دکھ تو ملتے ہیں گر خواہشِ نمو کی جائے

جیسے اخلاق ایک دکان ہے اور زبان اس کا تالا۔ تالا کھلتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ دکان سونے کی ہے یا کوئلے کی۔بالکل ویسے ہی کامیابی ایک امتحان ہے۔ جب کوئی جیتتا ہے تو اس کے ردعمل ہی سے معلوم ہوتاہے کہ وہ جیت کا اہل تھا بھی یا نہیں۔عمران خان کو کامیابی مبارک ہو! چھ حلقوں سے فتح ان کے نصیب میں آئی ہے۔ ایک سیٹ پر ناکامی ان کا مقدر بنی ہے مگر ان کی جماعت گیارہ میں سے آٹھ نشستوں پرکامیاب ٹھہری ہے۔ کہاں چودہ‘ پندرہ جماعتوں کا اتحاد اور کہاں تنِ تنہا عمران خان۔ کہاں وفاقی حکومت کی چھتری تلے کھڑے امیدوار اور کہاں وزیراعظم آفس سے بے دخل کیا گیا اکیلا شخص۔کہاں مہنگائی کے سبب غیر مقبول ہوتے سیاستدان اور کہاں امریکہ مخالف نعرے لگاتا اور عوامی جذبات کو اپنی انگلیوں پر موڑنے والا سیاسی رہنما۔ عباس تابش کا ایک شعر وفاقی حکومت کی نذر:
یہ نکتہ کٹتے شجر نے مجھے کیا تعلیم
کہ دکھ تو ملتے ہیں گر خواہشِ نمو کی جائے
یقینااتنی بڑی کامیابی سے عمران خان خوش بھی ہوں گے اور مضطرب، بے چین اور بے قرار بھی۔ ایک طرف انہیں ایف آئی آرز کا سامنا ہے اور دوسری طرف لانگ مارچ کی تاریخ دینے کا پریشر۔ ایک جانب وفاقی حکومت کے پاؤں مضبوط ہو رہے ہیں اور دوسری جانب نومبر کی تعیناتی کی چاپ انہیں ابھی سے سنائی دے رہی ہے۔الیکشن کے نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ خان صاحب کی مقبولیت بامِ عروج پر ہے، آج انہیں عوام میں جتنی پذیرائی حاصل ہے شاید ہی پہلے کسی اورسیاسی رہنما کے حصے میں آئی ہو۔
وہ جس حلقے سے الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں‘ جیت جاتے ہیں اور جو بیانیہ بناتے ہیں عوام کے دلوں میں گھر کرجاتا ہے۔چھ‘ سات ماہ قبل ان کی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، اتحادی ان کے رویے سے ناخوش تھے اور عوام ان کی کارکردگی سے بے زار۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کا سورج پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔ وہ سارے ضمنی الیکشن جیت کر اپنی دھاک جماچکی تھی۔یہی وجہ تھی کہ پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز میاں نواز شریف کی جماعت کا ٹکٹ لینے کیلئے بے تاب تھے اور عمران خان کو چھوڑنے کے لیے حیلے بہانے ڈھونڈ رہے تھے۔ پھر مسلم لیگ (ن) نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی اور عمران خان کے بنائے ہوئے بیانیے اور معاشی پالیسیوں کے جال میں پھنس گئی۔اب صورتحال یہ ہے کہ وفاقی حکومت ہونے کے باوجود سب سے زیادہ خسارہ مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آیاہے۔حالیہ الیکشن میں اس کے پاس قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے تین ٹکٹ تھے مگر وہ صرف ایک ایم پی اے کی سیٹ ہی بچا پائی ہے‘ وہ بھی بہت کم مارجن سے۔عوامی نیشنل پارٹی دو نشستوں پر عمران خان کے مدِمقابل تھی اور دونوں پر ناکام رہی جبکہ جے یو آئی (ایف) اور ایم کیو ایم نے ایک ایک نشست پر عمران خان کا سامنا کیا اور شکست کا ہار گلے میں پہنا۔ہاں البتہ ! پیپلزپارٹی کی جیت کا تناسب سو فیصد رہا۔ اس کے حصے میں کراچی اور ملتان کی دو قومی اسمبلی کی نشستیں آئی تھیں اور وہ دونوں شہروں میں جیت گئی۔ایک حلقے میں عمران خان پیپلزپارٹی کے امیدوار سے ہارے اور دوسرے میں شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی کا ایم این اے بننے کا خواب پورا نہ ہوسکا۔شکست کے بعد (ن) لیگ کے کچھ رہنما یہ جواز پیش کررہے تھے کہ قومی اسمبلی کی آٹھ کی آٹھ سیٹیں پی ٹی آئی کی تھیں اور وہ اپنی ہی دو نشستیں ہار گئی ہے۔ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو کیا (ن) لیگ کے رہنما یہ بتائیں گے کہ پنجاب اسمبلی کی سیٹیں کس جماعت کے پاس تھیں ؟ یہ تینوں مسلم لیگ (ن) کی سیٹیں تھیں‘ پھر دو میں ہار کی وجہ کیا ہے ؟میرے خیال میں مسلم لیگ (ن) کا یہ جواز طفل تسلی تو ہوسکتا ہے منطق نہیں۔ یہ دلیل انتہائی کمزور ہے اور پارٹی کی پوزیشن اس سے بھی زیادہ بدحال۔مسلم لیگ (ن) کے اکابرین آج ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ ان سے کہاں غلطی ہوئی ؟کہیں انہوں نے بخار سے جان چھڑاتے چھڑاتے معذوری کو گلے تو نہیں لگا لیا ؟کہیں عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا فیصلہ انہیں ہمیشہ کے لیے سیاسی پاتال میں تو نہیں پھینک گیا ؟
مسلم لیگ (ن) کی عوام میں غیر مقبولیت عمران خان کے لیے بھی سبق ہے۔انہیں نہیں بھولنا چاہیے کہ سیاسی میدان میں کیے گئے ایک غلط فیصلے کا خمیازہ پوری جماعت کو بھگتنا پڑتا ہے۔دیکھاجائے تو عمران خان کی مقبولیت، پذیرائی اور شہرت کسی امتحان سے کم نہیں۔عوام جتنا اعتماد ان پر کر رہے ہیں انہیں بھی بدلے میں ان کے حقوق کا بھرپور خیال رکھنا چاہیے۔ اس وقت معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور عوام مہنگائی سے پریشان۔ ملک کا ایک چوتھائی حصہ سیلاب کی نذر ہوچکا اور غذائی قلت کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ عمران خان کو اب ملک وقوم کے لیے سنجیدگی دکھانا ہو گی۔انہیں اپنے رویے سے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ ملک کے سب سے مقبول لیڈر ہیں اور عوام کے خیرخواہ۔اس ضمنی الیکشن میں جو ہوا‘ سو ہوا، اب انہیں آگے کی طرف دیکھنا ہے۔ وہ اس وقت میانوالی سے بھی ایم این اے ہیں کیونکہ ان کا استعفیٰ تاحال منظور نہیں ہوا۔قانون کے مطابق انہیں اب چھ نشستیں چھوڑنا ہوں گی اور الیکشن کمیشن دوبارہ ان نشستوں پر ضمنی انتخاب کروانے کا پابند ہے۔ ایسا نہ ہوکہ خان صاحب ان سیٹوں پر دوبارہ کھڑے ہو جائیں اور قومی خزانے کا ضیاع کریں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک حلقے میں انتخاب پر الیکشن کمیشن کے ڈھائی سے تین کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں اور امیدواروں کے اخراجات کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ اگر ذاتی اناؤں کی تسکین کیلئے قومی خزانے کا یوں ہی بے دریغ استعمال ہونا ہے تو پھر کہاں گئے کفایت شعاری کے دعوے اور کیاہوئے ایمانداری کے نعرے ؟
ویسے یہ عجیب ہی قانون ہے۔ قومی اسمبلی کا ممبر ہوتے ہوئے سینیٹ یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا جائے تو سمجھ میں آتاہے مگر قومی اسمبلی کا ممبر ہونے کے باوجود دوبارہ قومی اسمبلی کے ہی انتخاب میں حصہ لیناکہاں کی دانشمندی ہے ؟ کون سا ڈاکٹر ہے جو ایم بی بی ایس کرنے کے بعد کسی اور کالج میں دوبارہ ایم بی بی ایس میں ہی داخل ہوجائے ؟ کون سا وکیل ہے جو ایل ایل بی کرنے بعد ایک بار پھر ایل ایل بی کرنے لگے ؟یہ سوچ انسانی فطرت کے بھی خلاف ہے مگر خان صاحب ایسا کرنے پر بضد تھے تو انہیں کون منع کرسکتا تھا۔ کم از کم تحریک انصاف میں تو کوئی اتنی قد آور شخصیت نہیں جو اپنے چیئرمین کو ٹوک سکے یا اصلاح کرسکے۔
میں سمجھتا ہوں اس ضمن میں دو قوانین بنائے جانے چاہئیں۔ اول: کسی بھی امیدوار کو دوحلقوں سے زیادہ الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور دوسرے حلقے سے الیکشن لڑنا بھی مشروط ہو کہ دونوں حلقوں سے جیت کی صور ت میں ایک نشست چھوڑنے پر امیدوار کو ضمنی الیکشن کا آدھا خرچہ برداشت کرنا ہوگا۔ دوم: ایک ایوان کا ممبر ہوتے ہوئے اسی ایوان کے لیے دوبارہ انتخاب لڑنے کی ممانعت ہو۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے 1996ء میں دو سیٹوں سے زائد پر الیکشن لڑنے پر پابندی لگادی تھی اور 17 جون 2022ء کو وہاں کے الیکشن کمیشن نے بھارتی سرکار کو خط لکھ کر مشورہ دیا ہے کہ دوحلقوں سے الیکشن لڑنے کی اجاز ت بھی ختم کی جائے یا پھر اسے بھاری جرمانے سے مشروط کیا جائے۔ بھارتی الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ دوحلقوں سے الیکشن لڑنا جمہوریت کے منافی ہے اور قومی خزانے پر بوجھ بھی۔ شہباز حکومت کو سوچنا ہوگا کہ ہم اس معاملے میں بھارت سے پیچھے کیوں ہیں ؟ اگر یہ قانون سازی نہ کی گئی تو ہماری آنے والی نسلیں ہمارا مواخذہ ضرور کریں گی کیونکہ دنیا اس کی عزت کرتی ہے جس کی معیشت مضبوط ہو۔ جن قوموں کی انائیں اور سیاسی ترجیحات ملکی مفادات سے بالاتر ہوتی ہیں‘ ان قوموں کے معاشی حالات کبھی ٹھیک نہیں ہوتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں