عمران خان نااہل یا پی ٹی آئی کالعدم؟

پاکستان کے چوتھے چیف جسٹس ‘ مسٹر جسٹس اے آر کارنیلیس اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد‘ ستر اور اسّی کی دہائی میں لاہور میں نہر کنارے مارننگ واک کیا کرتے تھے۔ روایت ہے کہ ایک دن کسی نے ان سے پوچھا: جسٹس صاحب! یہ بتائیں کہ قانون اندھا کیوں ہوتا ہے؟ جسٹس کارنیلیس‘ جو خاموش طبع کے مالک تھے‘ قدرے توقف کے بعد گویا ہوئے: ''قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں۔ قانو ن کسی کی پسند‘ ناپسند کے تابع ہوتا ہے نہ اچھے برے میں تمیز کرتا ہے۔ قانون کے جذبات ہوتے ہیں نہ رشتے دار‘‘۔ جسٹس صاحب کی یہ رائے سو فیصد درست ہے اور ان سے کون اختلاف کر سکتا ہے؟ قانون کی چھری تو جائز پر بھی یکساں چلتی ہے اور ناجائز پر بھی۔ اپنے پر بھی اور پرائے پر بھی۔ نیک پر بھی اور بد پر بھی۔ امیر پر بھی اور غریب پر بھی۔ قانون کے کوئی اسلاف ہوتے ہیں اور نہ وارثین۔ قانون کسی کی مقبولیت یا کسی کا کردار دیکھ کر حرکت میں نہیں آتا بلکہ شواہد کی روشنی میں متحرک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون کو اندھا کہا جاتا ہے۔ اگر قانون کسی مصلحت کا شکار ہو جائے تو پھر اُسے کوئی اور نام تو دیا جا سکتا ہے مگر قانون نہیں کہا جا سکتا۔ چلیں جسٹس کارنیلیس کی دلیل کو کچھ لمحوں کے لیے ایک طرف رکھتے ہیں‘ اس حوالے سے سابق وزیراعظم عمران خان کا نقطۂ نظر جانتے ہیں۔
خان صاحب متعدد بار کہہ چکے ہیں: ایک ہی ملک میں دو قانون نہیں ہوسکتے‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ امیر کے لیے ایک قانون ہو اور غریب کے لیے دوسرا‘ جب آپ امیر اور غریب کے لیے دو قانون بناتے ہیں تو پھر ملک کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ خان صاحب کا سیاست میں آنے کا مقصد ہی سب کو ایک قانون کی چھتری کے نیچے لانا تھا مگر نجانے کیوں ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد ان کا موقف تبدیل ہو گیا ہے۔ وہ قانون کے تابع ہونے کے بجائے الیکشن کمیشن کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔ وہ اپنے حق میں شواہد دینے کے بجائے عوام کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ اگر کوئی بے قاعدگی، بے ضابطگی اور خلافِ قانون کچھ نہیں ہوا تو ڈر کس بات کا ہے؟ فیصلہ وفاقی حکومت نے نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ نے کرنا ہے اور عدالت عظمیٰ پر تو خان صاحب کو مکمل اعتماد ہے۔ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو کر رہے گا۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ خان صاحب کے طرفدار واویلا کیوں کر رہے ہیں کہ اگر عمران خان جیسے مقبول لیڈر کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت تاحیات نااہل کیا گیا تو آسمان ٹوٹ پڑے گا، ملک کی سیاست جام ہو کر رہ جائے گی اور عوام حکمرانوں کا جینا حرام کر دیں گے۔ میرے نزدیک ان دلائل کی اہمیت ہمدردی کے جذبے کے تحت تو ہو سکتی ہے مگر قانون کی نظر سے نہیں۔ یہ قوم تو اُس وقت بھی سٹرکوں پر نہیں نکلی تھی جب لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تھا، اس قوم کا ضمیر تب بھی نہیں جاگا تھا جب محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرایا گیا تھا، 1971ء میں سیاست دانوں اور آمروں کی اناؤں کے باعث ملک دولخت ہوگیا مگر بطور قوم ہمیں کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا۔ ملک میں چار بار مارشل لاء لگا کر آئین کو بے توقیر کیا گیا مگر کسی کے ماتھے پر شکن تک نہیں ابھری۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا اور میاں نواز شریف جیسے مقبول لیڈر کو جلاوطن کر دیا گیا مگر پوری قوم خوابِ غفلت کے مزے لیتی رہی۔ کوئی گھر سے باہر نکلا نہ کہیں قابلِ ذکر احتجاج ہوا۔ مانا کہ عمران خان اس وقت ایک مقبول لیڈر ہیں‘ ان کے بیانیے کی سرشاری ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کی عوامی مقبولیت بھی کسی سے کم نہیں تھی۔ اگر ووٹ ہی کسی لیڈر کی مقبولیت کا پیمانہ ہے تو میاں نواز شریف نے 2013ء کے الیکشن میں جتنی نشستیں جیتی تھیں‘ عمران خان کی جماعت 2018ء میں بھی اتنی سیٹیں نہیں لے سکی۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد امتحان صرف تحریک انصاف کا نہیں ہے بلکہ حکمران اتحاد کا بھی ہے۔ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے لیے وفاقی حکومت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجے مگر شہباز حکومت کو وہ اقدامات کرنے چاہئیں جو آئین و قانون کے مطابق ہوں‘ نہ کہ کسی کی خواہشات کی بنیاد پر اقدامات کیے جائیں۔ جب الیکشن کمیشن کے فیصلے میں فارن فنڈنگ ثابت ہی نہیں ہوئی تو اس بنیاد پر پی ٹی آئی پر الزام تراشی اور پابندی کا کیا جواز بنتا ہے؟ ہاں! فیصلے میں ممنوعہ فنڈنگ کی بات کی گئی ہے اور الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی نے مجموعی طور پر 83 کروڑ سے زائد کے ایسے فنڈز لیے ہیں جن کے ذرائع نامعلوم ہیں۔ عمران خان کی جماعت نے 34 انفرادی شخصیات اور 351 غیر ملکی کمپنیوں سے ممنوعہ فنڈز لیے ہیں۔ یہی نہیں‘ پی ٹی آئی نے اپنی قیادت کے زیر انتظام چلنے والے 16 بینک اکاؤنٹس چھپائے بھی تھے اور ان میں سے دو اکاؤنٹس تو عمران خان نے پی ٹی آئی کے نام سے کھلوا رکھے تھے۔ اکاؤنٹس ظاہر نہ کرنا آئین کے آرٹیکل (3) 17 کی خلاف ورزی ہے جبکہ ممنوعہ فنڈنگ کا معاملہ پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کی شق (3) 6 کے زمرے میں آتا ہے۔ فیصلے میں صاف لکھا ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت نے حقائق کو چھپایا۔ اگر قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو پھر اگر‘ مگر کا سوال کیا ہے؟ عمران خان کے حق میں تاویلیں کیوں دی جا رہی ہیں؟ عمران خان کے لیے قانون کی الگ تشریح کرنے کی بات کیوں کی جا رہی ہے؟ اگر عمران خان کو بچانا ہے تو ملک کا قانون بدلنا ہوگا۔ میری نظر میں اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے۔
گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دو اہم فیصلے کیے گئے۔ ایک یہ کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں ڈیکلریشن سپریم کورٹ کو ارسال کیا جائے گا اور دوسرا‘ فارن فنڈنگ کے معاملے میں جو جرائم سرزد ہوئے ہیں‘ ان کی مزید تحقیقات ایف آئی اے سے کرائی جائیں گی۔ وفاقی حکومت جن شقوںکا سہارا لے کر پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دینے کا ڈیکلریشن تیار کر رہی ہے اس میں پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کی شقیں 2، 6 اور 15ہیں۔ آئیے ان شقوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ ان میں کیا درج ہے۔ مذکورہ بالا آرڈر کی شق 2 میں ''فارن ایڈیڈ‘‘ پارٹی کی تعریف بیان کی گئی ہے اور اس کے تین حصے ہیں۔ اول: وہ پارٹی جو کسی دوسرے ملک کی حکومت یا سیاسی جماعت کے کہنے پر بنی ہو۔ دوم: کسی غیر ملک کی حکومت یا سیاسی جماعت سے وابستہ ہو۔ سوم: کسی جماعت نے کسی غیر ملکی حکومت، سیاسی جماعت یا غیر ملکی باشندے سے فنڈز لیے ہوں۔ حکومت شق 2 کے آخری حصے کا سہار ا لے کر کہہ رہی ہے چونکہ تحریک انصاف نے 34 غیر ملکیوں سے پیسے لیے ہیں تو یہ ''فارن ایڈڈ پارٹی‘‘ ثابت ہو جاتی ہے اس لیے اس پر پابندی لگائی جائے۔ پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کی شق 6 میں حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر اسے ہر صورت ضبط کرے جبکہ شق 15 میں لکھا ہے کہ جب وفاقی حکومت مطمئن ہو جائے کہ کوئی پارٹی فارن ایڈڈ ہے تو 15 یوم کے اندر سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجے اور اگر سپریم کورٹ ڈیکلریشن میں دیے گئے دلائل سے متفق ہو تو متعلقہ جماعت کو تحلیل کرنے کا حکم صادر کرے۔ اس آرڈر میں دو قسم کی سزائیں بھی لکھی گئی ہیں۔ شق 16 میں درج ہے کہ کالعدم ہونے والی پارٹی کے ممبرز چار سال کے لیے پارلیمانی سیاست سے نااہل ہو جائیں گے اور شق 17 کے تحت جماعت سے انتخابی نشان واپس لے لیا جائے گا۔
وفاقی حکومت کی منطق میری سمجھ سے باہر ہے کہ وہ کیوں پی ٹی آئی کو کالعدم کروانے کے لیے ڈیکلریشن تیار کر رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں فارن فنڈنگ کا ذکر تک نہیں ہے۔ حکومت اگر چاہے تو عمران خان کے خلاف حقائق کو چھپانے، غلط سرٹیفکیٹ دینے اور اکاؤنٹس ظاہر نہ کرنے کا ریفرنس دائر کر سکتی ہے اور آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت ان کے خلاف کارروائی بھی کی جا سکتی ہے مگریوں گمان ہوتا ہے حکومت انڈا نہیں بلکہ پوری مرغی کھانا چاہتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں