تبدیلی کی ہوا چل پڑی؟

زوال کی حقیقت ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ رنگ‘ روپ‘ مال‘ دھن‘ طاقت اور اقتدار میں سے کسی کی حیثیت بھی دائمی نہیں۔ ہر عروج کو زوال ہے۔ حسن پر زوال آتا ہے تو چہرہ بولتا ہے مگر حقِ حکمرانی پر زوال آئے تو اَنگ اَنگ چلا اٹھتا ہے۔ جسم کی حرکات زبان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیتی ہیں۔ حاکم بولتے کچھ ہیں اور دکھائی کچھ اور دیتا ہے۔ غالباً ان دنوں ہمارے حکمرانوں کو بھی ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ میں جب بھی محترم وزیراعظم یا ان کی کابینہ کے وزرا کے بیانات سنتا ہوں تو مجھے یک لخت معین احسن جذبی کا ایک شعر یاد آ جاتا ہے ؎
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
اس میں کیا شبہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے کے ستر سا ل کرپشن، اقربا پروری اور بدانتظامی کی داستان تھے۔ دنیا جد ت کی سیڑھیاں چڑھ کر آگے نکل گئی اور ہم سوائے رینگنے کے کچھ بھی نہ کر سکے۔ جمہوری حکومتو ں نے بھی ہمیں مسائل کی دلدل میں دھکیلے رکھا اور آمریت کے دکھ تو تھے ہی جان لیوا۔ پھر خان صاحب سیاست کے اوجِ کمال پر پہنچے تو عوام کے سینوں میں لگی آگ دھیرے دھیرے بجھنے لگی۔ ستر سالوں سے لگا ناامیدی کا زنگ صاف ہوتا دکھائی دینے لگا۔ لوگوں نے تحریک انصاف کے منشور اور وعدوں سے آس لگائی اور جی بھر کر ووٹ دیے مگر افسوس! یہ امید کا دیپ عوام کی زندگیوں میں روشنی کے بجائے مزید اندھیرا کر گیا، گھپ اندھیرا۔ میں نے آج تک ایسی کوئی حکومت دیکھی نہ سنی‘ جو عوام میں اتنی جلدی غیر مقبول ہوئی ہو۔ میں نے آج تک کسی ملک کی ایسی معیشت نہیں دیکھی جو حکمرانوں کی نظر میں بہتری کی جانب گامزن ہو مگر مہنگائی سے عوام کی چیخیں کوہِ ہمالیہ سے بھی بلند ہو رہی ہوں۔ میں نے آج تک ایسے حکمران نہیں دیکھے جو اپنے فیصلوں کا بوجھ اٹھانے کے بجائے دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوں۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ اب عوام کا غم دوچند ہو رہا ہے کیونکہ ستر سالوں کے آنسوئوں کا مداوا تو 25 جولائی 2018ء کو ہوگیا تھا مگر ان سوا تین سالوں میں عوام جس کرب اور اذیت سے گزرے ہیں اس کا مداوا کون کرے گا؟ دور دور تک کوئی بھی نظر نہیں آتا جو خواب دکھانے کے بجائے خواب پورے کرتا ہو۔ جو عوام کے آنسوئوں کی جھڑی کے سامنے بند باندھنے کا ہنر جانتا ہو۔ کاش! کوئی تو ایسا ہوتا۔
اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے معیشت کا سفر جہاں سے شروع کیا تھا‘ ہم ایک بار پھر وہیں آکر کھڑے ہوئے ہیں۔ روپے کی بے قدری کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہی، کرنٹ اکائونٹ خسارے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، مہنگائی دوبارہ ڈبل ڈیجٹ میں داخل ہو چکی ہے، قرضوں کا بوجھ ہماری سکت سے بڑھ چکا ہے، درآمدات کی چکی نے عوام کو کوہلو کا بیل بنا دیا ہے اور نومبر کا تجارتی خسارہ پانچ ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ پیٹرول، ڈیزل، بجلی اور گیس کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ چند روز قبل اکتوبر کی فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمت 4 روپے 74 پیسے بڑھائی گئی۔ رہی سہی کسر سٹیٹ بینک کی مانیڑی پالیسی نے پوری کر دی ہے۔ شرح سود بیس ماہ بعد 9.75 فیصد ہو گئی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو خیال ہی نہیں کہ شرح سود بڑھنے سے معیشت پر کیا اثرات ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وقتی طور پر مہنگائی میں ٹھہرائو آ جائے اور ہاٹ منی کی مد میں ڈالرز بھی اکٹھے ہو جائیں مگر معاشی سرگرمیوں کا کیا بنے گا؟ شرح نمو دوبارہ کم ہو جائے گی، کاروباری طبقہ نہ تو بینکوں سے قرضہ لے گا اور نہ ہی نیا کاروبار شروع کرنے کا سوچے گا۔ روزگار کے مواقع مزید کم ہو جائیں گے۔ پیداواری لاگت بڑھنے سے برآمدات بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر ملکی قرضوں میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکومت کو ان تمام باتوں کا ادراک ہے نہ فہم۔ آپ تمام ترقی یافتہ ممالک کا مطالعہ کر لیں‘ ان کے ہاں شرح سود کم سے کم ملے گی۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپ کو چھوڑیں‘ بھارت میں شرح سود چار فیصد اور بنگلہ دیش میں 4.75 فیصد ہے۔ وفاقی حکومت کا ماننا ہے کہ شرح سود میں اضافہ مہنگائی میں کمی لائے گا مگر بھارت اور بنگلہ دیش کے اعداد و شمار اس بات کی نفی کر رہے ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی 11.5 فیصد ہے جبکہ بھارت میں 4.95 اور بنگلہ دیش میں 5.7 فیصد۔ پاکستان میں شرح سود بھی زیادہ ہے اور مہنگائی بھی جبکہ دوسری طرف بنگلہ دیش اور بھارت‘ اسی خطے کے دونوں ممالک میں شرح سود بھی کم ہے اور مہنگائی کی شرح بھی۔
جیسے جیسے حکومت کی مدت تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے‘ ویسے ویسے عوام کی ''ذہن سازی‘‘ کی مہم تیز کر دی گئی ہے۔ ایک وزیر موصوف فرماتے ہیں کہ پاکستان خطے کا سستا ترین ملک ہے تو دوسرے وزیر صاحب یہ بیان دیتے ہیں کہ پاکستان میں قیمتوں میں اضافے کی وجہ عالمی مہنگائی ہے۔ وزیر اطلاعات فرماتے ہیں کہ دوائیاں مہنگی ہونے سے کون سی قیامت آ جاتی ہے اور صحت کارڈ کے اجرا کے بعد تو یہ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ اور تو اور وزیر موصوف نے یہ تک کہہ دیا کہ بڑے شہروں میں بسنے والے سبسڈائزڈ گیس استعمال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں‘ انہیں اپنی عادتیں بدلنا ہوں گی۔ اس بات کا صاف مطلب ہے کہ حکومت گیس مزید مہنگی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس کا الزام بھی خود پر نہیں لینا چاہتی۔ حکومت کی جانب سے شہری آبادی کو یوں طعنہ دیا جا رہا ہے جیسے گیس کے نئے ذخائر ڈھونڈنا حکومت کی نہیں‘ عوام کی ذمہ داری ہے۔ دوسری طرف دوائیاں مہنگی کرنے کی وجہ بھی حکومت نے تراش رکھی ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ دوائیاں مہنگی نہ کی گئیں تو فارماسوٹیکل کمپنیاں بند ہو جائیں گی۔ کاش! یہ سارے بہانے اور عذر حکومت کو الیکشن سے پہلے بھی معلوم ہوتے۔ کاش! حکومت ایک بار ٹھہر کر اپنا انتخابی منشور پڑھ لے، جہاں مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے وعدے درج ہیں۔ یہ وہی وعدے ہیں جن پر یقین کرکے عوام نے نئے پاکستا ن کا خواب دیکھا تھا۔
معیشت کی بدحالی کے سفر میں اب منی بجٹ کی گونج بھی سنائی دے رہی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے 350 ارب روپے کی سبسڈیز ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رواں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ کوئی منی بجٹ نہیں لایا جائے گا مگر اب حکو مت نے اپنے اس وعدے سے بھی یوٹرن لے لیا ہے۔ جس دن 350 ارب روپے کی سبسڈی ختم ہو گی‘ مہنگائی کا نیا سونامی آئے گا۔ پہلے سے بدحال عوام پاتال کی مزید گہرائیوں میں گر جائیں گے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ حکومت آئندہ ہفتے منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرے گی۔ میرے نزدیک یہ حکومت کا بہت بڑا امتحان ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کے ناراض ارکان، ترین گروپ اور اتحادی کیا فیصلہ کریں گے؟ کیا وہ مزید مہنگائی میں حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے؟ اگران میں سے دس ارکان بھی اِدھر اُدھر ہو گئے تو منی بجٹ کا کیا ہوگا؟ اور اگر منی بجٹ پاس نہ ہوا تو وزیراعظم صاحب کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑ سکتا ہے۔ میرا احساس ہے کہ اگر اس بار یہ نوبت آئی تو حکومت کے لیے اچھی خبر نہیں ہو گی کیونکہ خان صاحب نے جن کو امپائر قرار دیا تھا‘ وہ نیوٹرل ہو چکے ہیں۔ منی بجٹ کے موقع پر سارے حکومتی ارکان اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔ کسی کو کوئی فون کال آئے گی اور نہ ہی کوئی ایم این اے یہ کہہ سکے گا کہ ہم آئے نہیں لائے گئے ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے اسلام آباد کا موسم بدلتے ہی تبدیلی کی ہوا بھی چل پڑی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں