ایک معافی اور …

انسان بھیڑیوں کی چیخوں اور سانپوں کی پھنکاروں سے دور‘ بہت آگے نکل جائے تو اسے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ خطرے کا ناگ پھن پھیلائے ہمہ وقت اس کے تعاقب میں ہوتا ہے۔ اگر قیدی سلاسلِ زنداں کو توڑ کر غلامی کا طوق اتار پھینکے اور پھر اُسے انجانا خوف واپس جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے جائے تو ایسے شخص کو کیا کہیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ غاروں میں اُگی جھاڑیوں سے پھلوں کی آرزو کرنا ہی عبث ہے اور یہی ہمارا آج کا المیہ ہے۔ پاکستانی قوم کا قصور صرف یہ ہے کہ اس نے قید خانوں کے روشن دانوں سے سرسبز وادیوں اور نیلے آکاش میں جھانکنے کی سعی کی ہے۔ اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے آزاد فضا میں سانس لینے کی خواہش کی ہے مگر کیا یہ آرزو پوری ہو گی؟ گزشتہ سات ماہ سے میرے ہم وطنوں میں سب سے مقبول نعرہ ''کیا ہم غلام ہیں؟‘‘ تعبیر سے روشناس ہو سکے گا؟
سابق وزیراعظم عمران خان نے پوری قوم کو امریکہ مخالف بیانیے پر لگا کر خود ایک بار پھر یوٹرن لے لیا ہے۔ عمران خان نے برطانوی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں سائفر بیانیے کو ماضی کا حصہ قرار دیتا ہوئے کہا کہ ''میرے خیال میں سازش کا بیانیہ گزر چکا‘ اب وہ پیچھے رہ گیا ہے۔ میں اب امریکہ پر الزامات نہیں لگاتا۔ دوبارہ وزیراعظم بنا تو امریکہ سے اچھے تعلقات رکھنا چاہوں گا۔ یوکرین پر حملے سے ایک روز پہلے دورۂ روس باعثِ ندامت تھا‘‘۔ چلیں! دیر آید درست آید۔ خان صاحب کو اپنی غلطی کا احساس تو ہوا۔ عین ممکن ہے کہ اس اعتراف کے بعد ان کے فالورز امریکہ مخالف نعرے لگانے سے باز رہیں اور موجودہ حکومت کو ''امپورٹڈ‘‘ کہنا بھی بند کر دیں۔ یہی نہیں‘ جو لوگ عمران خان کے دورۂ روس کو ''آزاد خارجہ پالیسی‘‘ سے تشبیہ دے رہے تھے‘ شاید وہ بھی تھوڑے شرمسار ہوں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کے سازشی بیانیے سے خارجہ پالیسی کے محاذ پر ملک کا جو نقصان ہوا‘ اس کا ازالہ ہو سکے گا یا نہیں؟ امریکہ بھی ماضی کو بھول کر عمران خان کو خوش آمدید کہے گا یا نہیں؟ اس یوٹرن کے بعد سابق وزیراعظم کو دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے مزید کتنے یوٹرنز لینا پڑیں گے؟ اور سب سے بڑھ کر‘ عمران خان نے امریکی سازشی بیانیے کے تابوت میں آخری کیل کیوں ٹھونکی؟ ابھی تو الیکشن کی تاریخ کا بھی اعلان نہیں ہوا‘ پھر ایسا کیا ہوا کہ انہیں ایسا کرنے کی ضرورت پیش آئی؟
عمران خان کے بیان کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو انہوں نے انتہائی ضروری کام کیا ہے۔ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں انہیں یہ کام کرنا ہی تھا۔ خان صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ جیسے طاقتور ممالک سے تعلقات استوار کیے بنا گزارہ ممکن نہیں۔ وہ اگر دوبارہ وزیراعظم بن جائیں تو ملک کے لیے کچھ بھی بہتر نہیں کر سکتے کیونکہ ہماری معیشت کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ ہمیں ہمیشہ امریکہ، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کی حمایت کی ضرورت رہتی ہے۔ یورپی یونین اور برطانیہ سمیت عالمی مالیاتی ادارے بھی امریکہ کے زیرِ اثر ہیں۔ آپ کی معاشی حالت امریکہ کے ساتھ محاذ آرائی کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یہی آج کا سب سے بڑا اور تلخ سچ ہے اور عمران خان نے بھی اسے بالآخر تسلیم کر لیا ہے۔ خان صاحب کا مذکورہ بیان سیاسی نوعیت کا ہے اور اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ عمران خان سے یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکہ کا ان کی حکومت گرانے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہیں اپنی حکومت کے جانے پر عوام میں کوئی جواز پیش کرنا تھا اور وہ انہیں ''سائفر سازش‘‘ کی صورت میں مل گیا۔ اگر یہ سائفر امریکہ کے بجائے ایتھوپیا سے آتا تو بھی شاید خان صاحب نے اتنا ہی شور مچانا تھا۔ اب وقت گزر چکا ہے اور وہ اپنے بیانیے کا رخ امریکی سازش سے موڑ کر طاقتور حلقوں کی جانب کر چکے ہیں۔ عوام کو بھی اب اس سے کوئی سروکار نہیں کہ خان صاحب کی حکومت کیسے ختم ہوئی تھی۔ اب وہ دیگر جذباتی نعرے لگانے میں مصروف ہیں۔ عمران خان کے پاس اس وقت اپنے اوپر ہوئے قاتلانہ حملے کا مدعا موجود ہے جبکہ ارشد شریف کے قتل کا ایشو بھی وہ شدومد سے اٹھا رہے ہیں۔ شہباز حکومت کی معاشی میدان میں ناکامیاں بھی انہیں ایندھن مہیا کر رہی ہیں اور تحریک انصاف کے رہنماؤں پر ہونے والا مبینہ تشدد بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ دیکھا جائے تو اس وقت عمران خان کے پاس عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے اور انہیں اپنی جانب متوجہ رکھنے کے لیے اتنا کچھ ہے کہ انہیں سائفر والے بیانیے پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اسی لیے انہوں نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے 'یوٹرن‘ لے لیا ہے۔ کیا خان صاحب کے بعد ان کے پارٹی رہنما‘ پارٹی ورکرز‘ ووٹرز اور سپورٹرز بھی امریکی مخالفت میں جو کچھ کہتے اور کرتے رہے ہیں‘ اس پر اظہارِ افسوس کریں گے؟
عمران خان امریکی سازش کے بیانیے کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں تو کیا عوام کو بھی سب کچھ بھول جانا چاہیے؟ میرے نزدیک سائفر کے معاملے پر یوٹرن لینا اتنا سادہ نہیں جتنا بظاہر لگ رہا ہے۔ اس بیانیے سے تین اور بیانیے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ اگر عمران خان نے ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ان کی حکومت کے گرانے میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں تو پھر اُن ایم این ایز اور اتحادی جماعتوں کا کیا قصور ہے جن پر الزام لگایا گیا کہ وہ ''بک گئے‘‘۔ کیا ان کی بھی کوئی دادرسی ہو گی؟ کیا ان سے بھی دست بستہ معافی مانگی جائے گی یا نہیں؟ اگر امریکی سازشی بیانیہ غلط تھا تو شہباز شریف کی حکومت کو امپورٹڈ کیوں کہا جاتا ہے؟ موجودہ حکومت کو 'امریکی غلام‘ بنا کر کیوں پیش کیا گیا؟ اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ مقتدر حلقوں بارے جو زبان استعمال کی گئی کیا اس پر بھی خفت کا اظہار کیا جائے گا؟ اس حوالے سے کیا کچھ نہیں کہا گیا؟ ہینڈلرز سے لے کر میر صادق اور میر جعفر تک کی کہانی سب کے سامنے ہے۔ اگر عمران خان امریکہ سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں تو پھر سیاسی جماعتوں، وفاقی حکومت اور طاقتور حلقوں سے ورکنگ ریلیشن شپ کیوں قائم نہیں کیا جا رہا؟ کیا ان کا قصور امریکہ سے بھی بڑھ کر ہے؟ کیا ملک میں سیاسی استحکام کے لیے عمران خان اتنی سی قربانی بھی نہیں دے سکتے؟
محبت اور نفرت میں کیا گیا تجزیہ جذباتی ہوتا ہے‘ حقیقت پسندانہ نہیں۔ سیاسی بیانیے کبھی بھی زمینی حقائق کے مطابق نہیں ہوتے۔ نجانے کیوں عوام سیاستدانوں کو مسیحا سمجھ بیٹھتے ہیں اور ان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ عوام اتنے بھولے اور سادہ ہوتے ہیں کہ انہیں ادراک ہی نہیں ہو پاتا کہ سیاستدان سیاست کر رہے ہوتے ہیں اور جب سیاسی مفادات کا ریلہ آتا ہے تو جذبات کے سارے بند ٹوٹ جاتے ہیں۔ عوام کی خواہشات کی گٹھڑی پانی میں بہہ جاتی ہے اور سیاستدان دور کھڑے تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت امریکہ نے گرائی تھی نہ مقتدرہ نے۔ وہ قانونِ فطرت کا شکار ہوئے تھے۔ جیسا کرو گے‘ ویسا بھرو گے۔ ہو سکتا ہے ان کی نیت ٹھیک ہو مگر اس حقیقت سے کون منہ پھیرسکتا ہے کہ وہ میاں نواز شریف اور طاقتور حلقوں کی لڑائی میں استعمال ہوئے تھے۔ انہوں نے نواز شریف کے لیے گڑھا کھودا تھا اور بعد ازاں وہ خود بھی اس میں گر گئے۔ اب پچھتاوا کس بات کا؟ میری ناقص رائے میں خان صاحب کو اب اس تلخ حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے۔ ا س سے ان کی عزت میں اضافہ ہو گا۔ انہوں نے پرویز مشرف کا ریفرنڈم میں ساتھ دینے پر قوم سے معافی مانگی تھی۔ قوم نے انہیں نہ صرف معاف کیا بلکہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بھی لا بٹھایا۔ اب اگر خان صاحب ایک معافی اور مانگ لیں تو شاید یہ معافی ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو توانا کرنے کا سبب بنے۔ اگر وہ یہ قدم اٹھانے میں کامیاب ہو گئے تو پھرکوئی ان کو ہرا نہیں سکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں