وڈیو آنے والی ہے !

کاغذ کے پھولوں سے عطر بنتے ہوتے تو ہماری سیاسی اشرافیہ بھی ملک کی تقدیر بدل چکی ہوتی۔ اندھیرا بڑھا کر روشنی کی جا سکتی تو نئے اور پرانے پاکستان کی بحث ہی کیوں ہوتی؟ کیکر کے درخت پر آم اُگ سکتے تو پوری قوم قرضوں کے بوجھ تلے دبی نہ ہوتی۔ جھوٹ کو سچ کا متبادل قرار دیا جا سکتا تو سارا ملک نظریاتی تقسیم کا شکار نہ ہوتا۔ ستم یہ نہیں کہ ہم منقسم ہیں بلکہ دکھ یہ ہے کہ ہم لاحاصلی کے راستے پر ہیں۔ ایسا راستہ جو اندھیرے سے نکل کر تاریکی کی جانب جاتا ہے۔ ایساراستہ جو کل بھی مشکل تھا اور آج بھی کٹھن ہے۔ ایسا راستہ جو مشقت اور اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
ہم نے بطورِ قوم عجب قسمت پائی ہے۔ ہمارے سیاست دان اپنی سیاست میں مگن ہیں اور عوام لاعلمی کے سمندر میں غوطہ زن۔ سچ اور جھوٹ کی تفریق سے بے نیاز، غلط اور صحیح کے فرق سے بے خبر، اچھے اور برے کی تمیز سے ماورا۔ کیا یہی قوموں کا شیوہ ہوتا ہے؟ کیا ایسی بے مقصد راہوں کے مسافر کبھی منز ل تک پہنچ پائے ہیں؟ اگر پہنچ سکتے تو ہم پچھتر سال بعد بھی ادھوری راہوں میں بھٹکے ہوئے نہ ہوتے۔ چین چند دہائیوں میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا، ملائیشیا، برازیل، متحدہ عرب امارات، سنگاپور اور جنوبی کوریا نے اپنے عوام کا مستقبل سنوار دیا اور ان برسوں میں ہم نے کیا کیا؟ کیا کبھی یہ سوال ہم نے اپنے اجتماعی ضمیر کی عدالت میں رکھا ہے؟ بھلا ہم کیوں ہر میدان میں پیچھے ہیں؟ ہم ڈھنگ سے سیاست کر سکے نہ حکومت، سائنس کے نئے جہاں دریافت کر سکے نہ معاشی ترجیحات طے کر پائے، دوست ممالک کے ہم قدم ہو سکے نہ دشمنوں کے ہم پلہ، صوبوں میں ہم آہنگی پیدا کر سکے نہ سماج میں توازن۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ ہم نے دانستہ طور پر دیوانگی، تشدد اور غارت گری کی فضا کو پروان چڑھنے دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ہر ہاتھ میں پتھر ہے اور وہ آئینے کی تلاش میں رہتا ہے۔ آئینہ نہیں ملتا تو سر پھوڑنے پر اتر آتا ہے۔ میرے نزدیک ہولناک تجربوں کے ایک پورے سلسلے نے ہماری تخلیقی بصیرت چھین لی۔ اسی لیے اب ہم سوچنے اور اظہار کرنے سے بھی قاصر دکھائی دیتے ہیں ورنہ ایسی بھی کیا دیوانگی کہ انسان علم و آگہی اور جہالت کو ایک ترازو میں تولنے لگے۔ روشنی اور اندھیرے کو ایک نظر سے دیکھنا شروع کر دے۔
ویسے تو چھ سات‘ سالوںسے سوشل میڈیا پروپیگنڈا اور جھوٹی خبروں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے مگر گزشتہ دو ماہ سے جو تیزی دیکھنے میں آئی ہے‘ اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ عام لوگوں سے لے کر حکمرانوں تک، اَن پڑھ افراد سے لے کر پڑھے لکھے لوگوں تک‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر کوئی نفرت کا کاروبار کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر عوام کا ا شتعال اور غم وغصہ نہ تو اپنے جذبات میں تہذیبی اقدار پہ کاربند ہے اور نہ اپنے اظہار کی بے لگامی پر پشیمان۔ ہر انسانی صورت حال اپنے بیان کے لیے ایک خاص سطح اور مزاج کا مطالبہ کرتی ہے مگر افسوس! اب جیسے بھی حالات ہوں‘ ہمارے ہاں شدت پسندی، بدتہذیبی اور بدکلامی کا راج رہتا ہے۔ اس میں قصور کسی ایک شخص، طبقے یا ادارے کا نہیں بلکہ اجتماعیت کا ہے۔ ہم نے خود اپنے آپ کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ جہاں ہمیں سیاست دان دیوتا لگنے لگے ہیں، ہم ان سے عقیدت کا رشتہ استوار کرتے ہیں اور پھر وہ جو بیانیہ بناتے ہیں‘ ہمارے لیے وہی سچ ہوتا ہے۔ وہ دن کہتے ہیں تو دن، وہ رات کہتے ہیں تو رات۔ ان کا کوا سفید ہے تو ہمارا بھی سفید‘ اور اگر ان کا کوا کالا ہے تو ہمارے لیے بھی کالا۔ ہم نے سیاست کو سیاست سے بالاتر کر دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سیاست ایک فرقہ ہے اور ہم اس کے پیروکار۔ سیاستدان ہمارے مرشد ہیں اور ہم ان کے مرید۔ ہم ان کے خلاف ایک لفظ سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اگر ہمارا کوئی عزیز، دوست یا رشتے دار ہمارے کسی من پسند لیڈر کی رائے سے اختلاف کی گستاخی کر لے تو ہم لڑنے مرنے پر اتر آتے ہیں۔ اپنے دیرینہ تعلق کا لحاظ کرتے ہیں نہ قریبی رشتے کا۔ سیاسی جماعتوں کے لیے مختص القاب تو اب تقریباً گالی بن چکے ہیں۔ اگر کسی کی تضحیک مقصود ہو تو اسے ایسے القابات سے مخاطب کیا جاتا ہے اور پھر جو ہوتا ہے‘ وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم اس ڈگر پر کیوں چل پڑے ہیں جہاں صرف اور صرف نفرت کی آبیاری ہوتی ہے؟ جہاں صرف جھوٹ کی فصل بوئی جاتی ہے؟ کیا ہم نے کبھی ادراک کیا کہ ہم سیاست دانوں کی محبت میں اپنے اداروں کو بھی ہدفِ تنقید بنانے سے باز نہیں آتے۔ ہم اب عدلیہ کا احترام ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں نہ سکیورٹی اداروں کا۔ الیکشن کمیشن کی عزت کرتے ہیں نہ پارلیمنٹ کو معتبر گردانتے ہیں۔ سیاستدان کھلے عام جلسوں میں کبھی میر جعفر اور میر صادق کے طعنے دیتے ہیں اور کبھی بے فیض ہونے کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کبھی نیوٹرل ہونے کا شکوہ کرتے ہیں اور کبھی ساتھ نہ دینے کا گلہ۔ کیا انہیں اتنا بھی احساس نہیں کہ مقتدر حلقوں کا نیوٹرل ہونا ہی آئین کا تقاضا ہے۔ اگر کوئی ادارہ آئین کی پاسداری کرتا ہے تو ہمارے سیاست دانوں کو برا کیوں لگتا ہے؟ کتنے دکھ کی بات ہے کہ آئی ایس پی آر کو بیان جاری کرنا پڑا کہ ''ملک میں جاری سیاسی گفتگو میں دانستہ طور پر پاکستان کی مسلح افواج اور ان کی قیادت کو ملوث کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ملک کے بہتر مفاد میں فوج کو سیاسی گفتگو سے دور رکھا جائے۔ غیر مصدقہ، ہتک آمیز اور اشتعال انگیز بیانات کا یہ عمل انتہائی نقصان دہ ہے‘‘۔ اسی طرح کے بیانات معزز عدلیہ کی جانب سے بھی آتے رہتے ہیں اور الیکشن کمیشن بھی سراپا احتجاج ہے مگر ہماری سیاسی اشرافیہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ عوامی طاقت کے خمار میں اتنا زیادہ بول جاتی ہے کہ اسے ریڈ لائن کراس ہونے کا احساس ہی نہیں ہو پاتا۔ کیا ہمارے سیاستدان نہیں جانتے کہ ہمارے حریف ممالک ایسے بیانات اور الزامات کو بنیاد بنا کر کتنا پروپیگنڈا کرتے ہیں؟ کاش ! ہم حسد، نفرت اور جھوٹ کے حصار سے نکل کر احساسِ ذمہ داری کا دامن تھا م لیں۔ شاید ایسے ہی تقسیم در تقسیم ہوتے عوام ایک قوم کا روپ دھار لیں۔
مسلم لیگ نون ہو یا تحریک انصاف، پیپلز پارٹی ہو یا جمعیت علمائے اسلام (ف)‘ سب کے اپنے اپنے سوشل میڈیا ونگز ہیں جو سارا دن جھوٹی‘ سچی خبریں پھیلاتے رہتے ہیں‘ جن کا مقصد اپنی پارٹی کی تشہیر نہیں بلکہ مخالفین کی تضحیک ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کی کردار کشی سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ جتنی کردار کشی ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر ہوتی ہے اتنی شاید ہی کہیں اور ہوتی ہو۔ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگز اپنے مخالفین کی جعلی وڈیوز اور آڈیوز بناتے ہیں اور پھر انہیں وائرل کر دیتے ہیں۔ کسی کے سر کو کسی کے دھڑ کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے اور کسی کی آواز کو کسی کی تصویر کے ساتھ ملا دیتے ہیں۔ کبھی پرانے جلسوں کی وڈیوز کو نئے انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور کبھی پرانے مظاہرے کو نیا رنگ دے کر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ ایسے میں کوئی اصلی سکینڈل آ جائے تو اسے بھی شک کا فائدہ مل جاتا ہے۔ الزام تراشی اور بہتان لگانا تو سوشل میڈیا پر سب سے مقبول مشغلہ ہے۔ جو منہ میں آئے‘ بول دیا جاتا ہے، کسی کی عمر کا خیال رکھا جاتا ہے نہ جنس کا لحاظ کیا جاتا ہے۔
ان دنوں ہر طرف سے آوازیں آ رہی ہیں کہ کوئی وڈیو آنے والی ہے۔ یہ آوازیں اتنی زیادہ ہیں کہ ہر کوئی سہما ہوا ہے۔ کوئی اس کے حق میں بیانیہ بنا رہا ہے اور کوئی اس کی مخالفت میں دلائل ڈھونڈ رہا ہے۔ میرا احساس ہے کہ ایسی کوئی وڈیو ہے ہی نہیں۔ بس ایک دوسرے کو ڈرانے کے لیے شور مچایا جا رہا ہے کہ کوئی وڈیو آنے والی ہے۔ اگر کوئی وڈیو ہوتی تو اب تک آ چکی ہوتی کیونکہ سیاست کے سینے میں دل نہیں‘ پتھر ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں