ایک اور دھرنا

مولانا روم سے کسی نے پوچھا: عقل مند اور نادان کی پہچان کیا ہے؟ مولانا نے فرمایا ''عقل مند دوسروں کے تجربات سے بھی سیکھتا ہے جبکہ نادان اپنے تجربے سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرتا‘‘۔ دانشمندی یہ نہیں کہ آپ اپنے ایک پاؤ گوشت کے لیے ملک و قوم کی بھینس ذبح کر دیں بلکہ دانشمندی یہ ہے کہ آپ غار میں اُگے ہوئے پودے سے بھی پھول اور پھل کی امید رکھیں۔ قفس میں اسیر بلبل بھی اپنے پر نوچ کر نشیمن بنا لیتا ہے تاکہ اپنی آئندہ نسلوں کو محفوظ ٹھکانہ دے سکے‘ ہم تو پھر انسان ہیں۔ ہم بھلا کیسے اپنے گھر کو شعلوں کے سپرد کر سکتے ہیں؟ ہم بھلا کیسے اپنی ہی شاخوں کو کاٹنے کی سعی کر سکتے ہیں؟ علامہ اقبال یاد آتے ہیں:
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
میری خوشی دیدنی تھی جب سابق وزیراعظم عمران خان نے کچھ اعترافات کیے۔ ان کا یہ روپ پہلی بار دیکھنے کو ملا‘ ورنہ تو وہ اپنی بات اور فعل پر ڈٹ جانے کے لیے مشہور ہیں۔ وہ مسندِ اقتدار پر براجمان ہوکر اپنی بات سے یوٹرن لیتے تھے تو اس کی بھی دلیل تلاش کر لیتے تھے۔ ان کے لیے غلطی کا اعتراف کرنا عبث تھا۔ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی سے اترنے کے بعد انہوں نے پہلا اعتراف یہ کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بنانا ان کی غلطی تھی۔ انہیں یہ کام نہیں کرنا چاہیے تھا مگر اس وقت کے وزیر قانون فروغ نسیم نے ان سے یہ کام کروایا۔ اچھا کیا‘ جو سابق وزیراعظم نے اپنی غلطی مان لی‘ ورنہ جس طرح معزز جج اور ان کے خاندان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا‘ وہ انتہائی افسوس ناک تھا۔ خان صاحب نے دوسرا اعتراف یہ کیا کہ انہیں 2018ء میں مخلوط حکومت نہیں بنانا چاہیے تھی اور اسمبلی توڑ کر دوبارہ الیکشن کروانا چاہیے تھا۔ کاش! ایسا ہو جاتا تو آج بھی عمران خان آدھے پاکستان کی امید ہوتے۔ اب تک وہ ''نیا پاکستان‘‘ بنا چکے ہوتے یا شاید عوام کو مکمل طور پر ناامیدی کی دلدل میں دھکیل چکے ہوتے۔ کم از کم آدھا تیتر‘ آدھا بٹیر کی کیفیت تو نہ ہوتی۔ تیسرا اعتراف انہوں نے اتحادیوں کے بارے میں کیا کہ الیکشن میں سیٹیں دے کر بھی اتحادی کسی کے نہیں ہوتے اور وہ آئندہ کسی کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گے۔ کاش! انہیں پہلے ہی اس کا ادراک ہو جاتا‘ پھر قاف لیگ، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی کے بارے میں طرح طرح کے طعنے نہ سننا پڑتے۔ چوتھا اعتراف سابق وزیراعظم نے یہ کیا کہ 2018ء کے الیکشن میں انہوں نے ٹکٹیں خود نہیں دی تھیں‘ اس لیے الیکٹ ایبلز کی بھرمار ہو گئی تھی۔ اس دفعہ وہ خود ٹکٹ دیں گے اور الیکٹ ایبلز سے پرہیز کریں گے۔ چلیں! اتنا تو ہوا کہ انہوں نے تسلیم کر لیا کہ الیکٹ ایبلز نظریاتی سیاست کے ساجھے دار نہیں ہوتے‘ ورنہ پہلے تو خان صاحب یہی کہتے تھے کہ میں سویڈن میں سیاست نہیں کر رہا‘ اگر پاکستان میں اقتدا رکی سیاست کرنی ہے تو الیکٹ ایبلز ناگزیر ہیں۔
اگرچہ انہوں نے یہ اعلان تو کر دیا ہے مگر میرا خیال ہے کہ جیسے ہی الیکشن قریب آئیں گے‘ وہ ایک بار پھر یوٹرن لے لیں گے کیونکہ الیکٹ ایبلز کی سیاست سے تو ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنا دامن نہیں چھڑا سکے تھے‘ عمران خان کیسے چھڑائیں گے؟ الیکٹ ایبلز کل بھی ناگزیر تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔ عمران خان نے پانچواں اور آخری اعتراف یہ کیا کہ ''میاں نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجنا ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ مسلم لیگ نون کے قائد نے لندن میں بیٹھ کر ان کی حکومت کے خلاف سازش کی‘‘۔ میں یہ تو نہیں جانتا کہ میاں نواز شریف نے کوئی سازش کی یا نہیں مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جب بھی کوئی حکمران امیر و غریب اور طاقتور و کمزور کے لیے الگ الگ انصاف کے پیمانے بناتا ہے تو ایسے ہی ہوتا ہے۔ نجانے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ حکمرانوں کے نزدیک دو قانون ہو سکتے ہیں مگر قدرت کا تو ایک ہی قانون ہوتا ہے اور وہ ہے انصاف۔
اپنی غلطی کو تسلیم کرنا یقینا بہت بڑی بات ہے مگر ناکامیوں کا اعتراف کرنا سب کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ جو ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہیں‘ وہ کامیابی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ دیتے ہیں۔ کاش! سابق وزیراعظم اپنے عہد کی کچھ نامیوں کا بوجھ بھی اٹھائیں‘ تاکہ عوام کے دل میں ان کی عزت مزید بڑھ جائے۔ ہو سکے تو عوام کو بتائیں کہ ان کی حکومت معیشت کے میدان میں ناکام کیوں ہوئی؟ انہیں عوام کے سامنے اعتراف کرنا چاہیے کہ حکومت سنبھالتے وقت ان کے پاس معاشی ٹیم تھی نہ ہی کوئی جامع پلان۔ اسد عمر نے جو سبز باغ دکھائے تھے‘ وہ حقیقت کی دنیا سے کوسوں دور تھے۔ سابق وزیراعظم کو تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ نہ تو مہنگائی کو کنٹرول کر سکے اور نہ ہی بدانتظامی کو۔ وہ آٹھ ہزار ارب روپے ٹیکس اکٹھا کر سکے اور نہ قوم کو قرضوں کے بوجھ سے آزاد ی دلا سکے۔ وہ روپے کی ناقدری روک سکے نہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کر سکے۔ وہ بے روزگاری کو لگام دے سکے نہ مافیاز کو قابو کر سکے۔ وہ کرپشن کا قلع قمع کر سکے نہ اقربا پروری کی روک تھام کر سکے۔ وہ ایک کروڑ نوکریاں دے سکے نہ پچاس لاکھ گھر بنا سکے۔ وہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لا سکے نہ
کرپٹ اشرافیہ کو کیفر کردار تک پہنچا سکے۔ وہ چینی چوروں کا محاسبہ کر سکے نہ گندم مافیا کا مقابلہ کر سکے۔ وہ راولپنڈی رنگ روڑ کے کرداروں کو بے نقاب کر سکے نہ ادویات سکینڈل کے پیچھے چھپے چہرے سامنے لا سکے۔ وہ وزرا کی قابل ٹیم بنا سکے نہ بیوروکریسی سے کام لے سکے۔ وہ پولیس کلچر بدل سکے نہ ادارہ جاتی ریفارمز کرنے میں کامیاب ہو پائے۔ وہ سی پیک کو تقویت دے سکے نہ مزید بیرونی سرمایہ کاری لا سکے۔ وہ دوست ممالک کے ساتھ مراسم مضبوط کر سکے نہ دشمنوں کو ریڈلائن کراس کرنے سے روک سکے۔ وہ مسئلہ کشمیر کے لیے مسلم ممالک کو بیدار کر سکے نہ عالمی رہنماؤں کا ضمیر جھنجھوڑ سکے۔ انہیں یہ بات بھی مانتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ عثمان بزدار اور محمود خان کو صوبوں کا چیف ایگزیکٹو بنانا میرٹ، قابلیت اور تجربے کی توہین تھی۔ دونوں وزرائے اعلیٰ نصف سے زائد ملک (لگ بھگ پندرہ کروڑ عوام) کی داد رسی کر سکے نہ پارٹی کے منشور کو مشعل راہ بنا سکے۔
سابق وزیراعظم نے اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے ایک اور اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنے وڈیو پیغام میں کہا ہے ''قوم تیار ہو جائے‘ چند ہفتوں بعد اسلام آباد کی طرف مارچ کی کال دوں گا اور قوم میرے ساتھ اس وقت تک دھرنے پر بیٹھے جب تک نئے الیکشن کا اعلان نہیں ہوجاتا‘‘۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ خان صاحب نے اپنے ماضی کے تجربے سے کچھ نہیں سیکھا۔ 2014ء میں وہ 126 دن تک دھرنے پر بیٹھے رہے تھے مگر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے تھے۔ اس ناکام تجربے نے ان کی پارٹی کو اتنا تھکا دیا تھا کہ وہ ڈیڑھ سال تک ریکور نہیں کر سکے تھے۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ جو کام وہ ماضی میں نہیں کر سکے تھے‘ اب کیسے کریں گے؟ اب وہ سابق وزیراعظم ہیں‘ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ شہر، بازار اور سڑکیں بندکرنے سے معیشت کو کتنا نقصان پہنچتا ہے۔ نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے اور عام آدمی کو کتنی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ باقی رہی بات الیکشن کی‘ تو حکومت بھی قبل از وقت انتخابات کا ارادہ رکھتی ہے۔ آج نہیں توکل‘ کل نہیں تو پرسوں نئے انتخابات ہونا ہی ہیں۔ نجانے خان صاحب پانچ‘ چھ ماہ انتظار کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ عمران خان کو اگر یہ لگتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور وہ آئندہ الیکشن میں کلین سویپ کر جائیں گے تو میرے نزدیک یہ ان کی خام خیالی ہے۔ جو انہیں وزیراعظم کے عہدے سے فارغ کر کے گھر بھیج سکتے ہیں‘ وہ تحریک انصاف کے چیئرمین کو دوبارہ وزیراعظم بننے سے کیوں نہیں روک سکتے؟ مت بھولیں! پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ کا فیصلہ مقبولیت سے نہیں‘ قبولیت سے ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں