ایک دن میں دو یوٹرن؟

حکومت کیسے وجود پذیر ہوئی؟ یہ فطرت کا کوئی کارنامہ ہے یا کسی آسمانی حکم نے اس کے وجود کو ناگزیر بنایا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے حق میں فطرت کا کوئی استدلال ہے نہ کوئی دلیل۔ حکومت اپنی ذات میں کوئی اختیار لے کر پید ا نہیں ہوئی، اسے تو انسانی ضرورتوں نے جنم دیا۔ جو چیز ضرورت کے بطن سے پیدا ہوئی ہو وہ ضرورت کی حدود کے اندر ہی اپنے اختیارات رکھتی ہے، ان اختیارات کو لامحدود نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا بھر میں حکومتیں کیوں قائم کی جاتی ہیں؟ جاوید احمد غامدی صاحب نے اس کی دو وجوہ بیان کی ہیں ''ایک یہ کہ لوگوں کو حق تلفی سے منع کیا جائے۔ دوسرا جان، مال اور آبرو کے خلاف زیادتی کو روکا جائے۔ کسی بھی حکومت کا یہی دائرہ ہے۔ اس دائرے سے بڑھ کر حکومت کوئی اختیار رکھتی ہے نہ کوئی قانون سازی کرنے کی مجاز ہے‘‘۔ اگر حکومت اپنی حدود و قیود سے باہر نکلتی ہے تو اسے عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر وہ اپنے متعین کردہ دائرے میں رہ کر کام کرتی ہے تو اس پر تنقید کے نشتر چلانا بھی کوئی دانشمندی نہیں۔ کیا حکومت اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی نہ اٹھائے؟
اتوار کے روز صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے دو آرڈیننس جاری کیے۔ پہلا، پاکستان الیکٹرانک ایکٹ ترمیمی آرڈیننس اور دوسرا الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس۔ پاکستان الیکٹرانک ایکٹ ترمیمی آرڈیننس میں ''شخص‘‘ کی یہ تعریف شامل کی گئی ہے کہ شخص میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہے۔ کسی بھی فرد کے تشخص کے خلاف حملے کو قابل دست اندازی جرم قرار دیا گیا ہے۔ یہ ناقابل ضمانت جرم ہو گا، ٹرائل کورٹ چھ ماہ کے اندر فیصلہ کرے گی جبکہ اس جرم کی سزا تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی ہے۔ پاکستان الیکٹرانک ایکٹ کے سیکشن 20 میں ترمیم کرتے ہوئے قرار دیا گیا ہے کہ شکایت درج کرانے والا شخص متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا گارڈین ہو گا۔
حکومت کی اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ سوشل میڈیا اپنی حدود سے تجاوز کر چکا ہے۔ وہاں لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا فیشن بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر عوام بھی ایک دوسرے کو بے توقیر کرتے ہیں اور سیاست دان بھی اپنے مخالفین کے چہروں پر سیاہی ملتے نظر آتے ہیں۔ وہاں ہر وقت جھوٹ کا بازار گرم رہتا ہے‘ عزتیں سرعام پامال ہوتی ہیں اور جی بھر کر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ ٹویٹر پر غلیظ اور نامناسب ٹرینڈز چلائے جاتے ہیں اور ستم یہ کہ جنس کی تفریق بھی نہیں کی جاتی۔ البتہ میری نظر میں پاکستان الیکٹرانک ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے قضیے میں حکومت سے یہ سہو ہوئی ہے کہ اس نے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو ایک ہی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ حکومت کو شاید احساس نہیں کہ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ذمہ دار اور جوابدہ ہے جبکہ سوشل میڈیا بے لگام اور بے مہار۔ کوئی بھی میڈیا چینل‘ اخبار یا ٹی وی جان بوجھ کر غلط خبر نہیں دیتا جبکہ سوشل میڈیا پر اس بات کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا۔ الیکٹرانک میڈیا عام آدمی کی زبان بولتا ہے مگر سوشل میڈیا پر سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے آلہ کاروں کی بھرمار ہے۔ وہاں سیاسی پارٹیو ں کے میڈیا ونگز متحرک ہیں۔ سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔ دنیا بھرمیں کہیں بھی الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کو ایک ترازو میں نہیں تولا جاتا۔ نجانے حکمرانوں کو اس انہونی کی کہاں سے سوجھی؟
وقت کے ساتھ قوانین میں جدت لانا بہترین عمل ہے مگر ان قوانین کی سَمت درست ہے یا نہیں‘ اس کا فیصلہ تو عوام ہی کر سکتے ہیں‘ حکمران نہیں۔ جس انداز سے پاکستان الیکٹرانک ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کیا گیا ہے اور سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے ایک جیسی سزائیں متعین کی ہیں‘ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کیا سوچا جا رہا ہے۔ حکمران شاید گورننس اور معیشت کے میدان میں ہونے والی تنقید کا بوجھ نہیں اٹھا پا رہے۔ وہ عوام کی آہ و بکا کو اپنے وجود کے لیے خطر ہ سمجھ رہے ہیں۔ وہ نہ صرف اپوزیشن کا منہ بند کرنا چاہتے ہیں بلکہ میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانا بھی ان کا مقصد ہے۔ اگر حکومت ایسے مقدمات میں تین سال کے بجائے پانچ کی سزا پر بضد ہے تو یہ زیادہ بڑی بات نہیں؛ تاہم ایسے جرائم کو ناقابل ضمانت جرائم کی فہرست میں شامل کرنا سراسر ناانصافی ہے۔ کیا یہ انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی نہیں؟ کیا یہ قتل، دہشت گردی اور منشیات کا کالا دھندا کرنے جتنا بڑا جرم ہے؟ اس معاملے پر تو کوئی دوسری رائے ہی نہیں کہ کسی بھی حکومتی شخصیت‘ حتیٰ کہ عام آدمی کے خلاف بھی منفی پروپیگنڈا نہیں ہونا چاہیے مگر خبر جھوٹی ہے یا سچی‘ تنقید جائز ہے یا ناجائز اور کسی بھی شخص کے خلاف ہونے والی گفتگو پروپیگنڈ ا ہے یاحقیقت‘ اس کا فیصلہ کون کرے گا اور کیسے؟ کیا کوئی پیمانہ وضع کیا گیا ہے؟
تاریخ بتاتی ہے کہ اس قسم کے قوانین نے ہمیشہ سیاسی مخالفین کا جینا حرام کیا ہے اور حق‘ سچ لکھنے والے لکھاریوں کا راستہ مسدود کیا ہے۔ یہ کام ایوب خان کے زمانے میں شروع ہوا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو نے بھی حسبِ توفیق اسے آگے بڑھایا۔ ضیاء الحق میڈیا کی زباں بندی کے بہت بڑے داعی تھے اور میاں نواز شریف بھی حسبِ موقع ایسے اقدام کرتے رہے۔ وہ وقتی طور پر اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے ہوں گے مگر کیا سوال یہ ہے کہ آج انہیں اور ان کے اقدامات کو کن الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے؟ اگر تاریخ کا یہ سبق حکومت کے پیشِ نظر ہے تو پھر وہ ہوش کے ناخن کیوں نہیں لیتی؟
ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ آرڈیننس لانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس حوالے سے قانون تو پہلے بھی موجود تھا مگر اس پر صحیح معنوں میں عملدرآمد نہیں کیا جا رہا تھا‘ کیوں؟ ہمارا اصل مسئلہ قانون کی عدم دستیابی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا ہے۔ ہر حوالے سے قانون اپنی جگہ موجود ہیں مگر تیسری دنیا کے ممالک میں قانون کا نفاذ نہ ہونے کے برابر ہے‘ اسی لیے قانون کا خوف بھی مفقود ہے۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کی سزا موت ہے‘ مگر کیا ہمارے معاشرے میں قتل ہونا بند ہو گئے؟ گینگ ریپ کی سزا بھی موت تک ہے مگر روز بھیانک سے بھیانک کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ چوری، ڈکیتی اور راہزنی پر بھی خطرناک سزائیں تجویز کی گئی ہیں مگر کیا وارداتوں میں کوئی کمی آئی؟ محض قانون بنا دینے سے جرائم کی شرح میں کمی آ بھی نہیں سکتی‘ کیونکہ عوام میں قانون کا خوف موجود ہے نہ حکمرانوں میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا جذبہ۔ اگر یہ لگن ہوتی تو حکومت الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کرتی؟
حکومت کو خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں شکست کا سامنا کیا کرنا پڑا‘ اس نے یوٹرن پر یوٹرن لینا شروع کر دیے ہیں۔ مذکورہ آرڈیننس کے بعد‘ وفاقی اور صوبائی وزرا کے علاوہ ایم این ایز، ایم پی ایز، سینیٹرز اور بلدباتی نمائندے کسی بھی الیکشن مہم میں حصہ لے سکیں گے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ حکومت نے سیاسی مجبوریوں کے لیے اپنے دہائیوں پر محیط اصولوں کی قربانی دے دی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد ہونے والے لاہورکے ضمنی الیکشن میں محترمہ کلثوم نواز اور محترمہ یاسمین راشد مدمقابل تھیں۔ عمران خان اور یاسمین راشد سمیت تمام پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اس وقت یہ گلہ کر رہے تھے کہ مسلم لیگ نون کے وزرا الیکشن مہم میں حصہ لے کر مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ حلقے میں حکومتی وسائل کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر اس وقت مسلم لیگ نون کے وزرا ضمنی الیکشن میں اثر و رسوخ استعمال کر رہے تھے تو اب وفاقی و صوبائی وزرا‘ پنجاب اور کے پی میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں کیوں پیچھے رہیں گے؟ کیا حکومت کے پاس کوئی جواب ہے؟ کیا حکومت بتائے گی کہ اس نے ایک ہی دن میں دو یوٹرن کیوں لیے؟ کہیں وہ اپنے اختیارات کو لامحدود تو نہیں کر رہی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں