جھوٹی انائیں کب ڈوبیں گی ؟

وہ قوم جس نے فنا کی پرچھائیوں کو روبرو دیکھا ہو‘ وہ زندگی کی تلخیوں سے کیسے خائف ہو سکتی ہے؟ وہ لوگ جنہوں نے موت کی تیغ براں کو اپنے سر پر لہراتے اور بپھرے پانی کی طغیانیوں کو اپنے پاؤں تلے بہتے دیکھا ہو‘ وہ ان سنگریزوں سے کیا ڈریں گے جو دل کو زخمی کر سکتے ہیں روح کو نہیں۔ جو سیاسی تفریق کاسبب بن سکتے ہیں قومی یکجہتی کا نہیں‘ جو قوم کا حوصلہ توڑنے کی سعی کر سکتے ہیں‘ جوڑنے کی نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی زندگیوں میں وہ دن ضرور آتا ہے جب انہیں اپنا آپ پہچاننے کا موقع ملتا ہے۔ انہیں خیر اور شر میں تمیز کرنا ہوتی ہے، اچھے اور برے کو الگ کرنا ہوتا ہے، جھوٹ اور سچ کا فرق پہچاننا ہوتا ہے۔ پاکستانی قوم تیار ہو جائے وہ وقت آن پہنچا ہے۔ ہماری معیشت، سیاست اور معاشرت خطرے میں ہیں۔ ہمیں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہو گا۔ ہم یہاں سے بلندی کی جانب سفر کر سکتے ہیں اور پاتال بھی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔ سیلاب نے ملک کو ڈبو دیا ہے پوری قوم ہوشمندی کا مظاہرہ کرے تو سیاست دانوں کی جھوٹی اناؤں کو ڈبونا کوئی بڑی بات نہیں۔ یادرکھیں! جب تک سیاسی اشرافیہ کی انائیں فلک کو چھو رہی ہیں‘ ملک ترقی کر سکتا ہے نہ خوشحالی ہمارے آنگن میں قدم رکھ سکتی ہے۔
پچھتر سالہ تاریخ کا سبق ہے جب بھی ملک پر مصیبت آتی ہے‘ قوم یکجا ہوتی ہے اور سیاستدان تقسیم۔ قوم مال اور جان دونوں نچھاور کرتی ہے مگر حکمران ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں ہی مگن رہتے ہیں۔ ملک میں ایک جانب سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے اور دوسری طرف بدحال معیشت نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ مہنگائی بلند ترین سطح پر ہے اور روپے کی بے قدری رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کے لیے اس قدر مشکل اقدامات کیے ہیں جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اب آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس سے پہلے پی ٹی آئی نے جو کچھ کیا ہے وہ قابلِ مذمت بھی ہے اور قابلِ شرمندگی بھی۔ اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے وفاق کو خط لکھا ہے کہ وہ آئی ایم ایف معاہدے کی شرائط پوری نہیں کر سکیں گے۔ اس خط کے بعد سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی پنجاب کے وزیر خزانہ محسن لغاری اور تیمور جھگڑا کے ساتھ ہونے والی مبینہ گفتگو کی آڈیو منظر عام پر آئی ہے جس سے صاف پتا چل رہا ہے کہ پی ٹی آئی نہیں چاہتی کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین معاہدہ طے پائے۔ کیا پی ٹی آئی نہیں چاہتی کہ اس معاہدے کے بعد روپے کی قدر مستحکم ہو، مہنگائی میں کمی آئے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو، بیرونی ادائیگیوں میں توازن قائم ہو اور ملک کے سر پر منڈلاتا ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل جائے؟ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان ملک کی معاشی ناؤ کو پار کیوں نہیں لگنے دے رہے۔ وہ کیوں نہیں ملک کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے سہارا فراہم کر رہے؟ وہ کیوں نہیں حکومت کی مدد کر رہے تاکہ پاکستان کا نام سری لنکا جیسے ممالک کی فہرست سے نکل جائے؟ شہباز شریف حکومت آئی ایم ایف سے کوئی نیا معاہدہ تو نہیں کر رہی‘ یہ تو اسی معاہدے کی تجدید ہے جو خود خان صاحب نے 2019ء میں کیا تھا۔ یہ وہی معاہدہ ہے جس کے تین ارب ڈالر عمران حکومت وصول کر چکی ہے۔ کیا پی ٹی آئی نہیں جانتی کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑنے کا ملک کو اب تک کیا نقصان ہوا؟ عمران حکومت نے 17 جنوری 2022ء کو آئی ایم ایف سے معاہدے کی تجدید کی اور اس کی پانچ شرائط تسلیم کیں۔ پہلی: پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھائی جائیں گی، لیوی ٹیکس تیس روپے تک بڑھایا جائے گا اور جی ایس ٹی ہر شعبے میں یکساں طور پر وصول کیا جائے گا۔ دوسری: بجلی مہنگی کی جائے گی۔ تیسری: 350 ارب روپے کا نیا ٹیکس لگایا جائے گا۔ چوتھی: ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی جائے گی۔ پانچویں: سٹیٹ بینک کو خودمختاری دی جائے گی۔ اس معاہدے کے سترہ دن بعد آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کر دی مگر عمران خان نے جب اپنی حکومت کو ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو معاہدے کے خلاف جاتے ہوئے 28 فروری کو پٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتیں کم کر دیں۔ یہ چال سیاسی طور پر تو کامیاب رہی مگر اس معاہدے کی خلاف ورزی کا پاکستان کی معیشت کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا۔ روپیہ فری فال میں چلا گیا، دو ماہ بعد پٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتیں ایک دم بڑھیں تو ملک میں مہنگائی کا سیلاب آ گیا۔ ساری دنیا نے پاکستان کو قرضہ دینے سے انکار کر دیا۔ اب خدا خدا کر کے معاہدہ ہونے جا رہا ہے تو پی ٹی آئی نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر پی ٹی آئی کے طرزِ عمل پر حیرت بھی ہے اور ندامت بھی۔
پاکستان کو معاشی محاذ پر ہی مشکلات کا سامنا نہیں‘ اس وقت چاروں صوبے سیلاب کی زد میں ہیں۔ سیلاب بھی ایسا خطرناک کہ ماضی قریب میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی مگر یہاں بھی سیاستدان اپنی سیاست چمکانے سے باز نہیں آ رہے۔ وفاقی حکومت نے سندھ اور بلوچستان پر فوکس کر رکھا ہے جبکہ تحریک انصاف خیبر پختونخوا تک محدود ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کہیں بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ڈی جی خان اور راجن پور میں سیلاب سے حالات ناگفتہ بہ ہیں مگر چودھری پرویز الٰہی کہاں ہیں‘ کیا کر رہے ہیں کسی کو معلوم نہیں۔ کیا ہمارے حکمران نہیں جانتے کہ 150 سے زائد شہروں میں تقریباً چار کروڑ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، چالیس لاکھ ایکڑ سے زیادہ فصلیں پانی میں بہہ چکی ہیں جس میں چاول، گنا، مکئی اور کپاس جیسی فصلیں بھی شامل ہیں۔ اٹھارہ سے بیس لاکھ مویشیوں کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، تین ہزار کلومیٹر سے زائد سٹرکیں اور سینکڑوں پل مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں جبکہ گیارہ سو سے زائد افراد اب تک جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جنوبی پنجاب، سندھ، آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ لوگ کھلے میدانوں میں بے یار و مددگار پڑے ہیں، مطلوبہ تعداد میں خیمے ہیں نہ ہی خوراک۔ ڈاکٹرز ہیں نہ دوائیاں۔ پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ لباس۔ ایک اندازے کے مطابق‘ محض زراعت کے شعبے میں سات سو ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے جبکہ دیگر نقصان کا تو ابھی کوئی شمار ہی نہیں۔ جتنی بڑی تعداد میں فصلوں اور مویشیوں کا نقصان ہوا ہے ملک کی فوڈ سکیورٹی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ گوشت، دودھ، دہی، سبزیاں اور فروٹ کی قلت کا اندیشہ ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی لمپی سکن بیماری سے ہزاروں‘ لاکھوں جانور مر چکے تھے اور اب سیلاب نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ آخری اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کے مجموعی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ سب سے زیادہ ہے جبکہ اس میں صرف لائیو سٹاک کا حصہ 14 فیصد ہے جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر مستقبل قریب میں ملک کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا تو کیا ہو گا؟ کھانے پینے کی اشیا باہر سے منگوانا پڑیں گی جس کے باعث اربوں ڈالر اضافی خرچ کرنا پڑیں گے۔ کیا ہماری معیشت اس کی متحمل ہو سکتی ہے؟ اگر معیشت یہ بوجھ اٹھا لے تو باقی دنیامیں بھی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں۔ عالمی فوڈ پروگرام کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ اڑھائی سالوں میں وبائی امراض، عالمی تنازعات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں شدید غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد 135 ملین سے بڑھ کر 345 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سری لنکا میں غذائی قلت بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ بچے، بوڑھے اور خواتین‘ بڑی تعداد میں رات کو بھوکے سوتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک بھی اسی طرح کی غذائی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ عوام ہوش کے ناخن لیں۔ سیاست دانوں کی اصلیت کو پہچانیں اور ووٹ دیتے وقت پارٹی کے نشان کو نہیں‘ امیدوار کے کردار اور تعلیمی پس منظر کو فوقیت دیں۔ ہم مزید کتنے سال سراب میں گزاریں گے؟ کب تک جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے نعروں پر یقین کریں گے؟ کب تک ہم شخصیت پرستی کی بیماری کا شکار رہیں گے؟ آخر کب تک؟ ہم اپنے حق لینے کے لیے کھڑے کیوں نہیں ہوتے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں