وزیراعظم کونواز شریف سے امیدکیوں ؟

زخم ناسور بن جائے تو درد کی دوا کیا کام کرے گی ؟سارا شہر تاریکی میں ڈوب جائے تو چند دیے کہاں تک روشنی دیںگے؟ جب امید ہی دم توڑ جائے تو وعدوں کا اعتبار کون کرے؟نجانے حکومت کیوںچاہتی ہے کہ عوام مایوسی کو جھٹک دیں‘ اشکوں کو پونچھ ڈالیں اوراپنے چہروں سے غم کا آنچل اتار کر اس راہ پر چل نکلیںجہاں عوام کی آنکھیں سور ج پر جمی ہوں اور راستے میں بکھرے ہوئے کانٹے اور پتھر انہیں نظر نہ آئیں ۔ سوا ل یہ ہے کہ آنکھ سے نکلے آنسوؤں کا مداوا ممکن ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو حکومت سمجھنے سے قاصر کیوں ہے ؟
بہنا کچھ اپنی آنکھ کا دستور ہوگیا
دی تھی خدا نے آنکھ پہ ناسور ہوگیا
تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا ۔ جس ریلیف پیکیج کے چرچے حکومت دن رات کررہی تھی ‘ آخر اس کی تفصیلات وزیراعظم صاحب نے عوام کو بتا ہی دیں ۔وزیراعظم کی تقریر کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے چار حصے بنتے ہیں ۔پہلے حصے میں تو وہی پرانی باتیں دہرائی گئیں کہ جب تحریک انصاف کو حکومت ملی تو معیشت کی بدحالی کا کیا عالم تھا ۔ وہی بیس ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور قرضوں کی دہائی ۔ وہی زرمبادلہ کے ذخائر کے مخدو ش حالات کاقصہ اور کم برآمدات کے شکوے ۔ نیا تو کچھ بھی نہیں تھا۔وہی بتایا گیا جو گزرے تین سال میں سینکڑوں بار دہرایا جاچکا۔وزیراعظم صاحب نے تقریر کے دوسرے حصے میں کورونا وائرس کے بعد کے حالات پر روشنی ڈالی اور اپنی '' بہترین‘‘پالیسیوں پر داد وصول کرنا چاہی ۔وزیراعظم صاحب نے کورونا وائرس کے باوجود معاشی اشاریے بہتر ہونے کی نوید بھی سنائی ۔ان کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے ۔چاول کی فصل میں 13.6فیصد ‘ مکئی 8فیصد‘گنا 22فیصداورگندم میں 8 فیصدگروتھ دیکھنے میں آئی۔یہی نہیںلارج سکیل مینو فیکچرنگ میں تین ماہ میں13فیصد‘ ٹیکسٹائل میں163فیصد‘گاڑیوںمیں 131فیصداورسیمنٹ میں 113فیصدترقی ہوئی جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ تعمیرات کے شعبے میں 600ارب روپے کے منصوبوں پر کام جاری ہیں‘ جس کا مطلب ہے ملکی آمدن کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع بھی بڑھے ہیں ۔اور تو اورٹیکس کے نظام میں بھی بہتری آئی ہے اورٹیکس وصولیوں میں37فیصد اضافہ ہوا۔ مان لیتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب جو فرمارہے ہیں بجا فرما رہے مگر اتنا تو بتا دیں کہ اگر معیشت کے ہر شعبے میں گروتھ ہورہی ہے توتین سال میں تین کروڑ لوگ خطِ غربت سے نیچے کیوں چلے گئے ؟ مہنگائی نے ہرطبقے کا جینا حرام کیوں کردیا ہے ؟ اگر اتنی ترقی ہے تو مڈل کلاس کی آمدن دن بہ دن کم کیوں ہورہی ہے ؟اصل حقیقت یہ ہے کہ حکومت عوام کو اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میںپھنسا رہی ہے۔ معیشت کے اعدادوشمار کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ موازنہ ہمیشہ گزرے سال کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ سال کورونا وائرس کی نظر ہوگیا۔پاکستان میں گروتھ منفی میں چلی گئی تھی۔ اب جبکہ حالات میں قدرے بہتری آئی ہے تو ہر شعبے میں گروتھ نظر آرہی ہے‘ مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ پاکستان کی معیشت 2018 ء سے بہتر ہوچکی ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ معیشت گزشتہ مالی سال سے بہتر ہوئی ہے ۔ اگر حکومت کے بتائے ہوئے معاشی اشاریے ٹھیک ہوتے تو کیا ملک میں بے روزگاری پہلے سے زیادہ ہوتی اور ترقی کی شرح کم ؟
وزیراعظم صاحب نے تقریر کے تیسرے حصے میں عوام کو بتایا کہ بلوم برگ کے مطابق دنیا بھر میں مہنگائی کی شرح پچاس فیصدبڑھی ہے جبکہ پاکستان میں مہنگائی نو فیصد ہے ۔ترکی میں مہنگائی 19 فیصد جبکہ اس کی کرنسی 35 فیصد گراوٹ کا شکار ہوئی ہے ۔ چین میں مہنگائی کا 26 سالہ اور جرمنی کا 50سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے ۔امریکہ میں 116فیصد تک نیچرل گیس کی قیمتیں اوپر گئی ہیں ۔گزرے چار ماہ میں دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ پاکستان میں 33فیصد تک قیمتیں بڑھی ہیں ۔کیا حکومت بتائے گی کہ جب دنیا بھرمیں تیل کی قیمتیں آج کی نسبت سو فیصد کم تھیں تو پاکستان میں پٹرول کی قیمت سو روپے سے زائد کیوں تھی؟ویسے تو اس کا جواب بہت سادہ ہے‘ اس وقت حکومت جی ایس ٹی اور لیوی کی مد میں45 روپے کے لگ بھگ ٹیکس وصول کررہی تھی جو سراسر عوام کے ساتھ ناانصافی تھی ۔ اب جب عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم کی قیمتیں اوپر گئی ہیں تو حکومت کو ٹیکس کا مارجن کم کرنا پڑا ہے جو مسندِ اقتدار پر بیٹھے لوگوں کو برداشت نہیں ہورہا ۔دوسرا ‘گزرے مالی سال میں دنیا میں ہر جگہ لاک ڈاؤن تھا ‘ انگلینڈ ‘امریکہ ‘ یورپ اوربھارت میں کارخانے اور کاروبار بند تھے ۔ اس لیے پہلے طلب اور رسد کا تناسب بگڑا اورپھر مہنگائی کنٹرول سے باہر ہو گئی۔ جیسے جیسے کاروبار کے حالات بہتر ہوںگے عالمی مہنگائی الٹے قدموں چلنے لگے گی مگر کیا پاکستان میں بھی مہنگائی کم ہوگی ؟ رہی بات باقی دنیا میں مہنگائی کا تناسب کیا ہے اور پاکستان میں مہنگائی کیوں ہورہی ہے یہ دونوں الگ الگ موضوعات ہیں ۔ امریکہ ‘ جرمنی ‘ چین اور برطانیہ کے شہریوں کی فی کس آمدنی اور ایک پاکستانی کی فی کس آمدنی میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ امیر ممالک کے شہری بھی امیر ہوتے ہیں اور غریب ممالک کے شہری غریب ۔ نجانے کیوں اتنی آسان سی بات حکومت سمجھنے سے قاصر ہے یا وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتی ۔
وزیراعظم عمران خان نے خطاب کے چوتھے حصے میں ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ۔ دو کروڑ خاندانوں کے لیے 120 ارب کی سبسڈی ۔ آٹا‘ گھی اور دالیں مارکیٹ ریٹ سے تیس فیصد سستی ۔ماہرین معیشت اس بات سے متفق ہیں کہ عوام کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینا کچھ نہ دینے سے تو بہتر ہے مگر کیا یہ مہنگائی اور غربت کا دیر پا علاج ہے؟ملک میں پچیس فیصد مہنگائی کا تعلق تو بدانتظامی اور حکومتی رِٹ سے ہے ‘ حکومت اس کی طرف دھیان کیوں نہیں دیتی ؟ وزیراعظم کے مطابق اس سبسڈی سے تیرہ کروڑ افراد فائدہ اٹھائیں گے ۔ یہ اعدادوشمار حیران کن ہیں ۔ کیا ساڑھے اکیس کروڑ کی آبادی میں سے تیرہ کروڑ لوگ اکتیس ہزار روپے سے بھی کم کماتے ہیں ؟اگر ایسا ہے تو 120 ارب کی سبسڈی تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے ۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مہنگائی کی موجودہ لہر میں لوگ گھر کا کرایہ کیسے دیتے ہوں گے اور بجلی اور گیس کے بل کیسے ادا کرتے ہوں گے ؟ بچوں کے سکول کی فیس کہاں سے دیتے ہوں گے اور اگر بیماری آجائے تو دوا کا انتظام کیسے کرتے ہوں گے؟حکومت مت بھولے کہ عام آدمی کو صرف گھی ‘ آٹا اور دالوں سے ہی روزانہ واسطہ نہیں پڑتا بلکہ اور بھی درجنوں بنیادی ضروری اشیا ہیں جو عوام کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں ۔ ان کی قیمتیں کو ن نیچے لائے گا ؟
حکومت نے گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان بھی کر دیا ۔ پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ بجلی کے نرخ بھی بڑھا دئیے گئے ہیں‘ تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ مد نظر رکھیں کیونکہ ملک میں زیادہ تر بجلی تیل ہی سے بنتی ہے ۔اس طرح مہنگائی کا ایک نیا طوفان آئے گا اور پھر حکومت اس کا سامنا کیسے کرے گی؟حکومت جب تک بدانتظامی کا علاج نہیں کرتی اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ نہیں کرتی تب تک کچھ بہتر نہیں ہوگا ۔ پاکستان کے دونوں بڑے سیاسی خاندان بھی اپنی دولت کا آدھا حصہ وطن واپس لے آئیں تو بھی بنیادی ضروریات کی قیمتیں کم نہیں ہوں گی ۔ویسے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وزیراعظم کو میاں نواز شریف اور آصف زرداری سے ایسی امید کیوں لگانا پڑی ؟ کیا احتساب کی درخواست داخل دفتر ہوچکی ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں