت تھی تو پھر ان کو سنجیدہ کیوں نہیں لیا گیا؟ برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی دنیا کی مستند ترین ایجنسی مانی جاتی ہے‘ وہ جس کیس میں ہاتھ ڈالتی ہے‘ اس کی مکمل چھان بین کر کے حقائق سامنے لاتی ہے، ملزم خواہ کوئی بھی اور کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو‘ اسے اس سے فرق نہیں پڑتا۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت کی خواہش اور کوشش ہے کہ کسی طرح اس خبر کو ہی جھوٹا قرار دے دیا جائے تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اسی لیے حکومت دوسرے تمام کام چھوڑ کر اس نئے مشن پر جُت گئی ہے۔ دیکھئے! کہاں تک کامیاب ہو پاتی ہے۔
میں نے یہ پہلی حکومت دیکھی ہے جو اپنے اچھے کارناموں کا چرچا کرنے سے زیادہ سارا دن دوسروں کی برائیاں دکھانے میں مگن رہتی ہے۔ حکومتوں کے پاس تو کرنے کو اتنے کام ہوتے ہیں کہ دن چھوٹے پڑ جائیں اور راتیں بیداری میں گزر جائیں۔ کون سی مشکل ہے‘ اس وقت جس کا عوام کو سامنا نہیں کرنا پڑ رہا۔ معیشت بدحال ہے اور مہنگائی کنٹرول سے باہر۔ نوجوان ڈگریاں لے کر گھوم رہے ہیں مگر بے روزگاری ان کا دامن نہیں چھوڑ رہی۔ ڈالر مہنگا اور روپیہ اتنا بے قدر ہو گیا ہے کہ خدا کی پناہ! کون جانتا تھا کہ ڈالر 173 روپے کا ہوجائے گا اور سٹیٹ بینک پھر بھی اوپن مارکیٹ میں مداخلت نہیں کرے گا۔ کس کے وہم و گمان میں تھا کہ ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہوں گے اور پھر بھی روپے کی قدر مسلسل گھٹ رہی ہو گی۔ رہی سہی کسر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں نے پوری کر دی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار پٹرول 127 روپے کا لیٹر ہو گیا ہے۔ حکومت سے وجہ پوچھیں تو جواب ملتا ہے ''اس میں ہمار ا کیا قصور ہے؟ انٹرنیشنل مارکیٹ میں قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ ہمیں بھی مجبور ہو کر ایساکرنا پڑتا ہے۔ دعا کریں پاکستان میں تیل کے مزید ذخائر برآمد ہو جائیں تاکہ ہم سستا پٹرول عوام کو دے سکیں‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں بھی حکومت عوام کو تصویر کا ایک رخ دکھاتی ہے، اب ذرا دوسرے رخ پر ایک نظر ڈال لیں۔ مئی 2018 ء میں مسلم لیگ نون کی حکومت ختم ہوئی تو انٹرنیشنل مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت 75 ڈالر فی بیرل تھی اور آج بھی لگ بھگ یہی قیمت ہے مگر اُس وقت پٹرول 88 روپے فی لیٹر میں ملتا تھا اور آج اس کی قیمت 127 روپے ہے۔ حکومت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ فرق انٹرنیشنل مارکیٹ میں قیمتوں کا نہیں بلکہ روپے کی زبوں حالی کا ہے۔ ن لیگ کے دور میں روپیہ تگڑا تھا اور آج کمزور تر۔ اوپر سے ستم یہ کہ حکومت روپے کی بے قدری روکنے کے لیے سنجید ہ کوشش بھی نہیں کر رہی۔
حکومت‘ ریاست اور رعایا دونوں کی رکھوالی ہوتی ہے مگر کیا حکومت اپنی یہ ذمہ داری پوری کر رہی ہے؟ اگر ایسا نہیں کر رہی تو کیوں؟ حکومت جتنا وقت مخالفین کو نیچادکھانے پر صرف کرتی ہے اگر اس سے آدھا بھی گورننس کی بہتری پر لگائے تو عوام کے دن بدل جائیں۔ خدارا! عوام پر رحم کریں ورنہ ان کو لگے گا تبدیلی محض ایک خواب تھی اور ہمیشہ خواب ہی رہے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں