سیلاب میں انتخابات؟

کشتی منجدھار میں پھنس جائے اور تمام مسافر موت کے خوف سے چیخ و پکار کر رہے ہوں تو کیا کرنا چاہیے، ہر کسی کو اپنی اپنی فکر کرنی چاہیے یا مل کر کشتی کو بچانے کی سعی کرنی چاہیے؟اگر سردیوں کے موسم میں کسی شخص کے گھر کو آگ لگ جائے تو اس آگ سے ہاتھ سینکنے لگ جانا چاہیے یا پھر اس آگ کو بجھانے کی کوشش کرنی چاہیے؟ کوئی اپنا گھر آباد کرنے کا خواہشمند ہو تو اس کے لیے گلی کے دوسرے گھروں کو تباہ نہیں کیا جاتا۔ جب ہر طرف نفانفسی کا عالم ہو تو قدیم روم کی مثال دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ کر بانسری بجا رہا تھا۔ تاریخ نے اسے اس جرم پر کبھی معاف نہیں کیا۔ ہزاروں سال بعد بھی اس کا نام اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جاتا۔ میرا احساس ہے کہ نیرو کسی تاریخی کردار سے زیادہ کیفیت کا نام ہے اور یہ کیفیت ہر دور میں پروان چڑھتی ہے۔ نیرو کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے۔عنایت علی خاں یاد آتے ہیں:
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
سیلاب کے بعد پاکستان میں دوسری آفت کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ مختلف وبائی امراض کے پھوٹنے سے جانی اتلاف کا خدشہ ہے۔ سیلاب نے دو ہزار سے زائد صحت کے مراکز تباہ کر دیے ہیں جس سے وبائی امراض سے نمٹنے کی صلاحیت کم ہو گئی ہے۔ یہ بیان ڈائریکٹر ڈبلیو ایچ او ڈاکٹر ٹیڈروس کا ہے اور انہوں نے دنیا بھر سے اپیل کی ہے کہ پاکستان کی مالی مدد کی جائے تاکہ جانی نقصان کم سے کم ہو سکے۔ دوسری جانب عالمی ادارۂ موسمیات نے موسمیاتی تبدیلیوں کو پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موسموں سے متعلق سانحات پچاس سال کے دوران پانچ گنا بڑھے ہیں۔ موسمی سانحات سے دنیا بھر میں روزانہ اوسطاً 115 اموات ہو رہی ہیں۔ عالمی ادارۂ موسمیات کے ماہرین کاماننا ہے کہ سیلاب سے انسانی جانوں کا ضیاع روکنا ہے تو عالمی درجہ حرات کم کرنا ہو گا۔ یہ پاکستان کے بارے میں باقی دنیا کا رویہ ہے جو سیلاب کی تباہ کاریوں اور وبائی امراض کے حوالے سے فکر مند دکھائی دیتی ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان کا حکمران طبقہ ہے جس کا دل سیلاب سے ہونے والے انسانی المیے کے بعد بھی نہیں پگھل سکا۔ پندرہ سو افراد کی ہلاکت اور ایک کروڑ سے زائد گھروں کی تباہی بھی اس طبقے کو موم نہیں کر سکی۔ عباس تابش کا شعر ملاحظہ کریں:
دیوار کے اُس پار نہیں دیکھ رہے کیا
یہ لوگ جو دیوار گرانے میں لگے ہیں
ملک میں ایک طرف سیلاب ہے اور دوسری طرف مہنگائی۔ ایک جانب وبائی امراض کا پھیلاؤ ہے اور دوسری جانب غذائی قلت کا خدشہ۔ کہیں بھوک کے باعث بلکتے بچے ہیں اور کہیں دوائی کو ترستے جوان و بوڑھے۔ کسی کے تن بدن پر لباس نہیں ہے اور کسی کے سر سے چھت غائب ہے۔ سکول باقی رہے ہیں نہ ڈسپنسریاں۔ کالج بچے ہیں نہ ہسپتال۔ لاکھوں عورتیں زچگی کی کیفیت میں ہیں مگران کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ رابطہ سٹرکیں ہیں اور نہ ندی، نالوں اور نہروں پر پل۔ کوئی جائے تو جائے کہاں؟ انسان تو انسان‘ جانوروں کی حالت دیکھ کر بھی رونا آ جاتا ہے۔ ان کے لیے چارہ ہے نہ ادویات۔ دس لاکھ سے زائد جانور پانی کی نذر ہو چکے اور کروڑوں کی حالت مخدوش ہے۔ ملک کا ایک چوتھائی حصہ مفلوج ہے اور تین کروڑ سے زائد لوگ بے گھر۔ دیہی سندھ برباد ہو گیا، کے پی، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے اضلاع کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ ایسے حالات میں انتخابات کیسے ممکن ہیں؟ ایسی صورتِ حال میں عمران خان کی خواہش کی تکمیل کیسے ہو سکتی ہے؟ کیا تین کروڑ سے زائد بے گھر ہونے والے افراد پاکستانی نہیں ہیں؟ کیا انہیں ووٹ دینے کاحق حاصل نہیں؟ کیا ان کے علاقوں میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے نمائندے منتخب نہیں ہونے؟ آخر اتنی جلدی کیا ہے؟ آئینی طور پر موجودہ اسمبلیوں کی مدت اگست 2023ء تک ہے۔ اب آئینی مدت کو پیشِ نظر رکھا جائے یا عمران خان کے مطالبے کو مانا جائے؟ اصولوں کی بات کی جائے یا بے جا ضد کا ساتھ دیا جائے؟ اگر زور زبردستی اور دھرنوں ہی سے الیکشن ہونے ہیں تو پھر کون سی اسمبلی مدت پوری کر سکے گی؟ یہ ستم کیا کم ہے کہ آج تک ایک بھی وزیراعظم اپنے پانچ سال پورے نہیں کر سکا۔ ہمارے سیاست دانوں کو سمجھنا ہو گا کہ ہم اس طرزِ عمل سے اپنی پارلیمانی سیاست کو نوے کی دہائی میں دھکیل رہے ہیں جب اسمبلیاں دو سے تین سال تک ہی چل پاتی تھیں۔
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ عمران خان گزشتہ ایک ماہ سے جلد انتخابات کے لیے پسِ پردہ کوششیں کر رہے تھے مگر اب یہ کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ وہ مقتدر حلقو ں کو نئے الیکشن کے لیے قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کام میں ناکامی کیوں نہ ہوتی‘ نئے الیکشن کی دلیل ہی کیا ہے؟ ماسوائے اس کے کہ خان صاحب وزیراعظم نہیں ہیں۔ ایوان صدر میں کوئی ملاقات ہوئی یا نمائندوں کے ذریعے پیغام رسانی کی گئی‘ اس حوالے سے ابھی متضاد خبریں ہیں مگر جو بات طے شدہ ہے وہ یہ کہ مقتدر حلقوں نے سیاسی کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ جس کے بعد خان صاحب اسلام آباد میں دھرنا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور انہوں نے پارٹی پر بھی اس حوالے سے واضح کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اکتوبر کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد کی جانب ایک بار پھر مارچ ہو گا اور اس دفعہ پشاور کے بجائے لاہور کا انتخاب کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پچیس مئی کی طرح وفاقی حکومت عمران خان کا دھرنا ناکام بنانے میں کامیاب ہو پائے گی یا نہیں؟ میرے نزدیک اس بار یہ کام اتنا آسان نہیں ہوگا۔ پچھلی بار پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور اب پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔ پنجاب، کے پی، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی ریاستی مشینری کے ساتھ جب عمران خان اسلام آباد میں داخل ہوں گے تو اسلام آبا د پولیس کی اتنی سکت اور اتنے وسائل کہاں کہ وہ انہیں روک سکے۔ البتہ وفاق نے اگر فوج اور رینجرز کو طلب کیا تو حالات بدل سکتے ہیں۔ اس حوالے سے عدلیہ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے کہ کسی بھی سڑک اور چوراہے کو بند نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے عمران خان چاہ کر بھی ریڈ زون میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ انہیں کسی پارک میں دھرنا دینا پڑے گا اور اس طرح وفاقی حکومت پر کوئی دباؤ نہیں پڑے گا۔
کیا خان صاحب کو نہیں معلوم کہ دھرنوں سے حکومت گرانا غیر آئینی و غیر قانونی عمل ہے؟ پُرامن احتجاج ہر فرد‘ ہر سیاسی جماعت کا آئینی حق ہے مگر دھرنا دے کر آپ شہریوں کے بنیادی حقوق کیسے سلب کر سکتے ہیں؟ دھرنوں سے کسی آئینی حکومت کو کیسے چلتا کر سکتے ہیں؟ اب ہوگا کیا؟ خان صاحب ایک جلوس لے کر اسلام آباد آئیں گے اور انہیں روکنے کی کوشش کی جائے گی‘ پھر لاٹھی چارج ہو گا اور آنسو گیس کے شیل چلائے جائیں گے۔ اس کے بعد شور مچایا جائے گا کہ لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پولیس افسران کو دھمکیاں دی جائیں گی اور وفاقی حکومت کے لتے لیے جائیں گے مگر اس وقت کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا کہ اگر کوئی غیر آئینی کام کر رہا ہو تو کیا ریاست اسے روکے بھی نہ؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ملک میں جنگل کا قانون تو ہے نہیں۔ خان صاحب کو ادراک ہونا چاہیے کہ پچیس مئی کو ان کے مطالبات جائز تھے نہ اب ہیں۔ وہ عوام کو دوبارہ پچیس مئی والے حالات میں دھکیلنا چاہتے ہیں تو ضرور لانگ مارچ کریں اور دھرنا بھی دیں لیکن اگر انہیں عوام کی تکریم عزیز ہے تو پھر دھرنے کا ارادہ ترک کر دیں اور سیلاب سے بدحال لوگوں کی مدد کریں۔ الیکشن کا کیا ہے‘ ہر پانچ سال بعد ہوتے ہیں۔ رواں سال نہیں تو اگلے سال ہو جائیں گے۔ کیا خان صاحب چاہیں گے کہ تاریخ میں انہیں ایک ایسے سیاسی لیڈر کے طور پر یاد رکھا جائے جو سیلاب کی آفت کے دوران بھی انتخابات کا مطالبہ کر رہا تھا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں