مائنس عمران خان؟

سورج بادلوں کی اوٹ میں چھپ جائے تو روشنی کی نیت پر شک کیا جاتا ہے نہ اندھیرے کو شرفِ قبولیت بخشا جاتا ہے۔ درخت پھل دینا ترک کر دے تو سوکھنے کے لیے چھوڑا جاتا ہے نہ کاٹا جاتا ہے۔ والدین اولاد کی ضروریات پوری نہ کر سکیں تو ان سے منہ موڑا جاتا ہے نہ انہیں برا بھلا کہا جاتاہے۔ یہ قانونِ قدرت کے خلاف ہے اور انسانی فطرت کے بھی۔ اگر ریاستی ادارے سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریزاں ہے تو عمران خان کو بر اکیوں لگتا ہے؟ اگر ادارے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے خواہاں ہیں تو خان صاحب ان کے خلاف بیان بازی کیوں کر رہے ہیں؟ اگر عدالتیں قانون کے تابع فیصلے کر رہی ہیں تو خان صاحب نے انہیں جلسوں کا موضوع کیوں بنا دیا ہے؟ کیا ایک بڑی ملکی سیاسی پارٹی کے سربراہ کو نہیں معلوم کہ دیوار کے ساتھ سر پھوڑنے سے نقصان دیوار کا نہیں ہوتا بلکہ اس سے اپنا ہی ماتھا لہولہان ہوتا ہے۔ مرزا غالبؔ یاد آتے ہیں:
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
عمران خان اور ان کی جماعت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بیانیہ بنانے کے ماہر ہیں۔ کبھی ایک بیانیہ بناتے ہیں اور کبھی دوسرا۔ کبھی وہ اداروں کو نوکِ تنقید پر رکھتے ہیں اور کبھی تنقید کا رخ عدلیہ کے فیصلوں کی جانب موڑ دیتے ہیں۔ کبھی حکمران اتحاد پر چڑھائی کرتے ہیں اور کبھی امریکہ کے لتے لیتے ہیں۔ اب نیا بیانیہ بنایا جا رہاہے کہ عمران خان کو سیاست سے مائنس کرنے کی کوشش ہو رہی اور پنجاب کی حکومت تبدیل کرنے کے لیے زور لگایا جا رہا ہے۔ یہ دونوں بیانیے اتنے مقبول ہو چکے ہیں کہ کبھی ٹویٹر پر ٹرینڈ چلایا جاتا ہے اور کبھی لوگ ان پر احتجاج کے لیے باہر نکل آتے ہیں۔ ان دونوں بیانیوں کی حقیقت کیا ہے‘ اس سے اکثریت کو کوئی سروکار نہیں۔ وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ عمران خان نے کہا ہے تو ٹھیک ہی ہو گا۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ خان صاحب سے سوال کر سکے کہ ان کو سیاست سے مائنس کون کر سکتا ہے؟ وہ ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں ان کی سیاست کی ناؤ کون ڈبو سکتا ہے؟ میرے نزدیک یہ کام صرف ایک شخص کر سکتا ہے اور وہ خود عمران خان ہیں۔ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی سیاست کو ایسی دلد ل میں دھکیل رہے ہیں جہاں سے نکلنا نہایت مشکل ہے۔ انہیں کیا ضرورت تھی ایک ایڈیشنل سیشن جج کو دھمکی دینے کی؟ اور اگر ان سے غلطی سرزد ہو گئی تھی تو انہوں نے عدلیہ سے غیر مشروط معافی کیوں نہیں مانگی؟ اب اگر وہ خود اس کیس میں پھنسنا، کیس لڑنا چاہتے ہیں تو اس میں کسی دوسرے کا کیا دوش ہے؟ ہر کوئی جانتا ہے کہ خان صاحب کا موقف کمزور ہے، اگر انہیں توہینِ عدالت کیس میں سزا ہوتی ہے تو وہ پانچ سال کے لیے نااہل ہو جائیں گے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایسی صورت میں وہ اپنی نااہلی کو 'مائنس عمران خان بیانیے‘ میں کیسے فٹ کریں گے؟ عمران خان پر ایک اور کیس توشہ خانہ کے تحائف کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں چل رہا ہے۔ یہ بات تو سب پر واضح ہے کہ توشہ خانہ سے تحائف خرید کر انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ ہاں البتہ! اگر انہوں نے وہ تحائف بازار میں بیچ دیے تھے اور اس سے انہیں کروڑوں روپے کی آمدن ہوئی تھی‘ لہٰذا انہیں اس آمدن کو اپنے سالانہ گوشواروں میں ظاہر کرنا چاہیے تھا۔ انہیں یہ رقم چھپانے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ اس حوالے سے قانون واضح ہے۔ اب اگر خان صاحب اس قانون کی زد میں آتے ہیں تو اس میں مائنس عمران خان کا شوشہ چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ قانون‘ قانون ہوتا ہے کوئی بھی اسے توڑے‘ اُسے سزا ضرور ملنی چاہیے۔
تحریک انصاف کا دوسرا بیانیہ پنجاب حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے ہے۔ عمران خان بار بار کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت گرانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ پوری تحریک انصاف کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ پنجاب حکومت کیسے گر سکتی ہے؟ آئین کہتا ہے کہ وزیراعلیٰ کے حلف اٹھانے کے چھ ماہ تک عدم اعتماد نہیں آ سکتی۔ اگر چھ ماہ بعد عدم اعتماد آ بھی گئی تو وزیراعلیٰ کے خلاف کون ووٹ دے گا کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد منحرف ارکان کا ووٹ شمار ہی نہیں ہو گا۔ جب ووٹ شمار نہیں ہو گا تو کوئی رکن اتنا بڑا رسک کیوں لے گا؟
مجھے نہیں معلوم کہ عمران خان ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں جن کا حقیقت سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ مجھ سمیت اگر کسی کو لگ رہا ہے کہ عساکرِ پاکستان کے نئے سربراہ کی تعیناتی کے حوالے سے خان صاحب نے بیان غیر ارادی طور پر دیا ہے تو یقینا ہم غلطی پر ہیں۔ اگر کسی کو محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب نے ایڈیشنل سیشن جج اور پولیس افسران کو دھمکی فرطِ جذبات میں دی ہے یا وہ سیاسی شعلہ بیانی کا نتیجہ ہے تو اسے بھی اپنی اصلاح کر لینی چاہیے۔ سابق وزیراعظم کوئی بات بھی سوچے سمجھے بنا نہیں کرتے۔ وہ پہلے تولتے ہیں اور پھر بولتے ہیں۔ وزراتِ عظمیٰ سے الگ ہونے کے بعد خان صاحب کو جہاں قانونی اور سیاسی میدان میں کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں‘ وہیں ان کا بیانیہ بھی نت نئے میدانوں میں جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ وہ اپنے مؤقف کو اتنی بار دہراتے ہیں کہ لوگ یقین کیے بغیر نہیں رہ پاتے۔ اس وقت ہر طرف عمران خان‘ عمران خان ہو رہی ہے۔ یہ ان کی مقبولیت کا عروج ہے اور سب جانتے ہیں ہر عروج کا ایک زوال بھی ہوتا ہے۔ عروج حاصل کرنا جتنا مشکل کام ہے‘ زوال تک پہنچنا اتنا ہی آسان ہے۔ شیخ سعدیؒ کا قول ہے: ''ہر شخص کا زوال اس کی زبان کے نیچے دبا ہوتا ہے، اگر بولنے میں بے احتیاطی کی جائے تو زوال وقت سے پہلے آ جاتا ہے‘‘۔ عمران خان کو سوچنا ہو گا کہ ان سے غلطی کہاں ہو رہی ہے۔ وہ ایک کے بعد ایک مشکل میں کیوں پھنستے جا رہے ہیں۔ کہیں وہ زیادہ تو نہیں بول رہے۔ کہیں وہ اپنے زوال کو خود ہی دعوت تو نہیں دے رہے؟ عمران خان پاکستانی سیاست میں توازن کی علامت ہیں۔ پی ٹی آئی بطور جماعت ان کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ میرا احساس ہے کہ اگر عمران خان کسی کیس میں نااہل ہوئے تو پوری پی ٹی آئی کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ پارٹی کے وفادار اور دیرینہ رہنما بھی نیا مسکن ڈھونڈنے لگیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خان صاحب احتیاط کا دامن مت چھوڑیں۔ خود پر مقبولیت کا خمار اتنا نہ چڑھائیں کہ پارٹی کا نقصان ہو جائے۔
ایک طرف ہمارے معاشی حالات دگرگوں ہیں اور دوسری جانب ملک کا ایک چوتھائی حصہ سیلاب کی نذر ہو چکا ہے۔ ساڑھے تین کروڑ سے زائد افراد بے یارو مددگار ہیں۔ فصلیں، گھر، سڑکیں، پل، سکول، ہسپتال اور کاروبار تباہ ہو چکے ہیں۔ رہنے کوچھت ہے نہ کھانے کو خوراک۔ خیموں کا قال ہے اور ادویات کی قلت، ان علاقوں میں بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور جرائم کی شرح بھی مگر خان صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کی کرسی کی فکر ستائے جا رہی ہے۔ وہ ایک کے بعد ایک سیاسی جلسہ کر رہے ہیں اور نئے سے نیا بیانیہ بنا رہے ہیں۔ کیا ہوا اگر وہ ملک کے وزیراعظم نہیں رہے؟ گزشتہ عام انتخابات میں عوام نے الیکشن میں انہیں واضح اکثریت دی تھی نہ ان کے مخالفین کو۔ ان کی حکومت بھی اتحادیوں کے سہارے کھڑی تھی اور اب بھی نظام حکومت ایسے ہی چل رہا ہے۔ اب بھی ستر فیصد پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں مگر ان کے دل سے اسلام آباد کی یاد نہیں نکل رہی۔ خان صاحب نے اعلان کیا ہے کہ ''کسی بھی وقت پورے پاکستان کو کال دوں گا اور ہم پُرامن احتجاج کرکے زبردستی الیکشن کرائیں گے‘‘۔ یہ ''زبردستی الیکشن‘‘ کون سی جمہوریت میں ہوتے ہیں؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ پاکستان اس وقت الیکشن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کروڑوں لوگ بے سہارا گھروں سے باہر پڑے ہیں اور انتظامیہ اور عوام ان کی بحالی کیلئے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں الیکشن کیسے ہوں گے؟ خدارا! ہوش کے ناخن لیں، الیکشن کی ضد بے وقت کی راگنی ہے۔ سیلاب زدگان کو آپ کی ضرورت ہے، اپنی صوبائی حکومتوں کو متحرک کریں ورنہ ایسا نہ ہو کہ یہ سیلاب آپ کی مقبولیت کو بھی بہا کر لے جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں