نواز شریف کی واپسی کب ہوگی؟

ورطۂ حیرت میں ہوں کہ یہ نظام کیسے چل رہا ہے۔ دو مختلف افراد یا طبقات کے لیے الگ الگ نظام کی منطق سمجھ میں آتی ہے مگر ایک ہی شخص کے لیے دہرا معیار کیسے ہو سکتا ہے؟ دن، مہینے اور سال بدلنے سے انصاف کا پیمانہ تو تبدیل نہیں ہوا کرتا! یہ کیسا ملک ہے جہاں ایک طاقتور وزیر پر مقدمات بنائے جاتے ہیں، وہ اپنے اوپر لگنے والے فردِ جرم کے بعد لندن چلا جاتا ہے اور عدالتوں کے بار بار بلانے کے باوجود واپس نہیں آتا۔ پھر وقت بدلتا ہے تو وہی ملزم وطن واپسی سے پہلے ہی وزیر خزانہ نامزد ہو جاتا ہے۔ ساری گرہیں خود بخود کھلنے لگتی ہیں اور تمام دکھ، درد اور تکلیفیں اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ کہاں گیا قانون کا خوف اور کیا ہوا سزا پانے کا ڈر؟ کوئی تو ہو جو سمجھا سکے کہ اتنا تضاد ممکن کیسے ہے؟ یہ دہرا معیار ہے یا منفرد انداز؟ مقدمات بنانے والے پہلے غلط تھے یا اب غلطی پر ہیں؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، ورنہ ''کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں‘‘ والا محاورہ سب کے لیے نہیں ہوتا۔
مشہور کہاوت ہے کہ کامیابی کے ہزار وارث ہوتے ہیں جبکہ ناکامی کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ اسحاق ڈار کو واپس آنا تھا تو اپریل یا مئی میں آتے جب ملک کو ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ معیشت تباہی کے دہانے پر تھی اور ملک دیوالیہ ہونے کی دہلیز پر تھا۔ پی ٹی آئی حکومت جاتے جاتے آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑ گئی تھی جس کی وجہ سے کوئی ملک یا عالمی مالیاتی ادارہ پاکستان کو قرض دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ سٹیٹ بینک کے پاس زرِمبادلہ کے ذخائر دس ارب ڈالر کے قریب تھے جن میں سے تین ارب ڈالر سعودی عرب کے تھے۔ ملک کا تجارتی خسارہ 56 ارب ڈالر، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ساڑھے سترہ ارب ڈالر اور بجٹ خسارہ 5200 ارب روپے تھا۔ ملک میں مہنگائی کے طوفان کے آگے پٹرول، ڈیزل اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کا بند باندھا گیا تھا جسے کھولنے کے لیے قابل اور تجربہ کار وزیر خزانہ کی ضرورت تھی۔ مفتاح اسماعیل یقینا قابل اور پڑھے لکھے شخص ہیں مگر اسحاق ڈار کا تجربہ ان سے کہیں زیادہ ہے۔ مفتاح اسماعیل نے مشکل وقت میں کڑے فیصلے کیے اور عوام کے غیظ و غضب کا سامنا بھی کیا۔ انہوں نے مہنگائی کے آگے بندھا مصنوعی بند کھولا اور آئی ایم ایف سے معاہدے کی تجدید کی۔ اپنی پارٹی کے لوگوں کی تنقید کا سامنا کیا اور پی ٹی آئی کی جانب سے چلائے جانے والے نشتر بھی سینے پر سہے۔ مفتاح اسماعیل نے ہر وہ کام کیا جس کی معیشت اور ملک کو ضرورت تھی ورنہ ملکی معیشت جس نہج پر تھی‘ وہاں سے واپسی اتنی آسان نہ ہوتی۔ ہاں البتہ! جب آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا تو وہ ڈالر کے سامنے بے بس نظر آئے۔ اگر ڈالر اتنا بے لگام نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ انہیں کچھ دن اور مل جاتے۔ اگرچہ ان کی چھ ماہ کی آئینی مدت ویسے بھی پوری ہونے والی تھی مگر یوں لندن جا کر انہیں اپنا استعفیٰ نہ دینا پڑتا۔ ہمیں مفتاح اسماعیل جیسے لوگوں کو سراہنا چاہیے تاکہ مستقبل میں بھی پڑھے لکھے اور معیشت کو سمجھنے والے دماغ سیاست کا رخ کر سکیں ورنہ حالات تو یہ ہیں کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں ایک بھی معیشت دان نہیں ہے۔ جو ماہرِ معیشت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان میں سے کوئی بینکر ہے تو کوئی مینجمنٹ کا گرو۔
اب ذکر کرتے ہیں اسحاق ڈار کا اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہوں نے وطن واپسی کا فیصلہ کیوں کیا اور اس کے معیشت اور سیاست پر کیا اثرات پڑیں گے؟ وہ طاقتیں جو مفتاح اسماعیل کو سپورٹ کر رہی تھیں‘ انہیں کیوں پیچھے ہٹنا پڑا؟ اور وہ قوتیں جو اسحاق ڈار کی مخالف تھیں انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کس نے کیا؟ اسحاق ڈار کی واپسی سے عمران خان کے لیے کیا پیغام ہے؟ اسحاق ڈار کے بعد میاں نواز شریف بھی ملک واپس آئیں گے یا نہیں؟ اور سب سے بڑھ کر روپے کی قدر مستحکم اور مہنگائی پر قابو پایا جا سکے گا یا نہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ اسحاق ڈار کبھی واپس نہ آتے اگر معیشت میں بہتری کے آثار نمایاں نہ ہوتے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی سیاست بچانے کے لیے مفتاح اسماعیل کی قربانی دی ہے۔ مشکل فیصلے اُن سے کرائے اور اب پکی ہوئی دیگ پر اسحاق ڈار کو بٹھا دیا تاکہ عوام میں یہ تاثر جائے کہ سارے مسائل مفتاح اسماعیل کی پالیسیوں کی وجہ سے تھے‘ پوری وفاقی حکومت اس کی ذمہ دار نہیں ہے۔ اس وقت معیشت کو تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اول: زرِمبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں جس کے باعث روپے کی قدر گر رہی ہے۔ دوم: بجلی، پٹرول، ڈیزل اور گیس کی بڑھتی قیمتیں۔ سوم : مہنگائی۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے اسحاق ڈار کو ان تینوں چیلنجز سے نمٹنے کا ٹاسک سونپا ہے۔ اب ہم ان تینوں چیلنجز کا ایک ایک کرکے جائزہ لیتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ زرِمبادلہ کے ذخائر خطرناک سطح کو چھو رہے ہیں مگر اب آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد ان میں اضافہ ہونے کا قوی امکان ہے۔ ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضوں کی رقم ملنے والی ہے۔ یہی نہیں‘ کچھ دوست ممالک بھی مدد اور سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ اس کے علاوہ سیلاب کے باعث بہت سی امداد ملنے کی توقع کی جا رہی ہے اور قرضوں کی قسطیں مؤخر کرنے کے لیے بات چیت بھی جاری ہے۔ اگر یہ سب کچھ ایسے ہی پلان کے مطابق ہو گیا تو زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں گے اور اس کا روپے پر مثبت اثر پڑے گا۔ عین ممکن ہے کہ اگلے ایک‘ دو ماہ میں ڈالر دو سو روپے سے بھی نیچے چلا جائے۔ دوسرا اہم مسئلہ بجلی، پٹرول، ڈیزل اور گیس کی قیمتوں کا ہے۔ عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مسلسل گر رہی ہیں مگر روپے کی بے قدری اور پٹرولیم لیوی کے باعث اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچ رہا۔ اگر مستقبل قریب میں زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھنے سے ڈالر کی قدر میں گراوٹ آتی ہے تو پاکستان میں پٹرول، ڈیزل اور گیس کی قیمتیں خود بخود کم ہو جائیں گی۔ جب ان تینوں مصنوعات کی قیمتیں گریں گی تو بجلی کی پیداواری لاگت بھی کم ہو جائے گی اور بجلی کی فی یونٹ قیمت گر جائے گی۔ رہی بات مہنگائی کی‘ تو یہ پہلے دونوں مسائل کی وجہ سے ہی بڑھ رہی ہے۔ حکومت جتنا جلدی پہلے دونوں مسائل پر قابو پائے گی اتنی جلدی مہنگائی کا جن بھی بوتل میں واپس چلا جائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے آئی ایم ایف اپنی شرائط میں نرمی کرنے کو تیار ہے اور اگلے کچھ دِنوں میں عوام کے لیے وہاں سے خوشخبری آنے کا امکان ہے۔
کچھ حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ اسحاق ڈار کی واپسی میں عمران خان کے لیے اہم پیغام پنہاں ہے۔ اگر سیاسی طور پر حالات موافق نہ ہوتے تو اسحاق ڈار آج بھی لندن میں ہوتے۔ وہ میاں نواز شریف کے دستِ راست ہیں اگر وہ پاکستان واپس آئے ہیں تو اس سے صاف ظاہر ہے ان حلقوں کی‘ جو 2017ء میں ان کے خلاف تھے‘ آج رائے بدل چکی ہے۔ ڈار صاحب کی واپسی سے ایک اور بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ اب الیکشن وقت سے پہلے نہیں ہوں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں کوئی بڑی گارنٹی دی گئی ہے ورنہ محض مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے اتنا بڑا رسک کون لیتا ہے۔ اس سارے معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ ہے میاں نواز شریف کا واپس آنا۔ اگر اسحاق ڈار کا مشن مکمل ہو جاتا ہے اور انہیں تنگ نہیں کیا جاتا تو میاں صاحب بھی واپس آ جائیں گے۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے اب وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے جب میاں نواز شریف بھی پاکستان میں ہوں گے۔ ان کی واپسی سے اور کچھ ہو نہ ہو‘ (ن) لیگ کو سیاسی فائدہ ضرور ہو گا کیونکہ عمران خان کے بیانیے کا مقابلہ میاں نواز شریف ہی کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں