سیاسی موسم بدل رہا ہے!

اَناؤں کے بلند و بالا مینار زمیں بوس ہو رہے ہیں۔ ضد اور مخاصمت کی دیواریں دھڑام سے گرنے والی ہیں۔ کانٹوں کے کھیت میں رنگ برنگے پھولوں کی کیاریاں بنائی جا رہی ہیں۔ وقت الٹے قدموں چلنے لگا ہے۔ صبح کے بھولے شام کو گھر لوٹ رہے ہیں۔ سیاست کا قصہ لکھنے والوں نے کردار بدلنے کی ٹھان لی ہے۔ شام کے سحر میں گرفتار پیادے دن ڈھلنے سے خوف کھارہے ہیں اور تاریکی میں غرق کردار سحر ہونے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ اس سارے کھیل میں سورج مطمئن ہے اور ستارے پریشان۔ ستارے پریشان کیوں نہ ہوں‘ سورج کی روشنی ستاروں کو فنا جوکر دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ رات کو زندگی عطا کرنے والے ستارے سحر ہونے دیں گے یا نہیں۔
سورج کو یہ ابھی نہیں معلوم ہو سکا
انجم اگر نہ چاہے تو ہرگز سحر نہ ہو
عجب منظر ہے، چار سال بعد ہی تاریخ نے خود کو دہرانا شروع کردیا ہے۔ مسلم لیگ نون کی حکومت کے آخری دو سال دھماکا خیز تھے۔ ہر دن کچھ نیا ہوتا تھا۔ سانپ کو ایک پٹاری سے نکالتے تھے تو وہ دوسری پٹاری سے برآمد ہو جاتا تھا۔ ایسا ہی کچھ آج کل بھی ہو رہا ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت کو پاناما پیپرز نے پاتال میں پھینکا تھا اور اب پنڈورا پیپرز موجودہ حکومت کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ پاناما پیپرز میں میاں نواز شریف کے بچوں کا نام آیا تھا مگر یہاں کابینہ کے ممبرز تیروں کی زد میں ہیں۔
اگر وقت کی دھول زیادہ نہ اُڑی تو تیر نشانے پر بھی لگ سکتے ہیں۔ دوسرا، بلوچستان میں بھی وہی کچھ ہورہا ہے جو مسلم لیگ نون کے آخری دو سالوں میں ہوا تھا۔ ثناء اللہ زہری کی حکومت کو گرانے کے لیے جو جتن کیے گئے تھے‘ ویسی ہی کوششیں اب بھی کی جا رہی ہیں۔ اللہ جانے، بلوچستان کے وزرا کو ہر تین سال بعد کیا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ہی وزیراعلیٰ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہی محلاتی سازشیں‘ وہی عدم اعتماد کی دھمکیاں۔ وہی استعفے اور وہی حکومت کھو دینے کا خوف۔ ہر دفعہ وزیراعلیٰ تمام تر طاقت کے باوجود بے بس نظر آتا ہے۔ پھر ہوتا وہی ہے جو یہ ناراض ارکان چاہتے ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے مخالفین بھی روز بروز قوت پکڑ رہے ہیں۔ دیکھئے اقتدار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے مگر قدرت کا قانون یہ ہے کہ آپ جو بوتے ہیں‘ وہی فصل اگتی ہے۔ کل جام کمال نے 'باپ‘ بنا کر بلوچستان میں مسلم لیگ نون کی حکومت ختم کی تھی، آج ان کے اپنے اقتدار کو وہی دیمک چاٹ رہی ہے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے سر سے بھی دستِ شفقت اٹھ چکا ہے۔ اب جام کمال کو ثناء اللہ زہری بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ اس بار آندھی تھم بھی گئی تو کچھ دنوں بعد یہ طوفان ضرور اٹھے گا کیونکہ جن کے ''ضمیر‘‘ ایک بار جاگ جائیں وہ اتنی آسانی سے دوبارہ نہیں سوتے۔ دوبارہ سلانے کے لیے وزیراعلیٰ بدلنا ہی پڑتا ہے۔ یہی بلوچستان کی سیاست کا خاصہ ہے اور یہی اصول۔
سیاسی جھگڑے صرف بلوچستان تک محدود نہیں، جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا مطالبہ کرنے والے سیاست دان بھی دوبارہ متحرک ہو چکے ہیں جیسے 2018ء کے الیکشن سے قبل ہوئے تھے۔ ہوا کے دوش پر اڑنے والے یہ پنچھی اب نئی منزلوں کی تلاش اور جستجو میں ہیں۔ کس شاخ سے اڑان بھر کر کس درخت کو رونق بخشنی ہے‘ اِن سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ گزشتہ ماہ بلاول بھٹو زرداری نے جنوبی پنجاب کا دورہ کیا تو بہت سے سیاست دانوں نے پیپلز پارٹی کو اپنی بھولی ہوئی محبت یاد کرائی‘ جس کے بعد کچھ رہنماؤں کو پیپلز پارٹی میں باقاعدہ شامل کر لیا گیا اور کچھ اب بھی پارٹی کے اکابرین سے رابطے میں ہیں۔
جنوبی پنجاب میں تبدیلی کی ہوا یہیں نہیں رکی۔ چند روز قبل حمزہ شہبا ز جنوبی پنجاب گئے تو کئی وہ لوگ بھی مسلم لیگ نون میں واپس آ گئے جنہوں نے 2018ء کے الیکشن میں پارٹی کا ٹکٹ لے کر واپس کر دیا تھا۔ ملتان سے راجن پور اور بہاولپور سے رحیم یا رخان تک‘ سیاست دانوں کے 'ضمیر‘ دوبارہ جاگ رہے ہیں۔ ہو سکتاہے کہ کچھ دنوں بعد جنوبی پنجاب صوبے کا نعرہ لگا کر کچھ لوگ اپنا الگ گروپ بھی بنا لیں اور حکومت کو کمزور کر دیں۔ مسلم لیگ نون پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے بیان دیا ہے کہ تحریک انصاف کے 69 ممبرز پارٹی چھوڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ وہ کسی بھی وقت نئی راہوں کے مسافر بن سکتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کی حکومت کے آخری دنوں میں بھی تو یہی کچھ ہوا تھا۔ میں نہیں جانتا یہ سب محض اتفاق ہے یا کسی پلاننگ کا حصہ‘ مگر جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ ہوبہو ہو رہا ہے۔ وہی سیاستدان اور وہی اندازِ جدائی۔
ایک اور معاملہ جو ان دنوں حکومت کو درپیش ہے‘ وہ ایک نوٹیفکیشن کا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مسلم لیگ نون کے دور میں ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ آنے کے بعد بھی ایک نوٹیفکیشن پر جھگڑا ہوا تھا۔ میاں نواز شریف ڈٹ گئے تھے جس کے بعد وہ ٹویٹ واپس لینا پڑا تھا۔ پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ کبھی مرتی نہیں‘ وہ روپ بدل بدل کر سامنے آتی رہتی ہے۔ میرا احساس ہے کہ اس بار بھی نوٹیفکیشن کو لے کر جو تناؤ ہے وہ جلدختم ہو جائے گا مگر اس میں حکومت کے لیے کوئی خیر کی خبر ہو گی یا نہیں‘ اس کا فیصلہ وقت کرے گا اور وقت کبھی کسی کا پابند نہیں ہوتا۔ حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے طبیب کہتے ہیں کہ گزرے ہفتے مریم نواز نے جو ''بے باکی‘‘ دکھائی‘ وہ بے وقت کی راگنی نہیں بلکہ وہ سوچی سمجھی چال ہے جو میاں نواز شریف نے بیٹی کے ذریعے چلی ہے۔ میاں صاحب چاہتے ہیں کہ دھول اتنی اڑا دی جائے کہ مستقبل کے ''ارادے‘‘ تکمیل کو نہ پہنچ سکیں۔ بڑی بڑی خواہشیں الزامات کا بوجھ نہ اٹھا سکیں اور خود بخود سرنڈرکر دیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی جنگ ہارتا ہے یا کوئی معرکہ سر نہیں کر پاتا تو ناکامی کا سہرا باندھنے کے لیے بھی سر تلاش کر لیا جاتا ہے، کسی نہ کسی کی تو قربانی دی ہی جاتی ہے۔ کوئی مستعفی ہوتا ہے تو کسی کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یہی وہ رِیت ہے جو ازل سے چلی آ رہی ہے اور نجانے کب تک جاری رہے گی۔ خبروں کی جانکاری رکھنے والے دوست فرماتے ہیں کہ 2022ء میں ہونے والی تبدیلی کے آثار ابھی سے دکھائی دینے لگے ہیں۔ لڑائی کی ابتدا ہو چکی ہے‘ دیکھئے انجام کیا ہوتا ہے۔ خواب دیکھنے والوں کے خواب پورے ہوں گے یا کشتی میں پہلے سے موجود مسافر اپنا سفرجاری رکھیں گے ع
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
حکومتیں آتی ہیں اور اپنے اپنے حصے کی لڑائیاں لڑکر چلی جاتی ہیں مگر عوام کی کسی کو فکر کہاں ہوتی ہے۔ عوام اچھے دنوں کی امید پر ہر پانچ سال بعد طبیب بدلتے ہیں مگرعلاج نہیں ہو پاتا۔ پیر نیا آتا ہے مگر پیڑ نہیں جاتی۔ عوام کے دکھ جب ناسور بن جاتے ہیں تو وہ دُہائیاں دیتے ہیں مگر ان کی فریاد سننے والابھی کوئی نہیں ہوتا۔
طبیبوں کا احسان کیوں کر نہ مانوں
مجھے مار ڈالا دوا کرتے کرتے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں