جاپان ہی سے سیکھ لیں

جاپان نے 1931ء میں چین کے شمال مشرقی حصے منچوریا پر قبضہ کرلیا اور وہاں اپنی پسند کی حکومت قائم کر دی۔ اس کے بعد چین اور جاپان کے تعلقات خراب ہو گئے۔ یہی نہیں‘ 7 جولائی 1937ء کو بیجنگ کے پاس مارکو پولو برج کا واقعہ پیش آیا۔ اس حادثے نے دبے ہوئے جذبات کو بھڑکا دیا اور دونوں ملکوں کے مابین ٹکراؤ شروع ہو گیا جو بالآخر دوسری جنگ عظیم تک جا پہنچا۔ جنگ ختم ہو گئی مگر چین اور جاپان کے مابین نفرت اور کشیدگی کم نہ ہو سکی۔ لگ بھگ پینتیس سال بعد چین میں تجارت کے زبردست مواقع پیدا ہو گئے۔ اب جاپان چاہتا تھا کہ ان تجارتی امکانات سے بھر پور فائدہ اٹھائے۔ اس مقصد کے لیے جاپان نے یکلخت ماضی کی تمام تلخ یادوں کو بھلا دیا۔ اس نے طے کیا کہ وہ چین کی طرف سے پیش آنے والی ہر ایذا کو یکطرفہ طور پر برداشت کرے گا اور پھر دہائیوں تک ایسے ہی کیا گیا۔ چین کے وزیراعظم ڈینگ زاپنگ نے اشتراکی انتہا پسندی کو ختم کیا اور سب کے ساتھ کاروبار کرنے کا اعلان کیا تو جاپان کو بھی موقع مل گیا۔ اس نے اپنی معیشت کو دوام دینے کے لیے چین کے ساتھ بھرپور تجارت کی جس کا فائدہ یقینی طور پر دونوں ملکوں کو ہوا۔ مولانا وحید الدین خان اپنی کتاب رازِ حیات میں لکھتے ہیں کہ جاپان کے سامنے اپنی تجارت اور معیشت کو فروغ دینے کا مقصد تھا۔ اس مقصد نے جاپان کے اندر کردار پیدا کر دیا اور اس کو حکمت، برداشت، اعراض اور صرف بقدر ضرورت بولنا سکھایا۔ اس مقصد نے اسے بتایا کہ وہ کس طرح ماضی کو بھلا دے اور تمام جھگڑوں اور شکایتوں کو دفن کردے۔ مقصد آدمی کی چھپی ہوئی قوتوں کو جگا دیتا ہے اور اس کو نیا انسان یا نیا حکمران بنا دیتا ہے۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کردار اور مقصد کے شعور کو قربان کر دیا ہے۔ ہم ایک بے مقصد گروہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہمارے سامنے دنیا کی تعمیر کا خواب ہے نہ معیشت کی بنیادوں کو بھرنے کا عزم۔ اسی لیے ہم نظریاتی طور پر کج فہمی کا شکار ہیں۔ ہمیں احساس ہی نہیں رہا کہ سیاسی مقاصد اور قومی مقاصد میں کیا فرق ہوتا ہے؟ آئندہ نسلوںکے مستقبل کو دیکھ کر فیصلے کرنے اور جذباتی نعرے لگانے میں تمیز کیسے کی جاتی ہے؟ پچھتر سال بیت گئے مگر ہم معاشی پالیسی بنا سکے نہ سیاسی سمت کو درست کر سکے۔ فلاحی ریاست کے خواب کو عملی جامہ پہنا سکے نہ نظریاتی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکے۔ حکمران ہی نہیں عوام بھی اس کشتی کے سوار ہیں۔ ہم آج تک مہنگائی جیسے مسئلے پر یک زبان ہو سکے نہ لاقانونیت کے خلاف کھل کر بول سکے۔ بدانتظامی پر سیم پیج پر آ سکے نہ حکمرانی کی ناکامی پر مل کر واویلا کر سکے۔ ہم بطور قوم ہی منتشر ہیں۔ ہمارے اپنے اپنے مقاصد ہیں اور اپنی اپنی جستجو۔ ہمیں تو یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ حکمران جو بیانیہ بناتے ہیں وہ سیاسی مقاصد کے لیے ہوتا ہے نہ کہ عوامی۔ اگر ہم اجتماعی مقصدیت کے شعور سے عاری نہ ہوتے تو برے کو برا اور غلط کو غلط ضرور کہتے۔ ہم مل کر آئین و قانون کا مذاق اڑانے کو ہدفِ تنقید بناتے اور غیر آئینی کاموں پر منقسم نہ ہوتے۔
پاکستان میں ان دنوں بھی نظریات کی تقسیم عروج پر ہے اور اس بار یہ تقسیم پیدا کرنے کے ذمہ دار حکمران طبقات ہیں۔ ملک میں جذباتی افراد اور حقیقت پسندوں کے درمیان مباحثے ہو رہے ہیں۔ کوئی مغربی ممالک کے لتے لے رہا ہے تو کوئی ان ممالک سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہیں۔ میرے نزدیک اب دنیا بدل چکی ہے‘ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کو دبا سکتا ہے نہ بلاضرورت تنقید کے نشتر چلا سکتا ہے۔ گزرے دو ماہ سے خارجہ محاذ پر عجب ماحول بنا ہے۔ وزیراعظم عمران خان مغرب کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے نازک معاملات کا ادراک کیا جا رہا ہے نہ پاکستان کے معاشی اور دفاعی مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھا جا رہا ہے۔ کوئی نہیں کہہ رہا کہ پاکستان امریکا کی غلامی قبول کر لے‘ کوئی نہیں کہہ رہا کہ ہم اپنے قومی مفادات کو فراموش کر دیں مگر جو زبان بولی جا رہی ہے وہ کسی طور بھی ہمارے مفادات کا تحفظ نہیں کرتی۔ حکمران سیاسی فائدے کے لیے امریکا مخالف جذبات کو ابھار رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ امریکا مخالف بات کرنا ہمارے ہاں کا مقبول فیشن ہے اور عوام اسے پسند کرتے ہیں۔ کوئی تو پوچھے‘ کیا ہم امریکا اور یورپ سے لڑ سکتے ہیں؟ اگر لڑ سکتے ہوں‘ تب بھی اس لڑائی کی ضرورت کیا ہے؟ کیا ہم معاشی طور پر اتنے مضبوط ہیں کہ جنگوں کا بوجھ اٹھا سکیں؟ نجانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ قرض پر چلنے والے ملک غیر ضروری لڑائیاں نہیں لڑا کرتے۔ ہم تو آئی ایم ایف کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے‘ امریکا اور یورپ تو بہت بڑی طاقتیں ہیں۔ اگر ہم نے ان کا مقابلہ کرنا ہے تو جذباتی باتوں کو خیرباد کہہ کر معاشی طور پر طاقتور ہونے کا عزم کریں۔ہمیں ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ معیشت ہی وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں تحفظ فراہم کر سکتا اور ہمارا سر اونچا کر سکتا ہے۔ ہمیں بھی جاپان کی طرح برداشت اور حکمت سے کام لینا ہو گا۔ ہمیں بھی چین کی طرح دنیا سے تجارتی مراسم بڑھانا ہوں گے۔ ہمیں معیشت کو مقصدِ اول بنا کر اپنا کردار بدلنا ہو گا۔
جمہوری حکمران قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں اور آمرانہ ذہن قانون سے حکمران کو یقینی بناتے ہیں۔ وہ ایسے قوانین کے متلاشی ہوتے ہیں جو ان کے منطق سے عاری اور ناقابل فہم ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔ دو روز قبل قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا‘ کیا وہ کسی جمہوری حکومت کو زیب دیتا ہے؟ ڈپٹی سپیکر نے جو رولنگ دی کیا وہ آئین و قانون کے عین مطابق تھی؟ اگر کسی ملک نے ہماری حکومت کو دھمکی دی ہے تو کیا ہمیں بھی سفارتی آداب بھول جانے چاہئیں؟ وزیر قانون نے کہا کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے‘ اپوزیشن نے ملک سے غداری کی ہے اس لیے اس تحریک کو مسترد کیا جائے۔ ڈپٹی سپیکر نے من و عن ایساہی کیا جس کے بعد وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدرِ مملکت نے قومی اسمبلی توڑ دی۔ اب یہ کیس سپریم کورٹ میں ہے‘ دیکھئے کیا فیصلہ آتا ہے۔ ماہرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیسے کسی کو آرٹیکل پانچ کا مجرم قرار دیا جا سکتا ہے‘ وہ بھی ایسی صورت میں کہ عدالت لگی نہ جرح ہوئی‘ گواہ پیش کیے گئے نہ ثبوت اور یکطرفہ طور پر فیصلہ بھی سنا دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ سب سچ ہے‘ جو بتایا جا رہا ہے تو اسمبلی کیوں توڑ دی؟ کیا اپوزیشن پر مقدمات نہیں بننے چاہئیں تھے؟ کیا ان جماعتوں پر پابندی نہیں لگنی چاہیے تھی؟ کیا ملک سے غداری کرنے والو ں کو عوام کے سامنے نشانِ عبرت نہیں بنانا چاہیے تھا؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حکومت نے یہ سنہری موقع کیوں ضائع کر دیا؟ وہ اپوزیشن کو سزائیں دلاتی‘ ساری جماعتیں کالعدم ہو جاتیں اور تحریک انصاف بہ آسانی اگلا الیکشن بھی جیت جاتی۔
مشہور مقولہ ہے کہ ہر بات کی تہہ میں ایک بات ہوتی ہے اور وہی بات اصل بات ہوتی ہے۔ اس ساری کہانی کی تہہ میں بھی کوئی بات ضرور ہے ورنہ تحریک انصاف میدان چھوڑ کر نہ جاتی۔ میرا احساس ہے کہ سپریم کورٹ میں سارے نقاب اتر جائیں گے۔ جلد قوم کو معلوم ہو جائے گا کہ کس نے ملک سے غداری کی اور کون آئین شکنی کا مرتکب ہوا؟ بس تھوڑا انتظار اور...

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں