نواز شریف کی واپسی؟

آج کل حکومتی اکابرین کے الفاط ان کے دلوں کی گہرایوں سے یوں نکل رہے ہیں جیسے آتش دان سے آگ کے شعلے لپکتے ہیں۔ میاں نوا ز شریف کا نام آتے ہی وہ یوں شعلہ بیانی سے کام لیتے ہیں جیسے اپنی زبان سے درد کا نوحہ کہہ رہے ہوں۔ حکومت کے زخموں کی رفوگری سے پہلے مغلوں کے دوسرے بادشاہ ہمایوں کا قصہ سنیے۔ شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دے کر دلّی اور آگرہ پر قبضہ کیا تو ہمایوں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پہلے سندھ اور پھر ایران چلا گیا۔ ایران کے بادشاہ نے ہمایوں کو بہت عزت دی۔ اس کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ کچھ عرصے بعد ایرانی بادشاہ نے ہمایوں کو ہزاروں فوجی اور جنگی سازو سامان دیا اور کہا کہ جاؤ اور سوریوں سے اپنی سلطنت واپس لے لو۔ ہمایوں شاہِ ایران کی پیشکش سے بہت خوش ہوا مگر وہ ہندوستان جانے کے بجائے سیر کرنے نکل گیا۔ چند ماہ بعد ایران کے بادشاہ کو پتا چلا کہ ہمایوں ہندوستان نہیں گیا بلکہ یہیں سیر و تفریح میں مگن ہے تو اسے بڑا تعجب ہوا۔ صورتِ حال کو بھانپ کر شاہِ ایران کے مشیر نے تاریخی الفاظ بولے: حضور! مجھے یوں لگتا ہے آپ کوشہنشاہِ ہندوستان ہمایوں کی مزید میزبانی کرنا پڑے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہنشاہ ہندوستان افغانوں سے بہت مشکل سے اپنی جان بچا کر یہاں پہنچے ہیں۔ وہ ہندوستان کے حالات سے ڈرے ہوئے ہیں۔ جب تک حالات ان کے لیے سازگار نہیں ہوں گے‘ وہ ہندوستان کا رخ نہیں کریں گے۔
میاں نواز شریف کی واپسی کو لے کرگزرے چند دنوں سے حکومتی حلقوں میں جس قدر اضطراب پایا جاتا ہے‘ اسے دیکھ کر مجھے شہنشاہ ہمایوں کا یہ واقعہ یاد آ گیا۔ کیا حکومت بھول گئی کہ میاں نواز شریف لندن کیسے گئے تھے؟ کیا مسندِ اقتدار پر بیٹھے لوگوں کو اپنے ہی الفاظ یاد نہیں کہ میاں صاحب کی بیماری تو ایک بہانہ تھا‘ اصل مقصد تو انہیں لندن بھیجنا تھا؟ اگر انہیں سب یاد ہے تو پھر اتنی بے چینی، بے قراری اور بددلی کی وجہ کیا ہے؟ کیا کچھ ہے جس کی پردہ داری کی جا رہی ہے؟
چند روز قبل میاں نواز شریف نے اپنے ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بہت جلد آپ سے پاکستان میں ملاقات ہو گی۔ اس کے بعد ایاز صادق نے لب کشائی کی اور کہا کہ ''بہت جلد کچھ ہونے والا ہے‘ ایک دم بڑا دھماکا ہو گا۔ ابھی بتا دیا تو اس کے خلاف کام شروع ہو جائے گا‘‘۔ یہ وہ الفاظ تھے جو حکومتی زعما کو شاید پسند نہیں آئے اور انہوں نے ایک ایک کر کے میاں نواز شریف کے خلاف بیانات داغنے شروع کر دیے۔ کسی نے کہا کہ وہ جلد سے جلد واپس آئیں کیونکہ کوٹ لکھپت جیل ان کی منتظر ہے۔ کوئی بولا کہ وہ سزا یافتہ مجرم ہیں‘ وطن واپس آئے تو انہیں ایئر پورٹ سے ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔ اس سارے معاملے میں سب سے اہم بیان وزیراعظم صاحب نے دیا ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ نواز شریف کی نااہلی ختم کروانے کے لیے راستے نکالے جا رہے ہیں‘ اگر نواز شریف کی سزا ختم کرنی ہے تو ساری جیلیں کھول دینی چاہئیں‘ ایک مجرم کی سزا ختم کرکے کیسے چوتھی بار وزیراعظم بنایا جاسکتا ہے؟
میرے نزدیک وزیراعظم صاحب کی پریشانی بالکل جائز ہے اور ان کا موقف قانونی اور اخلاقی طور پر درست ہے۔ بھلا ایک سزا یافتہ سیاستدان اپنی سزا کاٹے بنا باہر کیسے آ سکتا ہے؟ دنیا کا کون سا قانون اس کی اجازت دیتا ہے؟ حکومت اس معاملے میں ضرورت سے زیادہ جذباتی ہو رہی ہے۔ انہیں شاید ادراک ہی نہیں کہ میاں نوا ز شریف کو عدالتوں سے سزا ہوئی ہے اور عدالتیں ہی ان کے مستقبل کا فیصلہ کریں گی۔ حکومت کچھ کر سکتی ہے نہ کوئی اور غیر سیاسی طاقت۔ سارا اختیار عدلیہ کا ہے جو آزاد بھی ہے اور قابل اعتماد بھی۔ اگر کوئی فیصلہ آتا ہے تو اس کی بنیاد سو فیصد قانونی ہو گی، مجھے اس بات کا پورا یقین ہے اور حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرکے شکوک و شبہات کو ہوا مت دے۔ اگر حکومت اور احتسابی اداروں کے پاس میاں نواز شریف کے خلاف ٹھوس شواہد ہیں تو پھر پریشانی کی کیا بات ہے؟ رہی یہ بات کہ نون لیگ ایسے بیانات کیوں دے رہی ہے‘ کیا پسِ پردہ کوئی کھچڑی پکائی جا رہی ہے؟ کیا حکومت اور اس کے پرانے اتحادی اب سیم پیج پر نہیں رہے؟ میرے خیال میں صورت حال اتنی گمبھیر نہیں جتنی نظر آ رہی ہے یا دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ دونوں طرف راوی چین نہیں لکھ رہا مگر سرِدست طغیانی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ بات صرف اتنی ہے کہ مسلم لیگ نون حکومت کو پریشان کرنا چاہتی ہے‘ اس لیے ایسی باتیں کر رہی ہے جیسے میاں صاحب دو چار دنوں میں پاکستان لوٹنے والے ہیں، ورنہ کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے تو ابھی ان کی واپسی کے بہت سے مراحل باقی ہیں۔ یہ مراحل کٹھن بھی ہیں اور طویل بھی۔
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ میاں نواز شریف وطن واپس آنے کا ارادہ کر چکے ہیں۔ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں ان کی واپسی ناگزیر ہے مگر یہ ارادہ تین صورتوں میں ہی پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ مریم نواز اسلام آباد ہائی کورٹ سے بری ہو جائیں۔ دوم، میاں نواز شریف کی سیاست کے بڑے کھلاڑیوں سے صلح ہو جائے۔ سوم، برطانیہ کی عدالتیں میاں صاحب کا ویزہ منسوخ کر دیں۔ جس دن یہ تینوں باتیں پوری ہو گئیں‘ میاں صاحب واپسی کے لیے رختِ سفر باندھ لیں گے اور اگر ان میں سے ایک بھی صورت ناکامی سے دوچار ہوئی تو میاں صاحب واپس نہیں آئیں گے۔
مغل شہنشاہ ہمایوں کی طرح میاں نوازشریف بھی نہایت مشکل سے لندن گئے تھے۔ پاکستان میں ان کے لیے حالات اچھے نہیں تھے۔ اب کوئی لاکھ کوشش کرے‘ جب تک ان کے لیے حالات سازگار نہیں ہوں گے وہ وطن واپس نہیں آئیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم صاحب نے کیوں کہا کہ میاں نواز شریف کی نااہلی ختم کروانے کے لیے راستے نکالے جا رہے ہیں؟ وزیراعظم کے پاس جتنے معلومات کے ذرائع ہوتے ہیں‘ کسی اور شخص کے پاس نہیں ہوتے۔ یقینا انہوں نے اتنی اہم بات ٹھوس اطلاعات کی بنیاد پر ہی کی ہو گی ورنہ محض قیاس آرائیوں پر ایسا بیان نہیں دیا جاتا۔ یہ انتہائی نازک صورتِ حال ہے، حکومت کو چاہیے کہ عوام کو اس بارے میں اعتماد میں ضرور لے کہ آخر کون ہے جو ایسی غیر قانونی منصوبہ بندی کر رہا ہے؟ آخر کون ہے جو حکومت سے زیادہ طاقت ور ہے؟ آخر کون ہے جو میاں نواز شریف کی پشت پر آن کھڑا ہوا ہے ؟
یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے حکومت کے اضطراب کے پیچھے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کسی بھی شخص کو تاحیات نااہل قرار نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ بار تاحیات نااہلی کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے جا رہی ہے۔ حکومت کوخدشہ ہے کہ اگر بار نے اپنے دلائل سے عدالت عظمیٰ کو قائل کرلیا تو پھر کیا ہوگا؟ تاحیات نااہلی ختم ہوئی تو اس کا سیدھا فائدہ میاں نوا ز شریف کو ہو گا‘ جو کسی صورت حکومت کے لیے نیک شگون نہیں۔ اس لیے حکومت پریشان ہے اور مسلم لیگ نون طرح طرح کے بیانات دے اس کو مزید ہیجان میں مبتلا کر رہی ہے۔ میرا احساس ہے کہ حکومت نے نواز شریف کی واپسی کو لے کر غیر ضروری بحث کی ابتدا کی ہے۔ یہ سیاست کی ہانڈی میں وقتی ابال ہے جو جلد اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ بے وقت کی راگنی الاپنا بند کرے اور عوامی مسائل کے حل کو اپنا مقصدِ اولیں بنائے۔ عوام خوش ہوں گے تو کوئی بھی طاقت حکومت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گی۔ یہی اکیسویں صدی کی حقیقت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں