اور کتنے یوٹرن ؟

زبان شخصیت کا تالا ہے۔ تالا کھلتا ہے تو انسان بے نقاب ہو جاتا ہے۔ کھوٹا‘ کھرا صاف دکھائی دینے لگتا ہے۔ سچ اور جھوٹ کی پہچان آسان ہو جاتی ہے۔ حق اور باطل کی گرہیں کھل جاتی ہیں۔ انسان جتنا زیادہ بولتا ہے‘ اپنی ذات کی قید سے آزاد ہوتا جاتا ہے اور عوامی عدالت میں اس کا محاسبہ ہونے لگتا ہے۔ سچ کو پذیرائی ملتی ہے اور جھوٹ کو ندامت۔ حقیقت کو دوام ملتا ہے اور پروپیگنڈا کے حصے میں گمنامی آتی ہے۔
انسانی نفسیات کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ انسان ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد ہوتا ہے تو بولنے کا بھار اٹھا لیتا ہے۔ کبھی کبھار تو اتنا بولتا ہے کہ غیر ضروری لگنے لگتا ہے اور اپنے ہی اعمال کی نفی کرتا محسوس ہوتا ہے۔ وہ کبھی ماضی سے جان چھڑانے کی آرزو کرتا ہے اورکبھی گزرے وقت کی تلخیوں کو اپنی مظلومیت ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ جیسا دیس‘ ویسا بھیس۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے طرزِ سیاست کا بغور جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سب سے بڑی ''خوبی‘‘ یہ ہے کہ وہ وقت اور حالات کے مطابق موقف بدلنے پر ملکہ رکھتے ہیں۔ خان صاحب اقتدار میں ہوتے ہیں تو ان کے دلائل مختلف ہوتے ہیں اور اپوزیشن کے دنوں میں ان کی منطق تبدیل ہو جاتی ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ ان کی خوبی ہے یا خامی۔ یہ طاقت ہے یا کمزوری۔ ان کی شخصیت کا منفی پہلو ہے یا مثبت۔ البتہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں وہ یہ کہ لاکھوں پاکستانیوں کو ان کی یہ عادت‘ یہ طرزِ سیاست پسند ہے۔ وہ جب تک کسی معاملے پر اپنے موقف سے رجوع نہ کریں‘ یا عرفِ عام میں یوٹرن نہ لیں‘ لوگوں کو مزہ ہی نہیں آتا۔ کچھ افراد اس رویے پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں اور کچھ دفاع میں آخری حد تک جانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ کسی کو لگتا ہے کہ یہ دانش، حکمت اور سیاسی فہم کی معراج ہے اور کسی کے نزدیک سیاسی چال۔
عمران خان واحد سیاستدان نہیں ہیں جنہیں پاکستانیو ں کا یہ روپ دیکھنے کو ملا ہے۔ ان سے قبل بھی کئی سیاستدانوں کو ایسے ہی حامیوں کا سامنا تھا۔ جو ان کی ہر بات کو جائز سمجھتے تھے۔ ان کا کہا حرفِ آخر ہوتا تھا۔ وہ دن کہتے تھے تو ان کے چاہنے والوں کو دن لگتا تھا اور اگر رات کہتے تو سب کو رات نظر آتی تھی۔ ان سیاسی رہنمائوں کو ناقدین کی کمی نہیں تھی مگر وہ کسی کی پروا ہی کب کرتے تھے۔ عمران خان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کے فالورز انہیں دل سے چاہتے ہیں۔ ان کے ہر یوٹرن کو ضروری اور ہر غلطی کو خطا سمجھتے ہیں۔ چلیں! عمران خان کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد ان کے بدلے ہوئے کچھ موقف یعنی چند معروف یوٹرنز کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
عمران خان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ باجوہ صاحب کو توسیع دینا ان کی غلطی تھی۔ خان صاحب جسے آج غلطی قرار دے رہے ہیں‘ یہ کل تک ان کا کارنامہ تھا۔ وہ اس کا دفاع کرتے نہیں تھکتے تھے۔ اگر کوئی اس 'کارنامے‘ کے خلاف دلائل دیتا تھا تو اس کے خلاف محاذ کھول لیا جاتا۔ خان صاحب نے صرف ایکسٹینشن نہیں دی بلکہ انہوں نے اسے باقاعدہ قانون بنا دیا جس کے تحت دو بار تک توسیع دی جا سکتی ہے۔ یہ قانون عمران خان کے دور سے پہلے موجود نہیں تھا۔ کیا عمران خان‘ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی طرح اس قانون سازی کو غلط قرار دیں گے؟
عمران خان نے چند روز پہلے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان جس انداز میں ہوا‘ اس سے صاف لگ رہا تھا کہ انہوں نے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی۔ اب جب مشاورت مکمل ہو چکی ہے تو خان صاحب اس موقف سے بھی پیچھے ہٹتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی دلیل نظر آتی ہے۔ چودھری صاحب نے مشورہ دیا ہے کہ صوبائی حکومتیں ختم مت کریں‘ اگر ایسا کیا تو تین ماہ کے لیے آپ کے پاس کوئی سکیورٹی نہیں ہو گی۔ وفاقی حکومت آپ کو کسی مقدمے میں گرفتار بھی کر سکتی ہے جبکہ ایم پی ایز کا کہنا ہے کہ خان صاحب اس وقت بنا سہارے کے چلنے پھرنے سے قاصر ہیں جس کے باعث وہ انتخابی مہم میں بھرپور حصہ بھی نہیں لے سکتے۔ اس لیے فی الوقت اسمبلیاں توڑ کر الیکشن کرانے کا رسک نہیں لینا چاہیے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان باضابطہ طور پر اس موقف سے پیچھے ہٹنے کا اعلان کرنا چاہ رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت کو مشروط مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وفاق قبل از وقت انتخابات پر راضی ہو جائے تو اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جائیں گی۔ میری اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ن) مئی کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں الیکشن کرانے کی خواہاں ہے مگر اتحادی نہیں مان رہے۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات کامیاب ہو جائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مسلم لیگ (ن) اتحادیوں کی ناراضی مول نہ لے۔ دیکھئے‘ مذاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
عمران خان پہلے تحریک عدم اعتماد کو امریکہ کا رجیم چینج آپر یشن قرار دیتے تھے مگر اب انہوں نے اپنی توپوں کا رخ مقتدر حلقوں کی جانب موڑ دیا ہے۔ وہ امریکہ کے ساتھ تو دوستی کے خواہاں ہیں مگر سابق دوستوں کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کی جماعت نے کچھ اہم شخصیات کی طاقت مدہم پڑتے ہی ان پر چڑھائی شروع کر دی ہے۔ خان صاحب نے یہاں تک کہا کہ ان کے ساتھ ڈبل گیم کی جا رہی تھی‘ ان کے پاس اس وقت بھی اطلاعات تھیں کہ انہیں ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ اگر یہ سب کچھ درست ہے تو پھر انہوں نے سات ماہ خاموشی کیوں اختیار کیے رکھی؟ انہوں نے امریکہ کو اس کا موردِ الزام کیوں ٹھہرایا؟ خارجہ تعلقات میں رخنہ کیوں ڈالا گیا؟ اور سب سے بڑھ کر‘ عوام کو بیرونی سازش کے پیچھے کیوں لگایا گیا؟
خان صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ یوکرین جنگ کے دوران روس جانا غلطی تھی۔ اچھا ہے کہ انہیں اس کا ادراک تو ہوا‘ ورنہ وہ اب تک اس دورے کو آزاد خارجہ پالیسی سے تشبیہ دیتے آئے تھے اور یہی کہتے تھے کہ ہم امریکہ کے غلام نہیں ہیں کہ ان کی مرضی سے چلیں۔
خان صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنا ان کا غلط فیصلہ تھا۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ان کی حکومت نے معزز جج کے خلاف طاقت کا استعمال کیا تھا‘ ان کے خاندان پر بھی طرح طرح کے الزامات لگائے گئے تھے۔ کیا خان صاحب بتائیں گے کہ محض غلطی مان لینے سے مذکورہ خاندان کے کرب اور ان کی اذیتوں کا مداوا ہو جائے گا؟
ایک زمانہ تھا خان صاحب ایم کیو ایم کے وزرا کو ''نفیس ترین لوگ‘‘ کہا کرتے تھے مگر اقتدار کی کرسی سے الگ ہونے کے بعد کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا وزیر قانون نہیں بنانا چاہیے تھا‘ اس نے ہمیں گمراہ کیا۔
عمران خا ن وزیراعظم تھے تو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی تعریفیں کیا کرتے تھے مگر جیسے ہی الیکشن کمیشن نے سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہونے کی کوشش کی تو خان صاحب چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ہو گئے۔ اب وہ اور تحریک انصاف کے دیگر اکابرین ہر وقت الیکشن کمیشن پر طرح طرح کے الزامات لگاتے رہتے ہیں۔
2018ء کے الیکشن سے قبل خان صاحب نے کہا تھا کہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بناؤں گا مگر انہوں نے اتحادی حکومت ہی بنائی۔ اب ان کا موقف ہے کہ اتحادی حکومت بنانا ان کی غلطی تھی‘ وہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آئندہ بھی انہیں واضح اکثریت نہ ملی تو کیا کریں گے؟ اپوزیشن میں بیٹھیں گے یا ایک بار پھر اس غلطی کو دہرائیں گے؟
2019ء میں عمران حکومت نے میاں نواز شریف کو جیل سے نکال کر علاج کے لیے لندن بھیجا تھا۔ لندن جاتے ہی میاں صاحب کی صحت ٹھیک ہوگئی اور ساتھ ہی عمران خان کا موقف بھی بدل گیا۔ وہ اسے اب ایک فاش غلطی قرار دیتے ہیں۔ شنید ہے کہ عمران خان کی اس غلطی کے سدھرنے کا وقت آ گیا ہے اور میاں نواز شریف کی واپسی اسی ماہ متوقع ہے۔ اگر عمران خان نے اسمبلیاں توڑ دیں تو وہ پنجاب میں الیکشن مہم کو لیڈ بھی کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں