اینگلو سیکسن ممالک اور عمران خان

سیاست نہیں‘ یہ اناؤں کا تصادم ہے اور غلبہ پانے کی آرزو۔ سیاست ہوتی تو خلقِ خدا پر گراں نہ گزرتی۔کچھ طبقات کی بے لگام حسرتوں اور بے پناہ تمناؤں کو سیاست کہنا عبث ہے۔ اقتدار کی خواہش بڑھ جائے تو کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ عقل ماؤف ہوجاتی ہے، دانائی، منطق اور بصیرت کی شمعیں بجھنے لگتی ہیں۔ جذباتیت، کم فہمی اور لاعملی کے دور کو دوام ملتا ہے۔ ملک کی ساکھ پر حرف آئے یا قوم کی شہرت داغدار ہو‘ معیشت کی سانسیں بند ہونے لگیں یا عوام کے بنیادی حقوق پامال ہوں‘ اہلِ سیاست کی اقتدار کے لیے بے تابیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
عنبرین صلاح الدین کا شعر ملاحظہ کریں:
الجھتی جاتی ہیں گرہیں ادھورے لفظوں کی
ہم اپنی باتوں کے سارے اگر مگر کھولیں
ایک ایک کر کے تمام رازوں سے پردہ اٹھ رہا ہے اور وہ ساری وجوہات سامنے آ رہی ہیں کہ جن کے باعث عمران خان کی حکومت کو چلتا کیا گیا۔ یہ امریکہ کا کوئی 'رجیم چینج آپریشن‘ تھا اور نہ ہی اس کام کے لیے پیسہ چلایا گیا۔ اس کی تین بنیادی وجوہات تھیں جن کا خان صاحب نے اپنے قول و فعل سے خود اقرار کیا ہے۔ اول: خان صاحب نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ''پارلیمانی جمہوریت پاکستان جیسے ممالک میں ناکام رہی ہے۔ یہ صرف اینگلو سیکسن ممالک میں کامیاب ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کی کامیابی کے لیے اخلاقیات کا معیار بہت اوپر ہونا چاہیے۔ وہاں ممبران اسمبلی کو لوٹا بنایا جا سکتا ہے نہ ضمیر خریدے جا سکتے ہیں۔ ان ممالک میں کوئی غلط کام کر کے عوامی ردعمل کا سامنا نہیں کر سکتا‘‘۔ میری دانست میں خان صاحب کی پارلیمانی جمہوریت بارے رائے ان کی اقتدار کی رخصتی کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ جب وہ وزیراعظم بنے تو ان کی حکومت منہ زور مسائل کا سامنا نہ کر سکی۔ معیشت ان کے کنٹرول سے باہر تھی اور گورننس نہ ہونے کے برابر۔ میں سمجھتا ہوں کہ خان صاحب کو اپنی حکومت کی ناکامیوں کے لیے کوئی عذر چاہیے تھا اور انہوں نے اس کا سارا ملبہ پارلیمانی جمہوریت پر ڈالنا شروع کر دیا۔ وہ صدارتی نظام کے داعی بن گئے اور اپنے قریبی حلقوں میں اس کا چرچا کرنے لگے۔ کبھی وہ اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کی بات کرتے اور کبھی یک جماعتی نظام لانے کی خواہش کا اظہار کرتے۔ کبھی چین کے سیاسی نظام کی تعریف کرتے تو کبھی ملائیشیا اور سعودی عرب کے نظامِ حکومت کو اپنانے کا ذکر ان کے لبوں پر آ جاتا۔ خان صاحب کی پارلیمانی نظام بارے رائے جب اپوزیشن تک پہنچی تو کھلبلی مچ گئی۔ انہیں مستقبل کا منظر نامہ واضح دکھائی دینے لگا۔ مشاورت کے بعد اپوزیشن جماعتیں اس نتیجے پر پہنچیں کہ اگر پارلیمانی نظام کو بچانا ہے تو عمران حکومت کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ عمران خان پارلیمانی نظام کے اتنے خلاف کیوں ہیں؟ آخر کون سا اختیار تھا جو بطور وزیراعظم ان کے پاس نہیں تھا؟ آخر ایسی کون سی کشش ہے جو انہیں صدارتی نظام کی جانب کھینچتی ہے؟ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ 2015ء میں سپریم کورٹ نے آئین میں اکیسویں ترمیم کے حوالے سے فیصلہ دیا تھا کہ آئین کی شق 238 اور 239 کے تحت حکومت کو اختیا ر حاصل ہے کہ وہ آئین میں تبدیلی کر سکتی ہے مگر یہ اختیار لامحدود نہیں ہے۔ آئین کا بنیادی ڈھانچہ پانچ چیزوں پر مشتمل ہے اور ساری قانون ساز اسمبلی مل کر بھی اسے تبدیل نہیں کر سکتی۔ (1) عوام کے بنیادی حقوق (2) اسلامی تشخص (3) عدلیہ کی آزادی (4) پارلیمانی نظام حکومت (5) فیڈریشن۔ اگر کوئی سیاسی جماعت ان پانچ نکات میںتبدیلی کی خواہاں ہے تو اسے الیکشن سے قبل نظام کی تبدیلی کو اپنے منشور کا حصہ بنانا ہو گا۔ عوام اگر اسے اس بنیاد پر ووٹ دیں تو اس کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی آئین ساز کہلائے گی۔ پھر اس اسمبلی کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کر سکے۔ میری نظر میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔ اگر عمران خان پارلیمانی نظامِ حکومت کے ناقد ہیں اور اسے صدارتی نظام میں بدلنا چاہتے ہیں تو انہیں پہلے مذکورہ ریاضت کرنا ہو گی‘ پھر ہی ان کا صدارتی نظام رائج کرنے کا خواب پورا ہو سکے گا۔
عمران خان کی حکومت کے خاتمے کی دوسری وجہ بہت اہم ہے۔ خان صاحب متعدد انٹرویوز اور تقریروں میں کہہ چکے ہیں کہ بطور وزیراعظم نیب ان کے کنٹرول میں نہیں تھا بلکہ اسے کہیں اور سے قابو کیا جا رہا تھا۔ اگر نیب کا اختیار ان کے پاس ہوتا تو میاں نواز شریف اور مریم نواز کی طرح اپوزیشن کے اکثر رہنماؤں کو سزا ہو چکی ہوتی۔ خان صاحب بالکل درست فرماتے ہیں۔ یہی وہ وجہ تھی جسے بھانپ کر اس وقت کی اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کا ڈول ڈالا ورنہ سچ تو یہ ہے کہ میاں نواز شریف تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ پی ٹی آئی سرکار اپوزیشن کے تمام بڑے رہنماؤں کو سزا دلوانے پر تلی ہوئی ہے اور چاہتی ہے کہ اگلے الیکشن سے قبل ہی شہباز شریف، حمزہ شہباز، رانا ثناء اللہ، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، آصف علی زرداری اور خورشید شاہ سمیت دیگر رہنماؤں کے کیسز کا فیصلہ ہو جائے تاکہ وہ 2023ء کے الیکشن کی ریس سے باہر ہو جائیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر عمران حکومت کی کارکردگی بھلے کیسی بھی ہو‘ عوام کے پاس پی ٹی آئی کو دوبارہ ووٹ دینے کے علاوہ کوئی چوائس ہی نہیں رہے گی۔ جب یہ اطلاعات میاں برادران اور آصف علی زرداری تک پہنچیں تو وہ تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے متحرک ہو گئے اور پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ مبینہ طور پرعمران خان سے حقِ حکومت چھیننے کی تیسری وجہ نومبر کی تعیناتی تھی۔ عمران خان کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ وقت سے پہلے ہی ذہن بنا چکے تھے کہ انہوں نے کس کو تعینات کرنا ہے۔ اسی دوران عمران خان نے گزشتہ سال ایک اہم تعیناتی کو لے کر سمری روکے رکھی۔ ڈیڑھ ماہ سے زیادہ انتظار کرایا گیا۔ یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ اس کے بعد ہی فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ حکومت کی خواہش پر کوئی ایسا کام نہیں کیا جائے گا جس کی آئین اجازت نہیں دیتا۔ اس کے بعد عمران حکومت کی پشت پناہی ترک کر دی گئی اور حکومت اوندھے منہ زمین پر آ گری۔ عمران خان نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور وفاقی حکومت گرانے کے لیے دو بار لانگ مارچ کیا مگر بے سود۔ یہ تعیناتی ہوتے ہی لانگ مارچ ختم ہو گیا اور خان صاحب کے فیورٹ گھر چلے گئے۔ مجھے ادراک ہے کہ عمران خان کے چاہنے والے اس بات کو شکوک کی نظروں سے دیکھیں گے اور ایک مفروضہ سمجھیں گے کیونکہ وہ عقیدت کے اس مقام پر ہیں جہاں ہر عمل اچھا دکھائی دیتا ہے۔ راز یزدانی یا د آتے ہیں:
سزا کے جھیلنے والے یہ سوچنا ہے گناہ
کوئی قصور بھی تجھ سے کبھی ہوا کہ نہیں
اب کھیل تمام ہو چکا۔ اب کسی کو میر جعفر، میر صادق ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بے وقت کی راگنی ہو گی۔ تیسری دنیا کے ممالک کی نفسیات ہے کہ جانے والے کو برا بھلا کہا جاتا ہے اور آنے والے کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ اینگلو سیکسن ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں چڑھتے سورج کے پچاری نہیں ہوتے۔ وہاں غلط کو غلط اس کے منہ پر کہا جاتا ہے‘ جانے کے بعد نہیں۔ ہمیں اچھائی کو اپنانے میں سلیکٹو نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اینگلو سیکسن ممالک سے سیکھنا چاہیے کہ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کیسے کہا جاتا ہے۔ رخصت ہونے کے بعد کسی کو برا بھلا کہا تو کیا کہا ؟ اسے بہادری نہیں‘ بزدلی کہا جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں