ایک اور پانامہ؟

سیاست ہمیشہ ستم رسیدہ ہوتی ہے اور سیاستدان تنہا۔سیاست کی کیاریوں کو پہلے ہموار کیا جاتا ہے اور پھر پودے لگائے جاتے ہیں۔ پودوں پر پھول کھل جائیں تومزید دیکھ بھال کی جاتی ہے اور اگر شومئی قسمت سے کانٹے نمودار ہو جائیں تو انہیں وقت کے کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یہی طاقت کی حکمرانی کا اصول ہے اور یہی وقت کی ضرورت۔اس دوڑ میں سیاسی جماعتیں بھی کسی سے کم نہیں۔ آگے نکلنے کے شوق میںدوسری پارٹیوں کو پاؤں تلے روندنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔وہ کبھی اپنے عزائم میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور کبھی نامراد ٹھہرتی ہیں۔ مسلم لیگ نون ایک اور باری لینے کی کوشش میں تھی مگر اب یوں لگتا ہے اس کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی ہے۔ حفیظ جالندھری یاد آتے ہیں:
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
معلوم نہیں ہمارے سیاستدان کس مٹی سے بنے ہیں۔ خود ہی جمہوریت کے دعوے کرتے ہیں اور خود ہی ڈیل کے ڈول ڈالنے لگتے ہیں۔ خود ہی آمریت کے آسیب سے عوام کو ڈراتے ہیں اورخود ہی سیم پیج پر آنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ایک دن لڑائی کرتے ہیں تو دوسرے دن منت سماجت پر اترآتے ہیں۔ کبھی 'ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو کبھی اداروں کے احترام میں ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔کبھی پارلیمنٹ کی بالادستی کا علم بلند کرتے ہیں تو کبھی ایک فون کال پر ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ اپنے نظریات پر ٹکتے ہیں نہ دوسرے کے خیالات کا پہرہ دیتے ہیں۔ عوام سے ایک بات کرتے ہیں اور طاقتور حلقوں سے دوسری۔ پارٹی میٹنگز میں ایک لہجہ اپناتے ہیں اور پرائیویٹ میٹنگز میں دوسرا۔
ایک زمانہ تھا جب سیاستدان کا ایک چہرہ ہوتا تھا، پھر دو چہرے والے سیاستدانوں کا وقت آیا اور اب‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ‘ ہر سیاستدان تین تین چہرے رکھتا تھا۔ ایک چہرہ عوامی ہوتا ہے اور دوسرا سیاسی جبکہ تیسرا چہرہ ''خواص‘‘ کے لیے ہوتا ہے۔سیاستدان کا تیسرا چہرہ جتنا جاذبِ نظر اور دلکش ہوتا ہے‘ اس کی سیاست کی منزلیں اتنی ہی آسان ہوتی چلی جاتی ہیں۔ وہ برق رفتاری سے ترقی کرتا ہے۔ وزیر سے وزیراعلیٰ اور وزیراعلیٰ سے وزیراعظم تک کا سفریوں طے ہوتا ہے جیسے شام رات کی دہلیز پار کرتی ہے۔
جب سے پی ڈی ایم کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹی ہے اور پیپلزپارٹی نے اپنی راہیں جدا کی ہیں‘ تب سے ڈیل کی خبریں گردش کررہی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی ڈیل ہوچکی ہے‘ اس لیے وہ اسمبلیوں سے استعفے دینے کے حق میں نہیں۔کسی نے کہا کہ میاں شہبازشریف سے ڈیل ہو چکی اس لیے نون لیگ کے سارے لوگ ضمانتوں پر باہر آرہے ہیں۔ افواہوں کی یہ فیکٹری سیاستدانوں نے خود بنائی اورخود ہی چلائی۔ اس کارِخیر میں غیر سیاسی لوگوں نے حصہ کم ہی ڈالا۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو طعنے دیتی رہیں اور خبروں کا پیٹ بھرتی رہیں۔گزرے تین ماہ سے یہ خبر پھیلائی جارہی تھی کہ حکومت اور اداروں کی لڑائی ہوچکی ہے‘ میاں نواز شریف سے مذاکرات کیے جارہے ہیں‘ اب تک تین ملاقاتیں ہو چکی ہیں‘ میاں نوا ز شریف نئے الیکشن کامطالبہ کر رہے ہیں جبکہ طاقتور قوتیں اِن ہاؤس تبدیلی کی خواہاں ہیں‘ میاں نواز شریف کی واپسی کا اعلان ہوتے ہی حکومت کو چلتا کر دیا جائے گا‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام خبریں، افواہیں یا قیاس آرائیاں مسلم لیگ نون کے لوگ پھیلارہے تھے۔ کسی نے کہا کہ حکومت کے بیس سے پچیس ایم این اے پارٹی بدلنے کو تیار ہیں‘کوئی بولا کہ اتحادی کسی بھی وقت حکومت سے الگ ہوسکتے ہیں۔کسی نے اعلان کیا کہ چالیس کے لگ بھگ پنجاب اسمبلی کے ارکان ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں‘ جب چاہیں پنجاب کی سرکارکوچلتا کردیں۔ افواہیں پھیلانے والے وہی سیاستدان ہیں جو دن رات جمہوریت کا جھنڈا اٹھائے نظرا ٓتے ہیں۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ان کے قول وفعل میں اتنا تضاد کیوں ہے؟ یہ جس چیز کو حقیر مانتے ہیں‘ ضرورت پڑنے پر اسے ہی گلے کا ہار بنانے کی خواہش کیوں کرتے ہیں؟ یہ جس راہ پر چلنے کو عیب سمجھتے ہیں‘ اس منزل کا پتا کیوں پوچھتے ہیں؟
اچھا ہوا پاک فوج کے ترجمان نے بروقت واضح کردیا کہ ''میاں نواز شریف سے ڈیل کی باتیں بے بنیاد ہیں‘ڈیل کی باتیں کرنے والے بتائیں کہ ان کے پاس ثبوت کیا ہیں‘ کون ڈیل کررہاہے اور اس کے محرکات کیا ہیں؟ درحقیقت ایسا کچھ بھی نہیں ہے‘ یہ سب قیاس آرائیاں ہیں‘‘۔ اس بیان کے بعد سیاستدانوں کو چپ سی لگ گئی اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ کوئی تو بتائے کہ ایک سزا یافتہ اور عدالتی مفرور سے ڈیل کون کرسکتا ہے؟ بھلا لندن میں بیٹھے شخص کا پاکستانی معاملات سے کیا لینا دینا؟ جب تک ڈیل کی باتیں شعلہ بیاں سیاستدان کررہے تھے تو کسی نے کان نہیں دھرے تھے مگر جب وزیراعظم صاحب نے اس موضوع پر اظہارِ خیال کیا تو ہر طرف شور مچ گیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ''میاں نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے کے لیے راستے نکالے جا رہے ہیں‘اگر سزا یافتہ مجرموں کو چھوڑنا ہے تو تمام جیلوں کے دروازے کھول دینے چاہئیں‘ایک مجرم کی سزا ختم کر کے کیسے چوتھی بار وزیراعظم بنایا جا سکتا ہے؟نواز شریف کی سزا ختم کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں‘‘۔یہ بیان ڈیل کی خبروں کا نقطۂ عروج تھا۔اس کے بعد حکومتی راہداریوں میں بھی سرگوشیاں ہونے لگیں۔ وزرا ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کہ آخر ڈیل کا اونٹ کس کروٹ بیٹھ رہا ہے۔ وزیراعظم آفس کو اس بیان کی وضاحت ضرور کرنی چاہیے۔آخر کون ہے جو نواز شریف کی خاطر آئین و قانون کو پامال کرنے کے لیے تیار ہے؟ آخر کون ہے جو حکومت سے بھی بالاتر ہے؟ کون ہے جو نوازشریف کو چوتھی بار وزیراعظم دیکھنا چاہتا ہے اور کیوں؟ جس روز اس بیان کی وضاحت آگئی ساری الجھنیں دور ہو جائیں گی اوربہت سے عقدے کھل جائیں گے۔پھر کوئی راز‘ راز نہیں رہے گا۔
میاں نواز شریف کے ساتھ ڈیل کی خبروں کی تردید آ چکی ہے۔ کیا اب بھی حکومت مطمئن نہیں؟ اوراگر مطمئن ہے تو پھر اپنے معاملات پر توجہ کیوں نہیں دیتی؟ عام آدمی کی زندگی اجیرن کیوں ہو گئی؟ مہنگائی اوربے روزگاری کے ستائے عوام خود کشیاں کیوں کر رہے ہیں؟ امیر اور غریب کا فرق بڑھتا کیوںجارہا ہے؟ انتظامیہ مافیاز کے سامنے بے بس کیوں ہے؟ حکومت اپنی معاشی پالیسیوں کا رخ عوام کی جانب کیوں نہیں موڑتی؟
اگر حکومت اپنا قبلہ درست کر لے تو افواہیں اپنی موت آپ مرجائیں گی‘ مگر کیا کریں کہ حکومت ایک کے بعد ایک مشکل کا شکار ہورہی ہے۔ الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ نے توتحریک انصا ف کی شفافیت پر سوال کھڑا کر دیا ہے۔ امریکا، مڈل ایسٹ، کینیڈااور نیوزی لینڈ کی فنڈنگ نے بے حساب سوالات کھڑے اٹھائے ہیں۔ میرے نزدیک یہ کیس اتنا سادہ نہیں ہے جتنا ظاہر کیا جارہا ہے۔ کیا یہ کیس وزیراعظم عمران خان اور ان کی پارٹی کے لیے دوسرا پانامہ ثابت ہو سکتا ہے؟ اگر فارن فنڈنگ یا ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوگئی تو حکمرانوں کو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔ پھر کوئی ڈیل کا الزام لگائے گا نہ مداخلت کی بات کرے گا۔حکومت کو چاہیے کہ اپنی اداؤں پر آپ ہی غور کرے اور کھلی آنکھوں سے دیکھے کہ کیا منظر پیشِ نظر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں