’’آیا نہیں، لایا گیا ہوں‘‘

جس ملک کی تیس فیصد آبادی آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہو‘ جہاں دوکروڑ بچے سکولوں سے باہر ہوں‘ جہاں اسی فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو‘ جہاں بائیس کروڑ میں سے تیرہ کروڑ افراد اکتیس ہزار روپے ماہانہ سے بھی کم کماتے ہوں، جہاں تین سالوں میں تین کروڑ لوگ خطِ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں‘ جہاں مائیں خوراک کی کمی کی وجہ سے کمزور بچے جنتی ہوں‘ جس ملک میں تعلیم اور صحت کا نظام ترقی یافتہ ممالک سے سو سال پیچھے ہو‘ جہاں کے شہروں میں فضائی آلودگی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہو‘ جہاں مہنگائی نے لوگوں کا جینا مشکل کر دیا ہو‘ جس ملک کی کرنسی خطے میں سب سے کمتر ہو اور معیشت بدحال‘ وہ ملک بھلا کیسے الیکٹرانک ووٹنگ مشین جیسی آسائش کا متحمل ہو سکتا ہے؟ آپ ان والدین کو کیا کہیں گے جن کے بچے تو بھوکے سوتے ہوں مگر وہ خود ورلڈ ٹور پر جانے کے خواہاں ہوں؟ جن کے پاس رہنے کے لیے اپنی چھت نہ ہو اوروہ فائیو سٹار ہوٹل میں چھٹیاں گزارنے کے آرزو مند ہوں؟ کون کہتا ہے کہ بڑے خواب مت دیکھیں مگر لاحاصلی کا کھیل کھیلنا کہاں کی دانائی ہے؟ حکمرانوں کا اصل امتحان ترجیحات طے کرنا ہوتا ہے‘ جو حکمران ترجیحات ہی طے نہ کر سکیں وہ اقتدار ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پاتے۔
قدیم کہاوت ہے کہ ایسے سونے اور ہیرے کے زیورات کا کیا فائدہ جو کانوں کو ہی کاٹ کھائیں‘ مگر کیا کریں‘ حکمرانوں کی اپنی ضد‘ اپنی بادشاہت ہوتی ہے، وہ کسی اور کی بات کہاں سنتے ہیں۔ جو سوچ لیا‘ وہ پتھر پر لکیر اور جو کہہ دیا وہ حرفِ آخر۔ آئندہ الیکشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرانے کی ٹھانی اور اس کا قانون بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پاس کرا لیا۔ یہی نہیں‘بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا خیال آیا تو وہ بل بھی پاس ہو گیا۔ اپوزیشن سے مشاورت کی نہ الیکشن کمیشن کے تحفظات دور کیے۔ یہ خیال بھی نہیں آیا کہ الیکشن کمیشن بیس ماہ میں یہ کام کر بھی سکتا ہے یا نہیں؟ ایک لمحے کے لیے فرض کریں‘ اگر مقررہ وقت پر انتظامات نہ ہوئے تو نظامِ حکومت کا کیا بنے گا؟ کیا کوئی جمہوری ملک الیکشن کے بغیر آگے بڑھنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ ہر صاحبِ عقل پریشاں ہے کہ آخر حکومت کو جلدی کس بات کی ہے؟ وہ سارے کام چھوڑ کر الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہے؟ کیا تحریک انصاف کے انتخابی منشور پر سو فیصد عمل درآمد ہو چکا؟ کیا پاکستانیوں نے آٹھ ہزار ارب روپے ٹیکس دینا شروع کر دیا ہے؟ کیا پولیس اور پٹوار کے نظام میں بہتری آ چکی؟ کیا ہماری معیشت بھارت اور بنگلہ دیش سے آگے نکل گئی؟ کیا پاکستانیوں کی فی کس آمدنی دو گنا تک ہو چکی؟ کیا چینی، گھی، آٹا، دالیں،گوشت، سبزیاں اور چاول کی قیمت عام آدمی کی دسترس میں آ چکی؟ کیا سستے اور فوری انصاف کا وعدہ پورا ہو گیا؟ کیا پاکستان کی یونیورسٹیاں دنیا کی بڑی یونیوسٹیوں میں شمار ہونے لگیں؟ کیا سرکاری ہسپتالوں میں عام آدمی کی عزتِ نفس بحال ہو چکی؟ کیا سرکاری سکولوں کا معیار پرائیویٹ سکولوں کے برابر آ گیا؟ اگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو پھر حکومت کو الیکشن کا نظام بدلنے کی کیا جلدی ہے؟ قرضوں پر چلنے والی حکومت 150 ارب روپے کا اضافی بوجھ عوام کے کندھوں پر کیوں لاد رہی ہے؟ اگر یہ پیسہ لگانا ناگزیر ہے تو مہنگائی کو کنٹرول کریں، چار پانچ بڑے ہسپتال بنا دیں، سرکاری سکولوں میں ٹوائلٹس اور بچوں کے بیٹھنے کے لیے بینچوں کا انتظام کر دیں، لوگوں کو صاف پانی مہیا کر دیں، کراچی کے لیے نیا ٹرانسپورٹ کا نظام لے آئیں، یقینا ان میں سے کوئی ایک بھی کام کرنے سے لوگ آپ کو جھولیاں اٹھا اٹھا کر دعائیں دیں گے۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ پاکستان کے انتخابی نظام میں درجنوں خامیاں موجود ہیں۔ یہاں ووٹوں کا غلط اندراج ہوتا ہے‘ مرے ہوئے لوگوں کا ووٹ کاسٹ ہوتا ہے‘ پیسوں سے ووٹ خریدے جاتے ہیں‘ ڈرا دھمکا کر ووٹ حاصل کرنے کی رِیت بھی موجود ہے۔ یہاں انتخابی عملے کے ذریعے دھاندلی ہوتی ہے اور بعد ازاں نتائج بھی تبدیل کیے جاتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ پہلے صدقِ دل کے ساتھ ان خامیوں کا ازالہ کرتی مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ پورا ملک جانتا ہے کہ الیکشن میں اسّی فیصد دھاندلی الیکشن ڈے سے پہلے ہوتی ہے۔ حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے‘ بیس فیصد دھاندلی تو روکنا چاہتی ہے مگر اسّی فیصد کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور انٹرنیٹ ووٹنگ پوری دنیا میں متنازع سمجھی جاتی ہیں۔ پوری دنیا میں دو سو سے زائد ممالک ہیں اور صرف چودہ ممالک میں مکمل اور گیارہ میں جزوی طور پر الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم اپنایا گیا ہے۔ اگر یہ نظام اتنا ہی قابل بھروسہ ہے تو دنیا بھر میں اسے لاگو کیوں نہیں کیا گیا؟ ہالینڈ، اٹلی، فن لینڈ، ناروے، جرمنی اور فرانس نے ای وی ایم کا استعمال ترک کیوں کر دیا ہے؟ بھارت ای وی ایم کے ذریعے چار الیکشن کروا چکا ہے مگر اب وہاں بھی یہ نظام الزامات کی زد میں ہے۔ اس وقت بھی وہاں یہ شور بپا ہے کہ مودی سرکار مشینوں کے ذریعے فراڈ کر کے الیکشن جیتی تھی۔ جتنی عجلت میں ہماری حکومت نے یہ قانون پاس کروایا ہے‘ الیکشن کمیشن اتنا متحرک دکھائی نہیں دے رہا۔ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ وہ عدالت کا رخ کرے یا حکومت کا کہا مان لے۔
نجانے حکمران کیوں بھول جاتے ہیں کہ الیکشن جمہوریت کا چہرہ ہوتے ہیں۔ اگر چہرہ ہی داغدار ہو جائے تو باقی جسم خود بخود بھدا لگنے لگتا ہے۔ کیا حکمرانوں کو معلوم نہیں کہ 1956ء اور 1962ء کے آئین کی سانسیں اتنی کم کیوں تھیں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ 1973ء کا آئین آج تک کیوں زندہ و جاوید ہے؟ بیس سال کی مارشل لاء حکومتیں بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے دونوں آئین متفقہ تھے نہ سیاستدانوں کے بنائے ہوئے‘ جبکہ تیسرے آئین کو پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رکا‘ بعد میں جب بھی آئین میں ترامیم کی گئیں‘ حکومت اور اپوزیشن کے اتفاقِ رائے سے کی گئیں۔ تھوڑی بہت جمہوریت تو پرویز مشرف کے اندر بھی تھی‘ جب ان کے دور میں ایل ایف او بنایا گیا تھا تو اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات انہوں نے بھی کیے تھے۔ آئین میں سترہویں ترمیم کے وقت بھی اپوزیشن کی کچھ جماعتیں ان کے ساتھ تھیں۔ پیپلزپارٹی کے آخری دور میں تو اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آدھا آئین تبدیل کر دیا گیا مگر مجال ہے کسی نے کوئی اعتراض کیا ہو۔ اعتراض کرتا بھی کون؟ یہ ترامیم حکومت اور اپوزیشن نے باہم مل کر جو کی تھیں۔کاش! حکومت ای وی ایم پر اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کرتی‘ اسے اعتماد میں لیتی، یوں قومی اتفاقِ رائے کی صورت نکل سکتی تھی۔ اگر اپوزیشن ساتھ نہ بھی دیتی تو اس کے پاس اخلاقی برتری ہوتی۔ دوسرا، اگر حکومت نے اگلا الیکشن ای وی ایم کے ذریعے ہی کروانا تھا‘ تو قانون سازی کا عمل چند ماہ پہلے کر لیا جاتا‘ اس میں کیا قباحت تھی؟ اب یہ معاملہ عدالتوں میں جاتا دکھائی دے رہا ہے‘ جہاں اپوزیشن کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کا مؤقف بھی سنا جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن کے‘ ٹیسٹ نہ کر سکنے کے اعتراضات کو مدنظر رکھتے ہوئے 2023ء کا الیکشن روایتی طریقے سے ہی کرانے کا حکم جاری کر دیا جائے۔ پھر کیا ہو گا؟ ''آیا نہیں‘ لایا گیا ہوں‘‘ کے طعنے بھی برداشت کرنا پڑیں گے اور الیکشن بھی مرضی کے مطابق نہیں ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں