مطمئن بیٹھے ہوئے صاحبِ مسند سے کہو

برصغیر کی تاریخ پرتھوی راج چوہان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ راجپوت بادشاہ جتنا بہادر تھا‘ اتنا ہی ذہین اور دوراندیش بھی تھا۔ 1191ء میں ترائین کی جنگ سے پہلے پرتھوی راج چوہان نے دوسرے بہت سے راجوں اور بااثر افراد کو سلطان محمد غوری کے خلاف اکٹھا ہونے کی دعوت دی۔ پرتھوی راج چوہان کے بھائی نے اپنے کچھ دوستوں کو جنگ کے لیے مدعو کرناچاہا تو پرتھوی راج نے صاف انکار کر دیا اور کہا ''اس قبیلے کی سرشت میں وفا نہیں‘ یہ کبھی بھی، کسی کے ساتھ بھی غداری کر سکتے ہیں‘ ایسے لوگوں کو ساتھ ملا کر جنگ جیتنے سے بہتر ہے کہ جنگ لڑی ہی نہ جائے‘‘۔ یہ صرف پرتھوی راج چوہان کا قول ہی نہیں‘ انسانی تاریخ کا ایک سبق بھی ہے کہ جنگ اور حکمرانی میں آپ کے ساتھی باوفا ہونے چاہئیں ورنہ جیتی ہوئی بازی بھی پلٹ سکتی ہے اور فاتح اپنے مخالفین کے قدموں میں گرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔
ان دنوں اہلِ حکومت کو بھی اپنے ساتھیوں کی بے رخی اور بے وفائی کا سامنا ہے۔ حالات کی تلخی بڑھ رہی ہے اور حکمران ہیں کہ کڑواہٹ محسوس کرنے کو تیار نہیں۔ عباس تابش کے دو شعر ملاحظہ کریں‘ سیاسی الجھنیں خود بخود دور ہونے لگیں گی:
اس لیے میرے طرف دار نہیں بھی ہوتے
کچھ سخن فہم مرے یار نہیں بھی ہوتے
مطمئن بیٹھے ہوئے صاحبِ مسند سے کہو
کچھ نوشتے سرِ دیوار نہیں بھی ہوتے
سیاست میں سب سے مفقود شے وفا اور کردار ہے۔ بہت سے سیاست دانوں کا کردار موسموںکی مانند ہوتا ہے‘ کبھی بہار کبھی خزاں، کبھی دھوپ کبھی چھاؤں، کبھی روشن اور کبھی تاریک۔ ہمارے ہاں جو بھی حکومت آتی ہے‘ انہی موسمی سیاست دانوں کے طفیل بنتی ہے۔ یہ ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں اور کبھی نامراد نہیں ٹھہرتے۔ ہر پارٹی انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے اور آخر میں یہ ہر جماعت کے ساتھ ہاتھ کر جاتے ہیں۔ سیاسی تھیٹر میں یہ تماشا ہر چار‘ پانچ سال بعد لگتا ہے اور کیا معلوم کب تک جاری رہے گا۔
ان دنوں وفاقی حکومت کے حالات گمبھیر ہیں‘ پنجاب حکومت کی کشتی بھی بھنور کا شکار ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پانچ وفاقی وزرا‘ دو درجن کے قریب ایم این ایز اور پچاس سے زائد ایم پی ایز حکومت کا ساتھ چھوڑنے کے لیے بیتاب ہیں۔ یہی نہیں‘ حکومت کے اتحادی بھی کسی اچھی آفر کے لیے میل ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم اور قاف لیگ کی تو جیسے لاٹری لگ گئی ہے۔ کبھی آصف علی زرداری صاحب چل کر ان کے پاس جاتے ہیں توکبھی مولا نا فضل الرحمن اور کبھی شہباز شریف صاحب۔ اتحادی اپوزیشن جماعتوں کے سامنے حکومت کی برائیاں کرتے ہیں‘ اس کا گلہ شکوہ کرتے ہیں‘ پرانے دکھڑے چھیڑتے ہیں اور صف بدلنے کے لیے نیم رضا مندی ظاہر کر دیتے ہیں۔ وہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ جس حکومت کے خلاف وہ بول رہے ہیں‘ وہ خود بھی اسی کا حصہ ہیں۔ اگر حکومت عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام رہی ہے تو اسے محض حکومت کے کھاتے میں کیوں ڈالا جائے؟ اسے اتحادیوں کی نااہلی اور ناکامی کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ کیا وہ وفاق اور پنجاب میں ہونے والے فیصلوں کا حصہ نہیں؟ اگر وہ بھی حکومت کا حصہ ہیں تو ناکامی کا بوجھ اٹھانے سے بھاگتے کیوں ہیں؟
حکومت نے چند روز قبل کارکردگی کی بنا پر وزارتوں کی جو فہرست مرتب کی‘ اس میں پہلی دس پوزیشن میں ایک بھی اتحادی جماعت کا وزیر شامل نہیں۔ ایم کیو ایم کے امین الحق کی وزارت پندرہویں نمبر پر رہی اور قاف لیگ کے چوہدری مونس الٰہی کی وزارت بیسویں نمبر پر۔ اگر اتحادیوں کی اپنی کارکردگی یہ ہے تو پھر کس طرح وہ ناکامی کا سارا ملبہ حکومت پر ڈال سکتے ہیں؟
مشہور کہاوت ہے کہ سیاست کے سینے میں دل ہوتا ہے نہ آنکھ میں لحاظ۔ سیاست مجبوریوں اور ضرورتوں کا وہ گودام ہے جہاں اقدار، کردار اور وضع داری کو بہ آسانی دفن کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا ایم کیو ایم اور مسلم لیگ نون کے اکابرین کی ملاقات ممکن تھی؟ کیا ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے شریف برادران کے بارے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے ہیں؟ مسلم لیگ نون نے اپنے تینوں ادوار میں ایم کیو ایم کے خلاف جتنی کارروائیاں کیں‘ شاید ہی کسی اور حکومت نے کی ہوں۔ اس کے بعد بھی دونوں جماعتوں کا ملنا بتاتا ہے کہ سیاست میں اقدار نہیں‘ مفادات اہم ہوتے ہیں۔ گزشتہ بائیس سالوں سے شریف فیملی اور چودھری صاحبان میں اَن بن ہے۔ میاں نواز شریف چودھری پرویز الٰہی کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے تھے مگر اب ایسا کیا ہوا کہ ساری برف ایک دم پگھل گئی۔ میاں نواز شریف نے پرویز الٰہی کو نہ صرف فون کیا بلکہ شہباز شریف انہیں ملنے بھی پہنچ گئے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کسی ایک شخص کی مخالفت میں آپ اپنے نظریات اور سیاسی قدروں کو کیسے پابندِ سلاسل کر سکتے ہیں؟ ہم نے تو کتابوں میں پڑھا تھا کہ سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے مگر ہمارے سیاست دانوں نے تو اسے مفادات کا کھیل بنا دیا ہے۔ جس سے مفاد وابستہ ہے‘ بس وہی ساتھی اور اتحادی ہے۔ مفادات بدلتے ہیں تو دوست بھی بدل جاتے ہیں۔ پھر سیاسی دشمن‘ دشمن نہیں رہتا اور دوست‘ دوست نہیں رہتے؛ تاہم ایسا بھی نہیں کہ سارے سیاست دان ایک جیسے ہیں۔ سینٹرل پنجاب، اندرونِ سندھ اور خیبر پختونخوا میں وفاداریاں بدلنے کا رواج قدرے کم ہے مگر جنوبی پنجاب، بلوچستان، کراچی، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے سیاسی حلقوں میں سیاسی بے وفائی کو بالکل بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ اسی لیے ہر الیکشن سے قبل سیاست دان پارٹیاں اور نظریات تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ زیادہ دور مت جائیں‘ گزشتہ چار حکومتوں کا ہی تجزیہ کر لیں تو سارا کھیل سمجھ آ جائے گا۔ جو سیاستدان پرویز مشرف کا دم بھرتے تھے‘ وہی بعد ازاں آصف زرداری‘ میاں نواز شریف اور عمران خان کے اردگرد پائے گئے۔ کچھ تو ایسے بھی ہیں جو قاف لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں آئے، پیپلز پارٹی کو خیر بعد کہہ کر مسلم لیگ نون کا حصہ بنے اور پھر تحریک انصاف کی کشتی میں سوار ہو گئے۔ یہ وہی سیاست دان ہیں جو اب حکومت کی کشتی سے چھلانگ لگانے کے لیے بے قرار ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو ان کی پارٹی میں شمولیت پر کوئی اعتراض بھی نہیں؛ البتہ انہیں اس بات کا ادراک ضرور ہو گا کہ کل کو یہ لوگ دوبارہ انہیں چھوڑ کر کسی نئے لیڈر کے نعرے لگاتے پائے جائیں گے مگر شاید دونوں جماعتیں اتنی گہرائی میں جانے کو تیار نہیں۔ وہ اپنے وقتی فائدے کے لیے کسی کو بھی سر پر بٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ معلوم نہیں اسے سیاست کہیں گے یا موقع پرستی؟ مگر ایک بات طے ہے اگر سیاست دانوں کو جمہوریت کا تسلسل عزیز ہے تو ایسے موقع پرست سیاست دانوں کی نفی کرنا ناگزیر ہے۔ جب تک ان کا راستہ نہیں روکا جائے گا‘ یہ حکومتوں کو ایسے ہی بلیک میل کرتے رہیں گے۔
محترم وزیراعظم جب نور عالم خان‘ راجہ ریاض‘ عامر لیاقت حسین اور خواجہ شیراز جیسے ایم این ایز کو اسمبلی اور ٹی وی پروگرامز میں اپنی حکومت کے خلاف بولتے سنتے ہوں گے تو انہیں شاید پرتھوی راج چوہان کا قول یاد آتا ہو۔ انہیں ضرور احساس ہوتا ہو گا کہ ایسے لوگوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے سے بہتر تھا کہ وہ حکومت میں نہ ہی آتے۔ ایسے ساتھیوں کا کیا فائدہ جو چڑھتے سورج کے پجاری ہوں اور ڈوبتے سورج کی جانب دیکھنے کے بھی روادار نہ ہوں۔ ریاض مجید یاد آتے ہیں:
میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں