The king can do no wrong

انگریزی کا محاورہ ہے: The king can do no wrong۔ ''بادشاہ کوئی غلط کام نہیں کر سکتا‘‘۔ یہ محاورہ جب ایجا د ہوا تھا تب بادشاہ کو دیوتا سمجھا جاتا تھا۔ رعایا کا ایمان کی حد تک یقین تھا کہ دنیا میں ہر کوئی غلطی کر سکتا ہے مگر بادشاہ نہیں۔ پھر وقت بدلا، حالات نے کروٹ لی اور عوام کی نظر میں بادشاہ کا سارا بھرم ختم ہوتا چلا گیا۔ یہ گزرے زمانو ں کی کہانی تھی۔ اب انگلینڈ سمیت کسی یورپی ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہاں! البتہ گزشتہ پانچ ماہ سے پاکستان میں ایسا بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ ہر کوئی غلطی کر سکتا ہے مگر سابق وزیراعظم عمران خان نہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادتوں پر کوئی بھی الزام لگایا جا سکتا ہے مگر پی ٹی آئی کی قیادت پر نہیں۔ خان صاحب کو ہر بات کرنے کی اجازت ہے انہیں کوئی روک سکتا ہے نہ ٹوکنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ رجیم چینج کا بیانیہ ہو یا مقتدر حلقوں پر الزامات کی کہانی، ممنونہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ ہو یا پھر توشہ خانہ کے تحائف کی روداد، الیکشن کمیشن سے اثاثے چھپانے کا معاملہ ہو یا معیشت کی تباہی کا الزام۔ خان صاحب کے چاہنے والے کوئی الزام بھی ماننے کو تیار نہیں۔ عمران خان ایڈیشنل سیشن جج اور پولیس کے اعلیٰ افسروں کو مبینہ طور پر دھمکاتے ہیں مگر ان کے پیروکار اسے خلافِ قانون نہیں سمجھتے۔ انہیں لگتا ہے کہ عمران خان اس ملک کے واحد ایماندار لیڈر ہیں، ان میں غلط کام کرنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں۔ وہ جو کام کرتے ہیں‘ ٹھیک کرتے ہیں، وہی اس قوم کے مسیحا ہیں۔
جیسے نفرت کی کوئی حد نہیں ہوتی‘ ویسے ہی محبت بھی لامحدود ہوتی ہے۔ جسے چاہا جاتا ہے اس کی غلطیاں اور کوتاہیاں نظر ہی کب آتی ہیں۔ یہ محبت کا بنیادی فلسفہ ہے مگر ضروری نہیں کہ یہ غلطیاں اور کوتاہیاں دوسروں کو بھی دکھائی نہ دیں۔ ہم بطور قوم تھوڑے جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم عمران خان کی سیاسی چالوں کو نظرا نداز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں مگر آئی ایم ایف ایسا کیوں کرے گا؟ آئی ایم ایف نے اپنی جائزہ رپورٹ میں سابق وزیراعظم کے غلط فیصلوں کو چارج شیٹ کیا ہے۔ عمران خان نے مہنگائی کا جو بوجھ شہباز حکومت کے سر پر لادا تھا‘ اب اس کی ساری حقیقت سامنے آ چکی ہے۔ مجھ سمیت بہت سے لکھنے والے مہنگائی کی وجوہات اور روپے کی بے قدری پر لکھ رہے تھے مگر لوگ ماننے کو تیار نہیں تھے۔ وہ ہم پر تنقید کے نشتر چلاتے تھے اور ہماری دلیل کو رد کرتے تھے۔ آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے ''عمران خان حکومت نے قرض پروگرام میں طے کیے گئے اہداف اور وعدوں سے انحراف کیا جس کی وجہ سے پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ سابقہ حکومت نے وعدہ خلافی کر کے پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں کمی کی۔ ٹیکس چھوٹ دینے سے مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ ہوا جس سے زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر گری اور مہنگائی میں اضافہ ہوا‘‘۔ آئی ایم ایف وفاقی حکومت کا کوئی ذیلی ادارہ ہے نہ پاکستانی عوام کا ترجمان۔ جو سچ تھا‘ آئی ایم ایف نے بیان کر دیا۔ اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ اسے سچ سمجھیں یا جھوٹ، غلط جانیں یا صحیح۔
جب سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہے‘ انہوں نے کسی 'غیر جانبدار‘ صحافی کے سوالوں کے جواب نہیں دیے۔ کبھی ان کے چہیتے اینکرز ان کا انٹرویو کرتے نظر آتے ہیں اور کبھی اداکار۔ اس لیے معیشت اور آئی ایم ایف سے جڑے سوالوں کے جوابات سامنے نہیں آ سکے۔ کچھ سوالات پی ٹی آئی کے چیئرمین سے پوچھے جانے ضروری ہیں تاکہ آئی ایم ایف نے جو رپورٹ مرتب کی ہے اس کی حقیقت کا کھوج لگایا جا سکے اور معلوم ہو سکے کہ خان صاحب کوئی غلطی کر سکتے ہیں یا نہیں؟ درجن سے زائد سوالات درج ذیل ہیں۔
اگر آئی ایم ایف کی پالیسیاں عوام دشمن تھیں تو پی ٹی آئی حکومت نے 2019ء میں آئی ایم ایف سے معاہدہ کیوں کیا؟ اگر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے ملک کی خودمختاری پر حرف آتا ہے تو سابقہ حکومت نے تین ارب ڈالر سے زائد رقم کیوں وصول کی؟ اگر آئی ایم ایف کی شرائط زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں تو ایک ارب ڈالر کی قسط لینے کے لیے پی ٹی آئی حکومت نے 17 جنوری 2022ء کو بجلی، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھانے، 350 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے اور ترقیاتی بجٹ کم کرنے کا معاہدہ کیوں کیا تھا؟ اگر عالمی منڈی کی مہنگائی کا بوجھ پاکستانی معیشت اٹھا سکتی تھی تو 15 فروری 2022ء کو اس وقت کی حکومت نے عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت 89 ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 91 ڈالر ہونے پر اندرونِ ملک پٹرول کی قیمت میں بارہ روپے فی لٹر کا اضافہ کیوں کیا تھا؟ 16 فروری 2022ء کو وزیراعظم عمران خان، وزیر خزانہ شوکت ترین اور وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کیوں عوام کو یہ باور کرایا تھا کہ عالمی مہنگائی کو عوام تک پہنچانا ناگزیر ہے ورنہ ملکی خسارے بڑھ جائیں گے اور ہماری معیشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی؟ 28 فروری 2022ء کو انٹرنیشنل مارکیٹ میں جب پٹرول کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی تھی‘ اس وقت عمران حکومت نے پٹرول کی قیمت 10 روپے فی لٹر کم کیوں کر دی تھی؟ چودہ دنوں میں معاشی میدان میں ایسا کیا جادو ہو گیا تھا کہ حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں 150 روپے فی لٹر پر چار ماہ کے لیے منجمد کر دیں؟ اَن فنڈڈ سبسڈی دینے کی وجہ کیا تھی؟ اگر آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط کے لیے معاہدہ کیا تھا کہ بجلی کی قیمتیں بڑھائی جائیں گی تو اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا گیا؟ حکومت نے آئی ایم ایف کے فور ی طور پر تین مطالبے پورے کیے تھے؛ پہلا‘ 350 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانا، اس کے لیے منی بجٹ لایا گیا۔ دوسرا‘ ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی۔ تیسرا‘ سٹیٹ بینک کی خودمختاری، اور اس کے لیے قانون سازی بھی کی گئی تھی۔ اگر حکومت یہ تین مطالبے پورے کر سکتی ہے تو ایک ماہ کے اندر باقی شرائط سے منہ کیوں پھیرا گیا؟ پی ٹی آئی حکومت نے ساڑھے تین سال مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ کیا، عوام پر ہر طرح کا بوجھ ڈالا گیا جس کے باعث حکومت عوام میں غیر مقبول ہوئی مگر تحریک عدم اعتماد کا سنتے ہی چار ماہ کے لیے پٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتیں فکس کر دی گئیں‘ کیوں؟ کمزور معیشت پر ماہانہ سو ارب روپے سے زائد کا بوجھ کیوں ڈالا گیا؟ عمران خان ابھی وزیراعظم ہی تھے کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت 117 ڈالر اور ان کے جانے کے بعد یہ قیمت 123 ڈالر فی بیرل تک گئی۔ کیا انہیں اندازہ نہیں تھا کہ جب یہ ان فنڈڈ سبسڈی ختم ہو گی تو مہنگائی کا ایک ایسا طوفان آئے گا کہ ہر چیز کی قیمت تین‘ چار گنا بڑھ جائے گی؟ کیا سابق وزیراعظم کو نہیں معلوم تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ توڑنے کے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کیا ان کے علم میں نہیں تھا کہ معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں دنیا کا کوئی ملک قرضہ دیتا ہے نہ کوئی مالیاتی ادارہ۔ جس کے بعد ملک میں ڈالرز اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو جاتے ہیں، روپے کی قدر گر جاتی ہے اور مہنگائی بے لگام ہو جاتی ہے؟ اگر پی ٹی آئی کے دور میں معیشت ٹھیک چل رہی تھی تو تجارتی خسارہ 56 ارب ڈالر کیسے ہوا؟ یہ خسارہ گزشتہ مالی سال سے بیس ارب ڈالر زیادہ کیوں تھا؟ مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت کے آخری سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 19 ارب ڈالر تھا۔ پی ٹی آئی حکومت اس پر شدید تنقید کرتی رہی مگر اس کے اپنے آخری سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ساڑھے سترہ ارب ڈالر سے زائد رہا۔ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ معیشت کے لیے زہر قاتل ہے تو سابقہ حکومت نے اتنا خسارہ کیوں کیا؟ اگر پی ٹی آئی حکومت نے معیشت کو سنبھال رکھا تھا تو اس کے آخری بجٹ کا خسارہ 5200 ارب روپے سے زائد کیوں رہا ؟ کیا پی ٹی آئی کی قیادت یا سابق وزیراعظم ان سوالوں کے جواب دینا پسند کریں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں