آخری بائیس ماہ کی کہانی

اگرعرب کے فسوں گر شاعر قیس اور تمثیلی نظموں کے موجد اطالوی شاعر دانتے باہم مل جائیں‘ تب بھی وہ منظر کشی نہیں کر سکتے جو ہمارے حکمرانوں کا وصف ہے۔ یہ عوام کے اشکوں کی کڑواہٹ کو اپنے حقِ حکمرانی کے خمار میں گوندھ کر من مرضی کے آتش کدے میں پختہ کرتے اور دوبارہ عوام کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ انہیں ہر فن پر ملکہ حاصل ہے۔ یہ رات کی تاریکی میں غوطہ زن ہوتے ہیں اور اجالا ڈھونڈ لاتے ہیں۔ یہ زہر کے گودام میں گھستے ہیں اور گڑ نکال لاتے ہیں۔ یہ دم توڑتے شخص کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں اور زندگی کی پرچھائیاں تلاش کر لیتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ باتوں کی دکان سجانے کے ماہر ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ کبھی کبھی خاموشی، گویائی سے زیادہ فصیح و بلیغ ہوتی ہے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ خاموشی حکمرانو ں کی آفاقی زبان ہے۔ بولنا تو عام لوگوں کی عادت ہوتی ہے‘ حکمران تو عمل کے پیکر ہوتے ہیں۔ وہ بے پَر کی گفتگو کر کے وقت کا ضیاع نہیں کرتے۔ فردوس گیاوی کا شعر ملاحظہ ہو
علم کی ابتدا ہے ہنگامہ ؍ علم کی انتہا ہے خاموشی
صاحبِ حکومت کو وعظ و نصیحت کرنے سے فرصت ملے تو ادراک ہو کہ ان کے اقتدار کا زیادہ وقت شور شرابے میں گزر چکا۔ اب بس آخری بائیس ماہ کی کہانی باقی ہے۔ یہ مسافت زیادہ طویل نہیں مگر اس عرصے میں حکومت کو جو چیلنجز درپیش ہیں‘ وہ انتہائی کٹھن ہیں۔ عام حالات میں راستہ جتنا دشوار ہوتا ہے‘ اتنا ہی وقت کا پہیہ آہستہ چلتا ہے مگر حکمرانی کے سفرکا معاملہ الٹ ہے۔ یہاں راستہ جتنا مشکل ہوتا ہے وقت اتنا ہی تیزی سے گزرتا ہے۔ آپ ترجیحات طے کرتے رہ جاتے ہیں اور رخصتی کا وقت آ پ کی دہلیز تک آ جاتا ہے۔ پھر آپ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پاتے۔ وقت آپ کو مہلت ہی کہاں دیتا ہے۔ اگلے بائیس ماہ میں حکومت کو جو چیدہ چیدہ چیلنجز درپیش ہوں گے‘ ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
حکومت کے لیے سب سے بڑا اور بنیادی چیلنج مہنگائی ہو گا۔ عام آدمی کو معیشت کے گورکھ دھندے کی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ انہیں کیا لگے کہ ترسیلاتِ زر میں کتنا اضافہ ہوا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر کی کیا صورتِ حال ہے۔ بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کتنی بہتری آئی ہے اور ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجوہات کیا ہیں؟ عام آدمی تو حکومت کی کارکردگی کو صرف مہنگائی اور بے روزگاری کے ترازو میں تولتا ہے۔ مہنگائی کا حال یہ ہے کہ ہر چیز کے دام دُگنے ہو چکے ہیں۔ ادارہ شماریا ت کے مطابق گزرے ہفتے مہنگائی کی شرح میں 1.38 فیصد اضافہ ہوا اور اب یہ شرح 14.48 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں نے مڈل کلاس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ معروف جریدے ''دی اکانومسٹ‘‘ کی جاری کردہ فہرست کے مطابق پاکستان چوتھا مہنگا ترین ملک ہے اور بھارت سے مہنگائی میں بارہ درجے آگے ہے۔ حکومت مہنگائی کا توڑ ٹارگٹڈ سبسڈی میں تلاش کر رہی ہے مگر یہ علاج وقتی بھی ہے اور محدود بھی۔ دو کروڑ افراد سبسڈی سے فائدہ اٹھا لیں گے مگر باقی بیس کروڑ کا کیا بنے گا؟ کیا حکومت کو ان کی کوئی فکر نہیں؟ اقتصادی سروے میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں دو کروڑ لوگ بے روزگار ہوکر غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے جبکہ پاکستان شماریات بیورو کی جانب سے شائع کردہ لیبر فورس سروے کے مطابق بے روزگاری کی بڑھتی شرح نے مرد و خواتین‘ دونوں کو متاثر کیا ہے۔ مرد حضرات میں بے روزگاری کی شرح 5.1 فیصد سے بڑھ کر 5.9 فیصد ہوگئی ہے جبکہ خواتین میں بے روزگاری کی شرح 8.3 سے بلند ہوکر 10 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہی نہیں‘ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے اعداد وشمار پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت 24 فیصد گریجویٹس بے روزگاری کی دلد ل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت اگلے بائیس ماہ میں بھی بے روزگاری اور مہنگائی کو قابو نہ کر سکی تو مسند اقتدار پر بیٹھے لوگوں کی پریشانیاں دو چند ہو جائیں گی۔ حکومت یاد رکھے کہ اگلے الیکشن میں ووٹ لینے ہیں تو مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنا ہو گا۔
حکومت کے لیے دوسرا بڑا چیلنج پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے عزائم ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ مہنگائی کے ہاتھوں حکومت کی گرتی دیوار کو ایک دھکا اور دے دیا جائے۔ اس لیے پی ڈی ایم نے شہر شہر جلسے‘ جلوس کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اگر پی ڈی ایم تواتر کے ساتھ جلسے جلوس کرتی رہی تو حکومت کی تو جہ گورننس سے ہٹ جائے گی اور اگر کسی موقع پر پی ڈی ایم نے کچھ سیٹوں سے استعفے دے دیے تو حکومت ضمنی انتخابات پر توجہ دے گی یا مہنگائی پر فوکس کرے گی؟ اپوزیشن چاہتی ہے کہ اب حکمرانوں کا دھیان حکومت چلانے سے زیادہ حکومت بچانے پر ہو جائے تاکہ مہنگائی سے تنگ عوام حکومت سے بدظن ہی رہیں۔
حکومت کے سامنے تیسرا بڑا چیلنج الیکشن کمیشن کے ساتھ محاذ آرائی ہے۔ حکومت آئندہ الیکشن کو لے کر الگ منصوبہ بندی کر رہی ہے اور الیکشن کمیشن الگ۔ حکومت الیکشن کا انعقاد الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرانا چاہتی ہے اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلانے کی داعی ہے مگر الیکشن کمیشن حکومت کے ساتھ ایک ہی پیج پر نہیں ہے۔ دونوں کے بیچ کشیدگی کا ماحول ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک دو وزرا کی قربانی بھی ہو جائے۔ چیف الیکشن کمشنر انتہائی دیانتدار اور بہادر انسان ہیں‘ وہ کسی کا بے جا پریشر قبول نہیں کرتے۔ اگر حکومت کو ووٹنگ کے نظام میں بہتری لانی ہے تو انہیں دلائل سے قائل کرنا ہوگا، ورنہ اگلے الیکشن میں حکومت کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔
حکومت کو چوتھا بڑا چیلنج اتحادی جماعتوں اور اپنی ہی پارٹی کے بلوچستان، جنوبی پنجاب اورکراچی کے ایم این ایز کی طرف سے سامنے آ سکتا ہے۔ جیسے جیسے الیکشن قریب آتے جائیں گے‘ اتحادی جماعتیں ایک بار پھر صف بندی کرنے لگیں گی۔ بلوچستان، جنوبی پنجاب اور کراچی سے پی ٹی آئی کے ایم این ایز بھی نئی جماعتوں کی تلاش میں نکلیں گے۔ اگر وہ ایساکریں گے تو یہ کوئی انہونی نہیں ہو گی بلکہ یہ تو ان سیاستدانوں کی رِیت ہے۔ ایک پارٹی سے دوسری اور دوسری سے تیسری۔ ہر الیکشن سے پہلے ایسے ہی ہوتا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی وفاق اور پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے سوچ بچار کر رہی ہیں۔ آج (سوموار) کو بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی ووٹنگ ہونا ہے، اگر آج یہ تحریک کامیاب ہو گئی تو اپوزیشن جماعتوں کو اس سے شہ ملے گی اور اگر وفاقی اور پنجاب میں تحریک عدم اعتماد آتی ہے تو سرکار کے لیے اتحادیوں اور ترین گروپ کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔
بقیہ مدت میں حکومت کے لیے پانچواں بڑا چیلنج ایک پیج پر رہنا ہو گا۔ ایک تعیناتی کی وجہ سے جو بدمزگی ہوئی اس کے اثرات یقینا دیر پا ہوں گے۔ اگر کشیدگی برقرار رہی تو حکومت کے لیے مذکورہ چاروں چیلنجز سے نمٹنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ حکومت کی بڑی کامیابی یہ ہو گی کہ 'سیم پیج‘ پر پڑی اوس کو جلد از جلد خشک کرکے اپنے لیے دوبارہ ناؤ بنا لے ورنہ مستقبل کے دریا میں جو طغیانی دکھائی دے رہی ہے‘ اس میں حکومت کے لیے تنہا تیرنا محال ہو گا۔ عشق کا دریا ہوتا تو حکومت ڈوب کر پار نکل جاتی مگر یہ گورننس کا دریا ہے‘ یہاں جو ڈوب جاتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے ڈوب جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں