حاکم ِ شہر کی خواہش کہ حکومت کی جائے

شکستہ دل اور غم زدہ آنکھیں ا نسان کو کمزور کر دیتی ہیں اور وہ تنہائی کے مزار میں مقید ہو کر رہ جاتا ہے۔ بسا اوقات یہ تنہائی انسان کو اتنا سخت جاں بنا دیتی ہے کہ اس پر تلوار بھی بے اثر ٹھہرتی ہے یا پھر وہ اتنا نرم دل ہو جاتا ہے کہ رگِ گل سے کٹ جاتا ہے۔ جنوبی افریقہ کی خوش قسمتی تھی کہ اسے نیلسن منڈیلا جیسا لیڈر میسر ہوا۔ وہ ستائیس برس تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے مگر صدر بننے سے پہلے ہی انہوں نے سب کو معاف کر دیا۔ ہمارا نصیب دیکھئے کہ میاں شہباز شریف، عمران خان، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن جیسے اکابرین ہمارے حصے میں آئے۔ انہیں عوام کی دہائی سنائی دے رہی ہے نہ ملک کی بگڑتی معاشی صورتِ حال ہی نظر آ رہی ہے۔ مہنگائی سے ان پر کوئی لرزہ طاری ہوا ہے نہ وہ سیاسی عدم استحکام سے خوفزدہ ہیں۔ یہ قومی مفادات کے نام پر سیاست کرتے ہیں اور معاشی بدحالی پر عوام کو حقیقت سے دور کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔انہیں شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ سیاست دان کے لیے سیاست عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور عبادت میں 'سیاست‘ نہیں ہوتی۔ خاکسار نے دو اشعار میں تصویرِ حال پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
حاکمِ شہر کی خواہش کہ حکومت کی جائے
ورنہ حالات تو ایسے ہیں کہ ہجرت کی جائے
اب ضرورت ہے کہ سب مل کے بچائیں اس کو
ڈوبتی ناؤ میں ہرگز نہ سیاست کی جائے
پنجاب کے ضمنی الیکشن نے مسلم لیگ (ن) کی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جو کام گزشتہ چار دہائیوں میں نہ ہو سکا تھا‘ وہ تین ماہ کے اندر ہو گیا۔ میاں شہباز شریف کے حکومت سنبھالنے سے پہلے تک مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ کم از کم پنجاب کی حد تک جیت کی گارنٹی سمجھا جا رہا تھا مگر دیکھتے ہی دیکھتے حالات نے ایسی کروٹ لی کہ لاہور سمیت سینٹرل پنجاب سے بھی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ہار گئے۔ اب (ن) لیگ کے رہنما لاکھ تاویلیں دیں کہ انہیں 2018ء کے مقابلے میں ان حلقوں میں زیادہ ووٹ ملے ہیں‘ سوال یہ ہے کہ کون ان کی اس دلیل کو اہمیت دے گا؟ چلیں! ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ آپ نے ہاری ہوئی چار نشستیں جیتی ہیں اور ووٹ بینک میں بھی 36 فیصد اضافہ ہوا ہے مگر کیا اس سے حمزہ شہباز کی وزارتِ اعلیٰ بچ پائے گی؟ کیا مسلم لیگ (ن) کا کھویا ہوا بھرم واپس آ جائے گا؟ کیا وفاقی حکومت پر چھائے خطرے کے بادل چھٹ جائیں گے؟ کیا عوام کی نس نس میں سرایت کرتا عمران خان کے بیانیے کا خمار اتر جائے گا؟ اگر نہیں تو پھر یہ تاویلیں اور بے معنی دلیلیں مت پیش کریں۔ اگر آپ نے اس ہار کو زبانی طور پر قبول کیا ہے تو اسے دل سے بھی تسلیم کر لیں۔ تسلیم کر لیں کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ آپ کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ اب ملک وقوم کی بہتری اسی میں ہے کہ تحریک انصاف کے امیدوار کو وزیراعلیٰ بننے دیا جائے‘ خواہ مخواہ سیاسی حربے نہ استعمال کیے جائیں۔ یہ قانون کا تقاضا بھی ہے اور اخلاقیات کا معیار بھی۔
میرا احساس ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں اخلاقی پہلو قانونی نقطۂ نظر سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پنجاب میں شکست کے بعد میاں شہباز شریف اسمبلیوں کو تحلیل کر دیتے یا کم از کم وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہو جاتے اور عمران خان کو وفاق میں حکومت بنانے کی دعوت دیتے کیونکہ پنجاب کے بغیر وفاقی حکومت کسی کام کی نہیں۔ محض پنجاب نہیں‘ یہ ملکی تاریخ کی پہلی وفاقی حکومت ہے جس کی کسی بھی صوبے میں حکومت نہیں۔ اگر عمران خان ایک بار پھر وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہو جاتے تو شاید وہ روس سے سستا تیل منگوا لیتے اور آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے۔ امریکا کو بھی للکارتے اور یورپ کو بھی کہتے ''ہم کوئی آپ کے غلام ہیں؟‘‘۔ عوام دیکھ لیتے کہ وہ اپنے دعووں میں کس قدر سچے ہیں۔ شہباز شریف کو یہ امر مدنظر رکھنا چاہیے کہ ان کی کسی صوبے میں بھی حکومت نہیں ہے۔ ایسی وفاقی حکومت کا کیا فائدہ جب آپ عوام کے دکھوں کا مداوا ہی نہ کر سکیں۔ آپ خیبر پختونخوا جائیں تو وزیراعلیٰ آپ کو پروٹوکول نہ دیں اور اگر پنجاب آئیں تو وہاں بھی وزیراعظم کے شایانِ شان برتاؤ نہ کیا جائے۔ انہیں سوچنا ہو گا کہ اگر مستقبل قریب میں ایسا ہوا تو وہ کس کو قصوروار ٹھہرائیں گے؟ مگر پھر خیال آتا ہے کہ وہ حکمران ہی کیا جو آسانی سے کرسی چھوڑ دے۔ اب حالات یہ ہیں کہ حکمران اتحاد نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ نہ صرف وفاق میں حکومت جاری رکھیں گے بلکہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے حصول کے لیے بھی ہر حد عبور کریں گے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ہو سکتا ہے الیکشن والے دن پانچ‘ دس پی ٹی آئی کے ایم پی ایز ووٹ ڈالنے ہی نہ پہنچیں۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے پی ٹی آئی کے کچھ ایم پی ایز مستعفی ہو جائیں اور شاید اس طرح حمزہ شہباز کی کرسی بچ جائے۔ اس میں کیا شبہ کہ ایسا کرنے کے لیے قانون تو اجازت دیتا ہے مگر اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے گا۔ چھانگا مانگا اور مری کی بدنام زمانہ سیاست کا دور لوٹ آئے گا۔ چھانگا مانگا کا طعنہ دہائیوں بعد بھی مسلم لیگ (ن) کا پیچھا کرتا ہے‘ کیا اس کی قیادت نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا؟ کیا ضمنی الیکشن میں بیس میں سے سولہ سیٹیں ہارنے کے بعد بھی آپ لوٹوں کے ساتھ مل کر سیاست کرنے کو ترجیح دیں گے؟
گزشتہ تین ماہ سے پنجاب میں جاری آئینی و سیاسی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کون جانے آج (بائیس جولائی) کے بعد بھی حالات قابو میں آئیں گے یا نہیں۔ اس سیاسی عدم استحکام کے باعث ملک کی معیشت کا جنازہ نکل گیا ہے۔ پہلے سے خراب معاشی حالات مزید دگرگوں ہو گئے ہیں۔ ڈالر 188 روپے سے بڑھ کر 227 روپے پر چلا گیا ہے اور سٹاک مارکیٹ بھی مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ مہنگائی 23 فیصد سے زائد ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں نے عام آدمی کی چیخیں نکال دی ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ موجودہ مہنگائی میں مسلم لیگ (ن) کا حصہ بہت کم ہے اور اس کی اصل وجہ گزشتہ حکومت کے چند فیصلے اور عالمی منڈی میں گرانی ہے مگر سیاسی عدم استحکام میں تو حکمران اتحاد برابر کا شریک ہے۔ وفاق میں تحریکِ عدم اعتماد آتی نہ پنجاب میں بزدار سرکار ختم ہوتی۔ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتا نہ عوام کو آج یہ دن دیکھنا پڑتے۔ معیشت کی زبوں حالی کی کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی‘ بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کا آؤٹ لک مستحکم سے منفی کر دیا ہے۔ فچ نے اپنی رپورٹ میں بڑھتے سیاسی عدم استحکام، کمزور حکومتی اتحاد، جلد الیکشن کے امکانات، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کو آؤٹ لک بدلنے کی بنیادی وجوہ قرار دیا ہے۔ یہی نہیں‘ بدقسمتی دیکھئے کہ دنیا بھر میں جہاں بھی سری لنکا کا تذکرہ کیا جاتا ہے‘ وہاں ساتھ پاکستان کا نام بھی آنے لگا ہے۔ سری لنکا دیوالیہ ہو چکا ہے اور ہمارے معاشی حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں مگر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کو کوئی فکر ہی نہیں۔
مولانا روم کا قول ہے: ''ضد میں تباہی ہے اور نرمی میں خیر۔ جو ضد چھوڑ کر ایک قدم پیچھے ہٹتا ہے وہ تباہی سے بچ جاتا ہے‘‘۔ ہماری موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال سیاستدانوں کا امتحان ہے۔ انہیں اقتدار کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے کے بجائے ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا۔ اگر انہیں ملک و قوم کا مفاد عزیر ہے تو اپنے سیاسی مفادات کی قربانی دینا ہو گی۔ وفاق سے لے کر پنجاب تک پھیلے ہوئے سیاسی بحران کو بات چیت سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان اور شہبازشریف کو اَنا کی سیڑھی سے اتر کر میثاقِ معیشت اور میثاقِ سیاست کرنا ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ وقت گزر جائے۔ ایسا نہ ہو کہ سیاست کے چکر میں ملکی معیشت تباہی کی دہلیز پار کر جائے۔ خاکم بدہن! اگر ایسا ہوا تو مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ کچھ آئے گا نہ ہی پی ٹی آئی کے۔ شہباز حکومت کی تو چھٹی ہو جائے گی مگر عمران خان کے پاس بھی پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں