شیر شاہ سوری یا نظام سقہ

کہا جاتا ہے کہ کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں جب تک اس کا باطن آشکار نہ ہو جائے۔ حالات بدل رہے ہیں اور واقعات تیزی سے رونما ہو رہے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب جھوٹ اور سچ کا پردہ چاک ہو گا۔ روشنی اور تاریکی کی اپنی اپنی پہچان ہو گی۔ غلط اور صحیح کا فرق واضح ہو گا۔ برائی، اچھائی کے پیچھے چھپے گی نہ اچھائی برائی کی دھول میں اٹ کر میلی ہو گی۔
ملک میں جہاں ایک طرف موسم بدل رہا ہے‘ وہیں سیاست بھی نئی کروٹ لے رہی ہے۔ کبھی وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی منی لانڈرنگ کیس میں بریت کی خبر سامنے آتی ہے اور کبھی فارن فنڈنگ کیس میں عمران خان پر ایف آئی آر کٹنے کی اطلاع ملتی ہے۔ کبھی موجودہ وزیراعظم کی نئی آڈیو لیک سامنے آتی ہے اور کبھی سابق وزیراعظم کی کوئی گفتگو منظرِ عام پر آ جاتی ہے۔ کبھی عمران خان اپنی کردار کشی کا منصوبہ بنائے جانے کا بھرے جلسے میں انکشاف کرتے ہیں اور کبھی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ غیر اخلاقی وڈیوز کی تصدیق کرتے ہیں۔ پوری قوم مضطرب اور ہیجان میں مبتلا ہے کہ ملک کا بنے گا کیا؟ سارا معاشرہ زوال کی جانب گامزن ہے اور اہلِ حَکم کو کوئی فکر ہی نہیں۔ وہ اپنی سیاست میں مگن ہیں اور نت نئے بیانیے بنانے میں مصروف ہیں۔ کوئی عوام سے سچ بول رہا ہے نہ ان کے دکھوں کا مداوا کرنے میں سنجیدہ ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان تو کبھی کبھی بیانیہ بنانے میں حد کر دیتے ہیں۔ اپنی بات کی سچائی ثابت کرنے کے لیے ایسی ایسی منطق پیش کرتے ہیں کہ ان کی دلیلوں کو سمجھنے کے لیے افلاطون کا دماغ چاہیے‘ جو ہر کسی کے پاس کہاں۔ اب ان کا تازہ بیان سامنے آیا ہے کہ بطور وزیراعظم تمام کاموں کی ذمہ داری میری تھی مگر اصل طاقت کسی اور کے پاس تھی۔ مجھے ساڑھے تین سالوں میں آدھی پاور بھی مل جاتی تو میرا شیر شاہ سوری سے مقابلہ کر لیتے۔ دیر آید درست آید! آخرکار خان صاحب نے مان لیا کہ وہ بے اختیار وزیراعظم تھے‘ ورنہ اس وقت کی اپوزیشن جب بھی انہیں بے اختیاری کا طعنہ دیتی تھی تو انہیں برا لگتا تھا۔ مشہور کہاوت ہے کہ وہ مکا جو لڑائی کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے۔ خان صاحب سے پوچھا جانا چاہیے کہ اب ایسی گفتگو کا کیا فائدہ؟ اگر آپ وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی بے اختیار تھے تو اس وقت اس کا اظہار کیوں نہ کیا؟ عوام نے ووٹ آپ کو دیا تھا مگر آپ نے حقِ حکمرانی کسی اور کو کیوں سونپ دیا؟ اگر آپ عوام کی امیدوں کا بھرم رکھنے میں ناکام تھے تو مستعفی ہونے کو ترجیح کیوں نہ دی؟ آپ تو خود کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی میرے اختیار کو چیلنج کرے گا تو میں ڈمی وزیراعظم بننے کے بجائے مستعفی ہونے کو ترجیح دوں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے یہ بیان عوامی ہمدردی بٹورنے اور خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے دیا ہے ورنہ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اگر خان صاحب بے اختیار ہوتے تو عثمان بزدار اور محمود خان چھ ماہ سے زائد وزیراعلیٰ نہ رہتے۔ اگر خان صاحب کے پاس طاقت نہ ہوتی تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اکابرین کے خلاف اتنے مقدمات نہ بنتے۔ عمران خان جب تک وزیراعظم رہے‘ پوری قوت کے ساتھ رہے۔ ہاں البتہ! ان کا فوکس معیشت پر تھا نہ گورننس پر۔ مہنگائی ان کا مسئلہ تھی اور نہ ہی بدانتظامی۔ ان کا سارا دھیان اپوزیشن کے گرد شکنجہ کسنے پر تھا۔
عمران خان کے دور میں میاں شہباز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں پر منی لانڈرنگ کا کیس بنایا گیا۔ ایف آئی اے نے سات والیمز اور چار ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل چالان بینکنگ عدالت میں جمع کرایا تو ہوشربا انکشافات سامنے آئے۔ چالان کے مطابق تحقیقاتی ٹیم نے 28 ایسے بے نامی اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جو 2008ء سے 2018ء تک شہباز شریف خاندان کے چپڑاسیوں، کلرکوں اور ملازمین کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے بینکوں میں کھولے گئے تھے۔ ان بے نامی اکاؤنٹس میں 16 ارب روپے کی سترہ ہزار سے زیادہ کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی گئی تھیں۔ یہ مقدمہ حقیقی تھا یا سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا تھا‘ اس کا فیصلہ میں کر سکتا ہوں نہ کوئی سیاست دان۔ اس کا فیصلہ عدالت نے کرنا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بینکنگ کورٹ نے ملزمان پر فردِ جرم عائد کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ایف آئی اے چالان میں ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی ہے اس لیے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو بری کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایف آئی اے وفاقی حکومت کے ماتحت ہے مگر عدالت نے چالان میں ناکافی شواہد کی بنا پر دونوں ملزمان کی بریت کا حکم دیا ہے اور یہ چالان عمران خان کے دور میں جمع کرایا گیا تھا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ خان صاحب اس بریت کو این آر او ٹُو کے بیانیے میں ہی فٹ کریں گے اور قوم کو ایک اور ہی 'جہت‘ سے رُوشناس کرائیں گے‘ بالکل ویسے ہی جیسے وہ آڈیو لیکس والے معاملے پر کر رہے ہیں۔
کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب نئی نئی آڈیوز لیک نہیں ہوتیں اور سیاستدانوں کا ظاہر اور باطن آشکار نہیں کرتیں۔ شاید ہی کوئی سیاست دان ہو جو اس وقت گھبراہٹ کا شکار نہ ہو کہ اگر اس کی آڈیو یا وڈیو آ گئی تو کیا بنے گا؟ سیاستدان ہی نہیں‘ عوام بھی اپنے اپنے لیڈرز کے لیے فکرمند دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کی کوئی گلی‘ کوئی چوراہا یا بیٹھک ایسی نہیں جہاں سیاست موضوعِ بحث نہیں اور جہاں آڈیو لیکس کا تذکرہ نہیں ہو رہا۔ مجھے سب سے زیادہ حیرت عمران خان پر ہے۔ جب وہ وزیراعظم تھے اور انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کی نگرانی کی جا رہی ہے تو پھر انہوں نے اتنے حساس موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے اتنی لاپروائی کیو ں برتی؟ اب جب ان کی ایک کے بعد ایک آڈیو لیکس آ رہی ہیں تو ان کا ردعمل بھی بدلتا جا رہا ہے۔ پہلی آڈیو سامنے آنے پر انہوں نے کہا ''اچھا ہے حکومت نے سائفر کا معاملہ خود ہی دوبارہ زندہ کر دیا اور اب میں اس پر کھل کر کھیلوں گا‘‘۔ دوسری آڈیو آئی تو انہوں نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فیک آڈیوز بنائی جا رہی ہیں جبکہ تیسری اور چوتھی آڈیو کے بعد سے تو خان صاحب غصے کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے عدالت جانے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے ''اگر وزیراعظم کو ٹیپ کرنا ضروری ہے تو اسے ریلیز مت کریں۔ وزیراعظم کی آڈیو لیک کرنا جرم ہے‘‘۔ میرے نزدیک عمران خان کا موقف بالکل درست ہے۔ کسی بھی وزیراعظم کی آڈیوز جاری کرنا قطعاً مناسب عمل نہیں ہے مگر کاش! خان صاحب یہی موقف اس وقت بھی اپناتے جب موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کی آڈیوز سامنے آئی تھیں۔
وزیراعظم کا منصب اہم ہوتا ہے‘ شخصیات تو آتی جاتی رہتی ہیں۔ کل عمران خان وزیراعظم تھے‘ آج شہباز شریف اس کرسی پر براجمان ہیں اور کون جانے کہ آئندہ وزیراعظم ہاؤس کا نیا مقیم کون ہو گا۔ خان صاحب نے آڈیو لیک کرنے کو جرم قرار دینا تھا تو تب قرار دیتے جب گزشتہ دورِ حکومت میں مریم نواز کی آڈیوز جاری کی جاتی تھیں اور پھر عمران خان کے وزرا پریس کانفرنسز کر کے مخالفین کے خوب لتے لیتے تھے۔ جیسے دن کو رات اور رات کو دن نہیں کہا جا سکتا‘ بالکل ویسے ہی ایک طرح کے عمل پر دو موقف نہیں اپنائے جا سکتے۔ انسان جو چیز اپنے لیے غلط سمجھتا ہے‘ اسے دوسروں کے لیے بھی غلط سمجھنے لگے تو بہت سے مسائل خود بخود ختم ہو جائیں مگر ہمارے سیاست دانوں کو سمجھائے کون؟
میرا احساس ہے کہ عمران خان کی سیاست میں تضادات بہت زیادہ ہیں۔ اگر انہیں تاریخ میں زندہ رہنا ہے تو ان تضادات سے جان چھڑانا ہو گی۔ شیر شاہ سوری اگر پہلے دن ہی فیصلہ کر لیتا کہ مغلوں کو ہرانا ناممکن ہے تو کیا آج وہ تاریخ کا حصہ ہوتا؟ فرید خان اپنے زورِ بازو سے شیر شاہ سوری بنا تھا۔ جو دوسروں کی طاقت کے سہارے اقتدار میں آتے ہیں تاریخ انہیں شیر شاہ سوری نہیں بلکہ نظام سقہ کے نام یادکرتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں