سیاسی تقسیم کا بخار

قوم کو مبارک ہو‘ پاکستان پچھتر برس کا ہو گیا مگر اس بار سیاسی انتشار و افتراق میں وطن اور وطنیت کہیں پیچھے رہ گئے۔ ایسا شاید پہلی بار ہوا ہے کہ یومِ آزادی کے موقع پر لاہور کی سٹرکو ں پر ملک کے جھنڈے کم اور سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے زیادہ دکھائی دیے۔ میری نظر میں ایک قومی دن کو پسِ پشت ڈالنا کسی طور بھی مناسب نہ تھا۔ دس سے چودہ اگست کے بیچ بھی میرا لاہور کی سٹرکوں پر سے گزر ہوا تو دل دکھی ہو گیا اور آنکھیں نم۔ یقینا ملکی آئین و قانون کے مطابق ہر سیاسی جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جلسے کرے، اپنے جلسے کی تشہیر کرے مگر یومِ آزادی کے موقع پر پرچمِ ستارہ و ہلال کا احترام سب سے مقدم ہے۔ یہاں کچھ اور سوالات بھی جنم لیتے ہیں‘ کیا ہم نے اس بار یوم آزادی ماضی کی طرح جوش و خروش سے منایا؟ کیا ہم بطور قوم ''ایک اور متحد‘‘ دکھائی دیے؟ کیا ہم نے سیاسی اختلافات بھلا کر پاکستانیت کو آگے بڑھانے کا عزم کیا؟ کیا ہم نے بھارت کو صرف دفاعی محاذ پر ہی نہیں بلکہ معاشی اور سیاسی میدان میں بھی پیچھے چھوڑنے کا ارادہ باندھا؟ کیا ہم نے آئی ایم ایف اور دیگر معاشی طاقتوں کے چنگل سے نکلنے کے لیے منصوبہ بندی کی؟ کیا ہم نے کھوکھلے نعروں اور بڑھکوں کو ایک طرف رکھ کر پاکستان کے مستقبل کو سنوارنے کا تہیہ کیا؟ اگر نہیں‘ تو پھر ہم نے کیا کیا؟ سیاسی تقسیم کو ہوا دی، ایک بار پھر بغض، حسد، نفرت اور کینے کی فصل بوئی، ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلا، اداروں کو متنازع بنانے کی کوششیں کیں، پارلیمنٹ کی بے توقیری کی، آئین کی بالادستی کو چیلنج کیا اور اپنے سیاسی مفادات کو آئین سے معتبر مانا۔ افسوس‘ ہم نے ہر وہ کام کیا جو ملک کے لیے ٹھیک تھا نہ قوم کے لیے مفید۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہمیں اس کا احساس ہے نہ افسوس۔
ویسے تو سیاسی جماعتیں تقسیم کا یہ کھیل گزشتہ پچھتر برس سے ہی کھیل رہی ہیں مگر پہلے یہ تقسیم نظریاتی حد تک تھی اور اب یہ ذاتی دشمنی بن چکی ہے۔ اب کوئی کسی کے نظریات کا احترام کرتا ہے نہ سیاسی وابستگی کا۔ دوسری جماعت کے کارکنوں کو اچھا سمجھا جاتا ہے نہ ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ نظریات کی خلیج ہے یا سیاسی تقسیم‘ مگر اس نے ہماری اقدار، اخلاقیات اور ہمارے سماج کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ دوست، دوست کا دشمن بن چکا ہے اور باپ بیٹے میں نہیں بن رہی۔ گزشتہ روز ہم تین دوست بیٹھے تھے۔ ایک نے کہا کہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ پی ٹی آئی نے یومِ آزادی کے موقع پر لاہور میں ہر جگہ قومی پرچم کی جگہ اپنی جماعت کے جھنڈے لگا دیے۔ دوسرے دوست نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا اور قدرے غصے سے کہا: بغض ذہنی بیماری ہے‘ تم بلاوجہ عمران خان کی مخالفت کرتے ہو۔ ملک کے جھنڈے پر پارٹی کے جھنڈے کو فوقیت دینے والی بات بالکل غلط ہے‘ تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے تو دکھاؤ؟ پہلے دوست نے اسے ایک وڈیو دکھائی۔ جیسے جیسے وہ وڈیو دیکھ رہا تھا‘ اس کا غصہ ماتھے پر عیاں ہو رہا تھا۔ وڈیو ختم ہوئی تو جھٹ سے بولا: یہ پی ٹی آئی کے خلاف سازش ہے۔ یہ ویڈیو ضرور (ن) لیگ نے تیار کی ہو گی۔ میں ایسی کسی وڈیو کو نہیں مانتا۔ یہ باتیں کرتے ہوئے میرا دوست غصے سے لال پیلا ہو گیا۔ وہ وڈیو دکھانے والے دوست کو برا بھلا بھی کہہ رہا تھا اور عمران خان کے مخالفین کے خوب لتے بھی لے رہا تھا۔ میں اس کا یہ روپ دیکھ کر ڈر گیا۔ مجھے لگا کہ یہ ابھی کوئی چیز اٹھا کر اس دوست کو دے مارے گا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ تم کسی سیاسی جماعت کے ورکر نہیں ہو‘ پھر اتنا غصہ کیوں کر رہے ہو؟ ایسا رویہ اختیار کرنا تمہیں زیبا نہیں دیتا۔ میں نے اسے سمجھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر اس کا غصہ کسی طور کم نہ ہوا۔ وہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہ تھا۔
آپ خود فیصلہ کریں‘ جب عام لوگوں میں سیاسی اختلافات اس قدر بڑھ چکے ہوں تو سیاسی ورکرز کا کیا حال ہو گا؟ وہ ایک دوسرے کے سامنے بیٹھتے ہوں گے تو کیفیات کیا ہوتی ہوں گی؟ ایک دوسرے سے نفرت، حقارت اور ایک دوسرے کو کمتر سمجھنے کا لیول ان میں کس قدر زیادہ ہو گا؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے جیسے سیاسی اختلافات تھے‘ ویسے حالات دوبارہ کیوں جنم لے رہے ہیں؟ اس وقت تو جھگڑا ہندو اور مسلم کا تھا۔ وہ تو دو الگ مذاہب کی کشمکش تھی مگر اب ہم کس سے اختلاف کر رہے ہیں اور کس سے نفرت؟ کیا تمام سیاسی جماعتوں کا نصب العین ایک نہیں ہے؟ کیا سبھی اس ملک کو ترقی یافتہ اور خوشحال نہیں دیکھنا چاہتیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہم ایک دوسرے کو حقارت اور ناگواری سے کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ بھلا کوئی اپنے ہی چہرے کو داغدار کیسے کر سکتا ہے؟ اور کیا اپنے سیاسی مفادات کے لیے اداروں میں تقسیم کی بات کر سکتا ہے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر شہباز گل نے ایسا کیوں کیا؟ ان کی کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟ میرا خیال ہے شہباز گل استعمال ہوئے ہیں ورنہ ان کا اتنا قد کاٹھ کہاں کہ وہ ایسی اشتعال انگیر گفتگو کر سکتے۔ وہ چاہ کر بھی ایسا نہیں کر سکتے۔ ہم مڈل کلاس لوگوں کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہم صلاحیت، اہلیت اور محنت سے آگے آتے ہیں مگر جب ہمیں تھوڑا سا اختیار، پیسہ یا شہرت ملتی ہے تو توازن کھو دیتے ہیں۔ جلد سے جلد آگے بڑھنے کی کوشش میں شارٹ کٹ لیتے ہیں اور اسی افراتفری میں کوئی حماقت کر بیٹھے ہیں یا پھر کوئی بڑی شخصیت ہمیں استعمال کر لیتی ہے۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جب ہمارا دماغ اور دل‘ دونوں ہماری دسترس سے باہر ہو جاتے ہیں اور ہم اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار بیٹھتے ہیں۔ شہباز گل کی گفتگو کی جتنی مذمت کی جائے‘ کم ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پی ٹی آئی اور عمران خان بھی ان کے بیان کی مذمت کرتے۔ اس سے ان کی سیاسی بلوغت اور شخصیت مزید نکھر کر سامنے آتے۔ ان کے چاہنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی اور مختلف قسم کی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوتا۔ افسوس، انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے شہباز گل کے بیان کی تردید کی نہ تائید، حمایت کی نہ مخالفت۔ البتہ حسبِ عادت انہوں نے پولیس پر تنقید کی اور معاملے کا رخ بدلنے کی سعی کی۔
شہبازگل کی گرفتاری وفاقی حکومت کی مخاصمت سے زیادہ ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ اتنا غیر سنجیدہ اور قابلِ گرفت بیان نہ دیتے تو پولیس کو کیا پڑی تھی کہ انہیں گرفتاری کرتی۔ اب پی ٹی آئی کی کوشش ہے کہ کسی طرح انہیں معاف کر دیا جائے اور معاملہ رفع دفع کیا جائے۔ میں صرف اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر نے بھی تو ایسی ہی گفتگو کی تھی۔ وہ تو ممبر قومی اسمبلی بھی تھے۔ پھر عمران خان کی حکومت نے انہیں گرفتار کیوں کیا تھا؟ وہ دو سال سے جیل میں کیوں بند ہیں؟ جرم‘ جرم ہوتا ہے چاہے کوئی طاقتور شخصیت کرے یا عام آدمی۔ کوئی ایم این اے کرے یا کسی بڑی جماعت کے چیئرمین کا چیف آف سٹاف۔ قانون کی حکمرانی برابر قائم ہونی چاہیے۔ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ علی وزیر کے لیے ایک قانون ہو اور شہبازگل کے لیے دوسرا۔
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ عمران خان وزیراعلیٰ پنجاب پر دباؤ ڈال رہے ہیںکہ پنجاب پولیس مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی گرفتاریاں عمل میں لائے۔ اس مقصد کے لیے عطا تارڑ اور رانا مشہود کے گھروں پر نوٹسز بھی بھجوا دیے گئے ہیں۔ یہ عمل اسی سیاسی تقسیم کے بخار کا نتیجہ ہے جس کا رونا ہم رو رہے ہیں۔ اگر ملک کی معیشت اور سیاسی حالات ایسے ہی مستحکم ہونے ہیں تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔ سیاستدانوں سے امید چھوڑ دینی چاہیے۔ یہ تصادم کی راہ پر چل رہے ہیں اور جو کوئی بھی تصادم کی راہ اختیار کرتا ہے‘ اس کا انجام کیا ہوتا ہے‘ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں