وزیراعظم‘ نوا ز شریف کو فون کریں گے؟

تاریکی کو اس سے بڑی سزا اور کیا مل سکتی ہے کہ اُسے سحر ہوتے ہی ختم ہونا پڑتاہے ۔ جنگ و جدل کا بھی یہی اصول ہے ۔ہر لڑائی کے بعد صلح ہوتی ہے اور ہر شورش کی کوکھ سے امن کی شمعیں جلتی ہیں۔بغاوت ہمیشہ نہیں رہتی‘ البتہ صلح و آتشی کی تاثیر دائمی ہے ۔علاؤ الدین خلجی نے کہا تھا شیر کو بزور بازو زیر کرنے والے کبھی گیدڑ سے گتھم گتھا نہیں ہوتے ۔اگرکوئی ایسا کرتا ہے تو وہ کبھی جنگل سے زندہ نکلنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ ظہیر الدین بابر اور رانا سانگا کے درمیان1527ء میں دلی کے تخت کے لیے لڑائی ہوئی ۔ رانا سانگا ہار گیا مگر اس نے بابر کی اطاعت قبول نہیں کی ۔ چتوڑ کے راجپوتوں اور مغلوں کے بیچ یہ دشمنی چار نسلوں تک چلتی رہی ۔ کئی بار مڈبھیڑ ہوئی ‘ ہزاروں لوگ جان سے گئے مگر آخرصلح ہوکر رہی ۔ امیر تیمور اور ابدال کلزئی کے درمیان جنگ ہوئی تو ہزاروں فوجیوں کوگاجر مولی کی طرح بے رحمی سے کاٹاگیا ۔ امیر تیمور کو شاید ہی پہلے کبھی اتنی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی مگر جیت تیمور کے حصے میں آئی۔ابدال کلزئی کو زخمی حالت میں امیر تیمور کے سامنے پیش کیا گیا ۔جنگ کے دوران تیمورکو کلزئی قبیلے کی بہادری ‘ شجاعت اور جنگی حکمت عملی نے بہت متاثر کیا تھا۔ تیمور نے ابدال کلزئی کو آفر کی کہ میں ایک شرط پر تیری جان بخشی کر سکتا ہوں اگر تو میرا خراج گزار بن جائے ‘میں تجھے تیری سلطنت بھی واپس کردوں گا ۔ ابدال کلزئی نے جواب میں کہا :پھر تو جلدی کر اور مجھے قتل کردے ۔ ایک کلزئی سردار کبھی بھی خراج گزار نہیں بن سکتا۔ امیر تیمور کو پتہ تھا کلزئی قبیلہ بہت خطر ناک ہے وہ تیمور کے جنگی عزائم اور مستقبل کے ارادوں میں حائل ہوسکتا تھا۔ اس نے ابدال کلزئی کو مارنے کے بجائے صلح اور دوستی کو ترجیح دی ۔تیمور نے اس موقع پر اپنے مشیروں سے کہا:جو مستقبل میں جینا چاہتے ہیں وہ کبھی حال میں نہیں پھنستے۔ آگے بڑھنے کے لیے ماضی کو بھلانا پڑتا ہے۔ یہی نہیں مرہٹہ سلطنت کے پیشوا باجی راؤنے نظام دکن سے صلح کے وقت کہا تھا :ہر یدھ کا نتیجہ تلواروں سے نہیں نکلتا ۔تلوار سے زیادہ کاٹ چلانے والے کی سوچ میں ہونی چاہیے ۔ہمیں پورے ہندوستان میں مرہٹہ سلطنت قائم کرنی ہے تو دشمن سے پہلے اپنی اناؤں کومارنا ہوگا ۔
وزیراعظم عمران خان نے چند روز قبل ترک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ہتھیار ڈال دے تو معاف کردیں گے ۔کچھ گروہوں سے امن اور مفاہمت کی خاطر افغانستان میں بات چیت چل رہی ہے‘ معلوم نہیں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا ۔ میں کسی عسکری حل پر یقین نہیں رکھتا ۔ ٹی ٹی پی سے معاہدے کے لیے پر امید ہوں۔ وزیراعظم صاحب کا یہ بیان ہماری کچھ اپوزیشن جماعتوں اور لبرل سوچ رکھنے والے طبقے کو ایک آنکھ نہیں بھایا ۔ اپوزیشن کہتی ہے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر حکومت ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیسے کرسکتی ہے جبکہ مخصوص دانشور کہتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب کی یہ بات شہدا کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے ۔ میرا احساس ہے کہ تینوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں ۔ حکومت جو کررہی ہے وہ ٹھیک کررہی ہے ۔ اگر ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو بچانا ہے توملک بھر سے سرکش دماغوں کو ختم کرنا ہوگا ۔ بھلے اس کے لیے لڑائی کرنی پڑے یا صلح ۔ بندوق سے کام لینا پڑے یا دماغ سے ۔ امن ہی زندگی ہے ‘ صلح ہی میں مستقبل ہے ۔دوستی ہمیشہ رہ سکتی ہے دشمنی نہیں۔ کوئی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں لڑسکتا ۔ ہر لڑائی نے آخر انجام کو پہنچنا ہوتا ہے ۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ہتھیار سے زیادہ دماغ کام آتا ہے ۔ جو حوصلہ مند ہوتے ہیں وہ جذبات سے نہیں حکمت سے کام لیتے ہیں اور شکست خوردہ زخموں پر مرہم رکھتے ہیں۔ اگرایسا نہ کریں تو زخموں کو نا سور بننے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے ۔مذاکرات کی مخالفت کرنے والے ہمارے اکابرین کیا 2007ء سے 2015 ء کا زمانہ بھول گئے ہیں ؟ کیسے ملک بھر میں دہشت گردی کا راج تھا۔ بازار محفوظ تھے نہ پارکس ‘ عبادت گاہیں نہ سرکاری دفاتر ۔ سترہزا ر سے زائد پاکستانی شہید ہوئے اور 150 ارب ڈالر کا نقصان الگ ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی ٹی پی کی کمر ہماری بہادر افواج اور دیگر سکیورٹی اداروں نے توڑ دی مگر پھر بھی بچے کھچے دہشت گردوں کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے ۔ خود کش حملہ آور ایک ہی ہوتا ہے مگر وہ سینکڑوں گھروں کے چراغ بجھادیتا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ٹی ٹی پی کو مذاکرات کی میز پر شکست دی جائے ۔
مشہور محاورہ ہے جو گڑسے مرجائے اسے زہر دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔ حکومت اگر ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی بات کررہی ہے تو اس میں حیرت اور پریشانی کی کیا بات ہے ۔مذاکرات تو پیپلزپارٹی کے دور میں بھی ہوئے تھے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں بھی ۔ پیپلزپارٹی نے2008ء میں تنظیم تحریک ِ نفاذ شریعت ِ محمدی سے بھی مذاکرات کیے تھے اور امن معاہدہ بھی ۔ صوفی محمد کو رہا بھی کیا تھا اور عوام کی سلامتی کی آس بھی لگائی تھی۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ‘ 2014ء میں میاں نواز شریف کی حکومت نے بھی کالعدم ٹی ٹی پی سے بات چیت کی تھی مگر مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی تھی ۔پھر ضرب ِ عزب اور ردالفساد جیسے آپریشنز کے ذریعے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا گیا ۔ اب ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان میں ہیں اور شاید طالبان کے اتحادی بھی ۔ پاکستان نے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کرانے میں مدد کی تھی اس لیے اب طالبان کو ہمارے احسان کا بدلہ چکانا چاہتے ہیں ۔اگر امریکہ اور طالبان اپنے مفادات کے لیے ضد اور انا کو قربان کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ۔اگر ہم کراچی کو مقتل گاہ بنانے والوں کے ساتھ نرمی برت سکتے ہیں تو ٹی ٹی پی کے ساتھ یہی رویہ اختیار کرنے میں قباحت کیا ہے ۔اگر ہم بی ایل اے کے باغیوں کو قومی دھارے میں شامل ہونے کا موقع دے سکتے ہیں تو یہاں اگر مگرکا سوال کیوں پیدا ہورہا ہے ؟ الفاظ کی دھار تلوار سے تیز ہوتی ہے اور مذاکرات کی طاقت ہتھیاروں سے زیادہ۔ جنگیں جہاں تباہی لاتی ہیں وہیں امن کی پہلی سیڑھی بھی ہوتی ہیں ۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ ہم نے پندرہ سال لڑ کردیکھ لیا اب امن کو موقع دینے میں کیا حرج ہے ۔ اگر وہ سرنڈر کرنا چاہتے ہیں تو اس آفر کو قبول کرنے میں برائی کیا ہے ؟جو قومیں مذاکرات کو ٹھوکرمارتی ہیں وہ عوام کی زندگیاں خطرے میں ڈالتی ہیں ۔ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی گلیاں ،سڑکیں اور شہر غیر محفوظ بناتی ہیں ۔دوسری جنگ عظیم سے قبل جرمنی اور جاپان نے برطانیہ ، امریکہ اور فرانس کی امن کی کوششوں کو حقیر سمجھا تھا۔آخر میں کیا ہوا؟ جرمن دنیا بھر میں رسوا ہوئے اور جاپان کے مقدرمیں دو شہروں کی تباہی آئی ۔ اگر ہٹلر ضد کی بانسری نہ بجاتا تو لاکھوں زندگیاں بچ سکتی تھیں ۔
حکومت ریاست کی رکھوالی ہوتی ہے مالک نہیں ۔ ریاست پر جتنا حق صاحبِ اقتدار کا ہوتا ہے اتنا ہی اپوزیشن اور عوام کا ‘ مگر کیا کریں اتنی سی بات حکومت کو سمجھ نہیں آتی ۔ وہ ریاست کے فیصلے بھی اکیلے کرناچاہتی ہے۔ ٹی ٹی پی نے ریاست کو نقصان پہنچایا تھا اس لیے ضروری ہے کہ مذاکرات کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ میں ہو۔ آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی جاسکتی ہے ۔ میاں نواز شریف ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے پہلے عمران خان سے مشورہ کرنے بنی گالا گئے تھے کیا موجودہ وزیراعظم بھی ایسا کرسکیں گے ؟ ملاقات نہ سہی وزیراعظم نواز شریف اور آصف زرداری کو فون کال ہی کرلیں ۔ کیا نواز شریف اورآصف زرداری کا قصور ٹی ٹی پی سے بھی زیادہ ہے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں