سب کچھ جائے‘ اقتدار نہ جائے

طاقت، اقتدار اور دوسروں پر غلبہ حاصل کرنے کا نشہ لافانی ہے۔ امیر تیمور نے دہلی فتح کیا اور وہا ں کھوپڑیوں کے مینار بنائے۔ وہ شاد تھا‘ بہت شاد۔ اس نے اپنے قریبی ساتھیوں کو مخاطب کرکے کہا: میں صرف فتح کا دن دیکھنے کے لیے لڑائی کو گلے لگاتا ہوں۔ جتنا سکون مجھے جھکے ہوئے سر اور کٹی ہوئی گردنیں دیکھ کر ملتا ہے‘ اتنا سکو ن کہیں اور نصیب نہیں ہوتا۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جس نے ایک بار اقتدار کا مزہ چکھ لیا‘ اس کے بعد اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ بھلے جان چلی جائے مگر اقتدار ہاتھ سے نہ جائے۔ دنیا کے تمام جنگجو اور حکمران اقوامِ عالم پر غالب آنے کی آرزو لے کر میدانِ جنگ میں اترتے تھے اور اسی خواہش کی تکمیل کے لیے لڑتے لڑتے دارِ فانی سے کوچ کر جاتے تھے۔ اقتدار کی رسہ کشی ازل سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی۔ سائنسی ترقی اور جدت نے انسان کو مکمل طور پر بدل دیا ہے مگر طاقت کے حصول کی جبلت تبدیل نہیں ہوئی۔ نئے نئے راستے ایجاد ہو گئے مگر منزل کل بھی وہی تھی اور آج بھی وہی ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے وہی کیا جس کی انہوں نے ٹھان رکھی تھی۔ آخرکار وہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو قائل کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے اور چودھری صاحب نے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کر کے سمری گورنر کو بھجوا دی۔ آگے کیا ہو گا؟ کیا عمران خان کی منشا کے مطابق پنجاب اور کے پی میں الیکشن ہو جائیں گے؟ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کوئی رخنہ ڈالنے کی کوشش تو نہیں کریں گی؟ کیا قانونی طور پر پنجاب اسمبلی کی تحلیل روکنے کا کوئی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے؟ آئین کے تحت نگران سیٹ اَپ لایا جائے گا یا پھر گورنر راج کا کوئی آپشن بھی موجود ہے؟ اگر سیاست دان نگران حکومت بنانے میں ناکام ہوئے تو الیکشن کمیشن کے بنائے گئے نگران سیٹ اَپ پر پی ٹی آئی کو کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا؟ اگر کوئی اعتراض ہوا تو اس کی کوئی اہمیت ہو گی یا نہیں؟ نگران سیٹ اَپ کتنے عرصے کے لیے آئے گا؟ کیا معاشی ایمرجنسی لگا کر اس کی مدت بڑھائی جا سکتی ہے؟ اگر ایسا ہوا تو عمران خان کو سیاسی طور پر اس کا فائدہ ہو گا یا نقصان؟ یہ وہ سوالات ہیں‘ جو اس وقت حکومتی و سیاسی حلقوں میں اٹھائے جا رہے ہیں اور جن کے جوابات آنا انتہائی ناگزیر ہے۔
میری دانست میں پنجاب اسمبلی تحلیل کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خان صاحب کو یہ جذباتی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میری دانست میں اس کی تین وجوہات ہیں۔ اول: معاشی، دوم: انتظامی اور سوم: سیاسی۔ ملک کے معاشی حالات ایسے نہیں ہیں کہ دو صوبوں میں چھ ماہ کے دوران دو بار الیکشن ہوں۔ صوبائی اسمبلی کے صرف ایک حلقے میں الیکشن کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کے پانچ سے سات کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ جب پنجاب اور کے پی کی 412 صوبائی سیٹوں پر الیکشن ہوگا تو یہ خرچ پچیس ارب سے تجاوز کر جائے گا۔ دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہوں گے۔ محتاط اندازے کے مطابق دونوں صوبوں میں انتخابات کا کل خرچ پچاس ارب سے زائد ہو گا۔ اگر تین ماہ بعد دونوں صوبوں میں الیکشن کرائے جاتے ہیں تو پہلے اپریل کے آخر میں قومی خزانے سے یہ خرچہ کیا جائے گا اور دوسری بار اکتوبر کے اختتام پر‘ جب قومی اسمبلی کے انتخابات کرائے جائیں گے۔ اس وقت معیشت کے حالات یہ ہیں کہ بیرونی ادائیگیوں کے پیسے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایل سیز بند ہیں اور ضروری درآمدات بھی نہیں ہو رہیں۔ کبھی کسی ملک کے آگے قرضے کے لیے ہاتھ پھیلائے جا رہے ہیں اور کبھی کسی مالیاتی ادارے کے دروازے پر دستک دی جار ہی ہے۔ کہیں ڈونرز کانفرنس بلائی جا رہی ہے اور کہیں قومی اثاثے بیچنے کی بات ہو رہی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ملک ڈیفالٹ کر رہا ہے اور کبھی بیانیہ بنایا جاتا ہے کہ روپیہ فری فال میں چلا گیا ہے۔ مہنگائی عروج پر ہے اور عوام کو کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کون سا ملک ہو گا جو دو‘ دو بار الیکشن کا خرچہ برداشت کر سکے۔ مشکل معاشی حالات میں ہماری مدد کرنے والے ممالک اس حوالے سے کیا سوچیں گے؟ جو قوم کھانے کو ترس رہی ہو‘ اس کے لیے قبل از وقت الیکشن کسی عیاشی سے کم نہیں۔
اس وقت دیگر صوبوں کے ساتھ ساتھ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتظامی حالات بھی تسلی بخش نہیں ہیں۔ ملک بھر میں آٹے اور گندم کا بحران جاری ہے اور انتظامیہ بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ یہ بحران اس لیے نہیں ہے کہ ملک میں گندم کا شارٹ فال ہے بلکہ یہ بحران انتظامیہ اورصوبائی حکومتوں کی نااہلی کا نتیجہ زیادہ لگتا ہے۔ پاسکو کی رپورٹ کے مطابق ملک میں اپریل تک کے لیے گندم کے وافر ذخائر موجود ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر عوام کو سستا آٹا کیوں میسر نہیں ہے؟ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ سیلاب کے باعث گندم کی آئندہ فصل کم ہونے کا خدشہ ہے اس لیے مافیاز نے پہلے ہی گندم ذخیرہ کر لی ہے تاکہ آئندہ سیزن وہ اسے مہنگے داموں بیچ سکیں۔ دوسری طرف فلور مل مالکان بھی ذخیرہ اندوزی کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ مارکیٹ میں سستے آٹے کو یقینی بنانا کس کا کام ہے؟ منڈیوں میں قیمتوں پر نظر رکھنا کس پر لازم ہے؟ یقینا یہ کام صوبائی حکومتوں کے ہیں‘ وفاق کے نہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد زراعت اور خوراک کی وزارتیں صوبوں کو منتقل ہو چکی ہیں۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پنجاب حکومت اس معاملے میں غافل کیوں رہی ہے اور بحران کو بڑھنے سے روکا کیوں نہیں گیا؟ ضلع کی سطح پر ڈی سی اور اے سی حضرات کیا کر رہے ہیں؟ وہ مافیاز کو روکنے میں ناکام کیوں رہے؟ لوگ شدید ٹھنڈ میں آٹے کے حصول کے لیے لائنوں میں لگے ہیں اور جان سے جا رہے ہیں مگر کسی کو فکر ہی نہیں۔ کئی اضلاع میں تو قرعہ اندازی کے ذریعے آٹا دیا جا رہا ہے مگر ان حالات میں بھی پی ٹی آئی کا سب سے بڑا مسئلہ قبل از وقت الیکشن ہے۔ گاہے خیال آتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب آٹے کے بحران کو کیسے کنٹرول کر سکتے تھے وہ تو گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اپنی کرسی بچانے کی تگ و دو میں تھے۔ وہ ایک طرف چیئرمین پی ٹی آئی کو راضی رکھنے کی کوششوں میں لگے تھے اور دوسری طرف میگا پروجیکٹس کا اعلان کرنا ان کی ترجیح تھی۔ عوام کو آٹا مل رہا ہے یا نہیں‘ انہیں شاید اس کا خیال بھی نہ آیا ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب میں قبل از وقت انتخابات سیاسی طور پر بھی پی ٹی آئی کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔ سب سے پہلا امتحان نگران حکومت کا قیام ہو گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس معاملے پر وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی اور قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کے مابین کوئی اتفاقِ رائے ہو سکے گا۔ اگر دونوں میں کوئی اتفاق نہیں ہوتا تو پھر یہ معاملہ حکومت اور اپوزیشن کی بنائی گئی کمیٹی میں جائے گا۔ وہاں بھی دونوں طرف سے نام پیش کیے جائیں گے مگر سیاسی حالات جس نہج پر ہیں‘ کسی ایک نام پر سب متفق ہو جائیں‘ یہ امر تقریباً ناممکن سا لگتا ہے۔ اس کے بعد معاملہ الیکشن کمیشن میں جائے گا اور اس کا فیصلہ حتمی ہو گا کہ نگران وزیراعلیٰ کون ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ فیصلہ خان صاحب کو پسند نہ آئے‘ پھر وہ کیا کریں گے؟ یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ موجودہ دگرگوں معاشی حالات کے باعث ملک میں معاشی ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا جائے اور آئین کے تحت نگران سیٹ اَپ کو چھ ماہ کی توسیع مل جائے اور پھر پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن ہوں۔ یہ صورتحال بھی پی ٹی آئی کے لیے قابلِ قبول نہ ہو گی۔ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوتا اور پنجاب اور کے پی میں الیکشن اپریل میں ہو جاتے ہیں۔ اس وقت (ن) لیگ کے پاس وفاق میں حکومت ہو گی‘ پی ٹی آئی کے پاس کیا ہو گا؟ کیا وفاقی حکومت اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کرے گی؟ اگر بالفرض وفاق نے کوئی مداخلت کی تو نقصان کس کا ہو گا؟ الیکشن کمیشن اور مقتدر حلقوں سے عمران خان پہلے ہی بہت زیادہ دوری اختیار کر چکے ہیں۔ ایسے حالات پی ٹی آئی کو کسی طور فیور نہیں کریں گے۔ پاکستان کی جو انتخابی تاریخ رہی ہے‘ اگر اس بار بھی ویسے ہی الیکشن ہوئے تو پی ٹی آئی کا جیتنا کرشمہ ہی ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں