اک بار پرندوں کو حکومت دے دو

انسانی تاریخ معاشرتی قوت کے بے قابو ہونے کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہلاکو اور چنگیز خان سے لے کر ہٹلر اور سٹالن تک اس قوت کے بے پایاں ہونے کے نمونے ہیں۔ انقلابِ فرانس ہو‘ انقلابِ روس یا پھر برصغیر میں ہونے والی خون ریزی‘ یہ تمام واقعات معاشرتی قوت کے لامحدود ہونے کی مثالیں ہیں۔ جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ وہ سوسائٹی کی قوت کو نہ تو مرتکز ہونے دیتی ہے اور نہ بے قابو۔ مگر وہ زمانہ‘ جب جمہوریت اپنے قابلِ رشک امتیاز سے محرو م ہو کر محض رسم بن جائے‘ بڑے کرب کا زمانہ ہوتا ہے۔ اس میں باہمی احترام، اخلاق اور رواداری جیسی اقدار مفقود ہو جاتی ہیں اور جنگل کا قانون انسانی معاشرے میں رائج ہو جاتا ہے۔ قومی مفادات پر سیاسی اور ذاتی مفادات حاوی ہو جاتے ہیں اور انسان وہی کرتا ہے جس میں اس کا ذاتی فائدہ ہوتا ہے۔ قوم و ریاست پیچھے رہ جاتی ہیں اور ہر گروہ اپنی حکمرانی قائم کرنے کی جستجو میں مگن نظر آتا ہے۔ پھر اس خواہش کی تکمیل کے لیے اسے کچھ بھی کرنا پڑے‘ وہ گریز نہیں کرتا۔ یہ کٹھن اور جان لیوا لمحات قوموں کی زندگیوں میں بار بار آتے ہیں۔ ہمیں بھی ان دنوں سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ سٹیک ہولڈرز نے غفلت کی چادر تان رکھی ہے۔ عوام کے دکھ اور تکلیف کا کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ داغ دہلوی یاد آتے ہیں:
دل دے تو اس مزاج کا پروردگار دے
جو رنج کی گھڑی بھی خوشی سے گزار دے
انقلابِ ایران کے معمار ڈاکٹر علی شریعتی کا قول ہے ''سیاست منزل تک پہنچنے کے لیے راستہ بدلنا سکھاتی ہے مگر انقلاب کا راستہ اٹل ہوتا ہے۔ جو ایک بار انقلاب کی راہ پر چل پڑے پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے راستہ بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتی‘‘۔ سابق وزیراعظم عمران خان ڈاکٹر علی شریعتی کے بہت بڑے معترف ہیں، انہوں نے ضرور مذکورہ قول پڑھا ہو گا مگر نجانے کیوں وہ اس پر عمل نہ کر سکے۔ خان صاحب کا آزادی مارچ انقلاب کا پیش خیمہ تھا پھر نجانے کیوں انہوں نے منزل سے چند فرلانگ دور پہنچنے پر ارادہ بدل لیا؟ اگر اسلام آباد نہیں جانا تھا تو عوام کو تین ماہ سے وعدوں اور امیدوں کی چکی میں کیوں پیسا گیا؟ اگر راولپنڈی میں جلسہ ہی کرنا تھا تو پھر ملک بھر سے لوگوں کو آنے کی دعوت کیوں دی گئی؟اس سے قبل بھی خان صاحب ساٹھ سے زائد جلسے کر چکے ہیں۔ صرف ''آخری جلسے‘‘ کے لیے اتنا زور کیوں لگایا گیا؟ مطلوبہ تعداد میں لوگ اکھٹے نہ ہونے کے باعث حکمت عملی کو تبدیل کیا گیا یا وجہ کچھ اور تھی؟ لانگ مارچ کے اختتام پر پی ٹی آئی کے ورکرز میں مایوسی ضرور پھیلی ہو گی کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ عمران خان اسلام آباد کی جانب قدم بڑھائیں گے تو وفاقی حکومت رخصت ہو جائے گی مگر ان کی خواہشات پر اوس پڑ گئی۔ حیدر علی آتش کا شعر ملاحظہ کریں:
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ خان صاحب نے حکمتِ عملی تبدیل نہیں کی بلکہ منصوبے کی ناکامی کے باعث پلان بی پر عمل کیا۔ ان کا لانگ مارچ نئے انتخابات سے زیادہ اہم تعیناتی کے لیے تھا مگر ان کی مراد پوری نہ ہو سکی۔ جو ہوا‘ آئین و قانون کی منشا کے مطابق ہوا۔ لانگ مارچ کے ذریعے حکومت گرانے کا اختیار پہلے کسی کے پاس تھا نہ آئندہ ہو گا۔ اگر یہ رِیت چل پڑی تو کوئی حکومت بھی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکے گی۔ پاکستان میں پریشر گروپس کی کمی نہیں ہے۔ بہت سی سیاسی اور غیر سیاسی جماعتیں ہیں جن کے لیے لوگ اکٹھے کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ صد شکر کہ خان صاحب کو بھی معاملے کی نزاکت کا احساس ہو گیا اور انہوں نے اسلام آباد کا گھیرائو کرنے کے ارادے پر یوٹرن لے لیا۔ اس سے قبل بھی خان صاحب درجنوں یوٹرنز لے چکے مگر یہ ایسا یوٹرن ہے جو قابلِ تعریف بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہے تھے ویسے ویسے بند گلی ان کا استقبال کر رہی تھی۔ اب راستہ صرف واپسی کا تھا۔ انہوں نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا ارادہ ظاہر کیا اور لانگ مارچ ختم کر دیا۔ خان صاحب نے یہ ارادہ غیر مشروط طور پر نہیں بلکہ مشاورت سے مشروط کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں خان صاحب کے ارادے کو مطلوبہ حمایت نہ ملے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ محمود خان اور چودھری پرویز الٰہی‘ دونوں وزرائے اعلیٰ مل کر خان صاحب کو اسمبلیاں نہ توڑنے پر قائل کر لیں۔ قانونی بندشوں سے قطع نظر‘ میرے نزدیک پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑنا موجودہ حالات میں مناسب فیصلہ نہیں۔ وفاقی حکومت کے ہوتے دونوں صوبوں میں الیکشن کا مطلب ہے کہ آپ پلیٹ میں رکھ کر حکومت اپنے مخالفین کو دے دیں اور اگر آپ جیت گئے تو بھی نیا کیا ہو گا؟ پہلے بھی تو دونوں حکومتیں آپ ہی کے پاس ہیں۔ اس وقت عمران خان کا مقصد وفاقی حکومت کا حصول ہے اور یہ مقصد صوبائی اسمبلیاں توڑنے سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
اس میں کیا شبہ ہے کہ عمران خان اس وقت مقبولیت کے بامِ عروج پر ہیں۔ ان کی جماعت الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں بھی ہے مگر دِقت یہ ہے کہ آئینی طور پر جنرل الیکشن ابھی دس ماہ دور ہیں۔ اُس وقت صورتحال کیا ہو گی‘ اس بارے قیاس آرائی مشکل امر ہے۔ ممکن ہے کہ تب تک میاں نواز شریف واپس آکر الیکشن لڑنے کے لیے اہل ہو چکے ہوں‘ اس وقت عمران خان کے خلاف کیسز کی پوزیشن کیا ہو گی؟ اگر انہیں کسی کیس میں سزا سنا دی گئی تو پھر سیاسی حالات کیا کہانی بیان کریں گے؟ تب تک وفاقی حکومت مہنگائی کے باعث مزید غیر مقبول ہو چکی ہو گی یا معیشت مستحکم ہو رہی ہو گی‘ یہ بھی ایک بڑا سوال ہے۔ اگلے سال تک صورتحال جو بھی ہو‘ خان صاحب کو انتظار کرنا چاہیے۔ ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے ورنہ معیشت کسی طور ٹھیک نہیں ہو گی۔ اس وقت معاشی بدحالی جس نہج پر پہنچ چکی ہے اگر اس میں اضافہ ہوا تو الیکشن جیتنے کے بعد بھی عمران خان کے لیے حکومت چلانا ممکن نہ ہو گا۔ خدارا! ملک پر رحم کھائیں، ملک پر ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلا رہا ہے، زرِمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ پٹرول اور ڈیزل معاشی سکت سے باہر ہیں اور گیس نایاب۔ مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ کاروبار تنزلی کی جانب گامزن ہیں۔ سیاست، اقتدار اور حکمرانی معاشی استحکام کے ساتھ جڑے ہیں‘ اگر ہم نے دانش، فہم اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہ کیا تو آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
کیا پی ٹی آئی کو احساس نہیں کہ ملکی معیشت ضمنی انتخابات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ الیکشن کمیشن نے واضح کر دیا ہے کہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے پر صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں الیکشن ہوں گے۔کسی بھی صوبائی حلقے میں الیکشن پر پانچ سے سات کروڑ خرچ آئے گا اور یوں پنجاب اور کے پی میں کل خرچ بائیس ارب سے زائد ہو گا۔ یقینا یہ حالات معیشت کو پاتال میں دھکیل دیں گے۔ اگر خان صاحب الیکشن کے لیے سنجیدہ ہیں تو صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے کے بجائے وفاق کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کریں۔ باوثوق ذرائع سے اطلاعات ملی ہیں کہ وفاقی حکومت مئی میں الیکشن کروانے پر غور کر رہی ہے۔ حکومتی اتحاد کو یہ بھی ڈر ہے کہ گرمیوں میں وہ بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو نہ پا سکے گی تو پھر کیا ہو گا۔
اس سیاسی کشاکش میں عباس تابش یاد آتے ہیں:
یار اک بار پرندوں کو حکومت دے دو
یہ کسی شہر کو مقتل نہیں ہونے دیں گے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں