سیاست دان ناکام کیوں ہوئے؟

مایوسی آتش کو راکھ بنا دیتی ہے، طغیانیوں کو زمیں بوس کر دیتی ہے اور انسان سے احساسِ ذمہ داری چھین لیتی ہے۔ ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار کرنا جتنا آسان ہے اُن کا بوجھ اُٹھانا اتنا ہی کٹھن ہوتا ہے۔ فرائض کا بھار صرف ان پر ڈالنا چاہیے جو یہ بوجھ اُٹھانے کی سکت و استعداد رکھتے ہوں۔ ذمہ داریاں ذاتی نوعیت کی ہوں یا پروفیشنل‘ قومی سطح کی ہوں یا بین الاقوامی‘ جب یہ بوجھ بن جاتی ہیں تو فرد، خاندان اور معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ پروفیشنل ذمہ داریوں سے انحراف کرنے والے اداروں کو تباہ کرتے ہیں اور قومی فرائض سے بھاگنے والے ملک و قوم کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
گزشتہ ایک سال میں سب سے زیادہ بے نقاب عوام اور سیاست دان ہوئے ہیں۔ عوام گروہ بندی کا شکار ہیں اور سیاست دان اقتدار کی جنگ میں مصروف‘ آئین کی اپنی مرضی سے تشریح کر رہے ہیں۔ جسے جو سوٹ کرتا ہے‘ اس کے مطابق آئین کے الفاظ کو اپنے معانی پہنا دیتا ہے۔ کوئی کام ایسا نہیں جس کا بوجھ سیاستدانوں نے اٹھایا ہو۔ ارکانِ اسمبلی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور حکومت مکمل بے بس نظر آئی ہے۔ مسئلہ آئین کی تشریح کا ہو یا قانون کی عملداری کا، نئی قانون سازی کے مراحل درپیش ہوں یا کوئی انتظامی الجھن‘ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں عدالتوں کے چکر کاٹتی رہی ہیں۔ اگر سارے کام عدالتوں نے کرنے ہیں تو پارلیمان کس لیے ہے؟ انتخابات پر اربوں روپے کیوں خرچ کیے جاتے ہیں؟ حکومتوں کا قیام کیوں عمل میں لایا جاتا ہے؟ کیا ضروری ہے کہ آئین کے ہر آرٹیکل کو مبہم بنا کر اس کی تشریح کے لیے عدالتوں کا رخ کیا جائے؟ اگر آئین میں کچھ مبہم شقیں موجود ہیں تو پارلیمان میں انہیں واضح کیوں نہیں کیا جاتا؟ عدالتوں کا کام عوام کو فوری انصاف کی فراہمی ہے‘ سیاست کے بکھیڑے الجھانا نہیں۔ اس کام کے لیے پارلیمنٹ موجود ہے مگر نجانے کیوں سیاستدان ہر وقت عدالتوں کے دروازے پر بیٹھے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ پارلیمنٹ میں سیاسی معاملات حل نہیں کیے جا سکتے‘ درجنوں فورمز اور کمیٹیاں ہیں مگر وہاں جانے کی کوئی زحمت ہی گوارا نہیں کرتا۔ ایسا کیوں ہے؟
پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 105 میں صریحاً درج ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے نوے روز کے اندر نئے انتخابات ضروری ہیں اور گورنر الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد تاریخ کا اعلان کرے گا مگر مجال ہے اٹھارہ دن گزرنے کے بعد بھی ‘ ابھی تک نئے انتخابات کی تاریخ کا تعین ہواہو۔ گورنر پنجاب کا ماننا ہے کہ چونکہ انہوں نے وزیراعلیٰ کی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط نہیں کیے تھے‘ اس لیے ان پر لازم نہیں کہ وہ نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔ پی ٹی آئی گورنر پنجاب اور گورنر خیبر پختونخوا کی اس لاپروائی کے خلاف لاہور اور پشاور ہائیکورٹ میں اپیلیں دائر کر چکی ہے اور اب یہ فیصلہ عدالت کرے گی کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کون کرے گا؟ پنجاب اور کے پی میں عام انتخابات کب ہوں گے؟ گورنرز نے اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کیا ہے یا نہیں؟ اگر کوئی گورنر الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ کرے تو الیکشن کمیشن از خود انتخابات کی تاریخ دینے کا مُجاز ہے یا نہیں؟ کتنی عجیب بات ہے کہ آئین کی واضح شق کو بھی مبہم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ میں گورنرز کے اس اقدام کو متنازع نہیں بنانا چاہتا مگر یہ واضح ہے کہ ان کا الیکشن کی تاریخ نہ دینا آئینی نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ ہے‘ جو کسی طور بھی ان کے منصب کے شایانِ شان نہیں۔ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے دوبارہ خط لکھنے کے باوجود گورنرز انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کرتے اور عدالت الیکشن کی تاریخ مقر ر کر دیتی ہے تو کیا اس سے آئین و پارلیمان بالادست ہوں گے؟ کیا جمہوری ادارے مضبوط ہوں گے؟ اس بابت گورنر حضرات کو ضرور سوچنا چاہیے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سیاسی معاملات کے حل کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا جا رہا ہے۔ گزرے ایک سال میں درجنوں بار ایسا ہو چکا ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے پارلیمنٹ نے اپنے اختیارات سرنڈر کر دیے ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ پارلیمنٹ کا ادارہ سپریم ہے مگر سیاسی جماعتوں کی چپقلش نے اس کے کردار کو محدود کر دیا ہے۔ میرے نزدیک اس کی زیادہ ذمہ داری تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے۔ شاید اسے آئینی اور انتظامی مسائل عدالتوں کے ذریعے حل کر کے زیادہ راحت محسوس ہوتی ہے۔ وہ مسندِ اقتدار پر بیٹھ کر بھی عدالتوں کا رخ کرتی تھی اور اب اپوزیشن میں آ کر بھی عدالتوں کی دہلیز پر بیٹھی رہتی ہے۔ یہ طرزِ عمل سیاست اور جمہوریت کے لیے بالکل بھی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ عمران خان وزیراعظم تھے تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی۔ خان صاحب کو لگا کہ ان کی پارٹی اختلافات کا شکار ہے، انہوں نے صدرِ مملکت کے ذریعے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجا کہ تحریک عدم اعتماد کے دوران پارٹی کے منحرف ارکان کا ووٹ شمار ہو گا یا نہیں؟ آئین کی شق 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کیا ہو گی؟ یہ کام پارلیمنٹ کا تھا مگر آئین کے آرٹیکل کی تشریح کے لیے عمران خان عدالت چلے گئے۔ اس صدارتی ریفرنس پر جو فیصلہ آیا، اس حوالے سے اب کئی ماہرین آئین کے آرٹیکل 95 کے مستقبل کے حوالے سے فکرمند ہیں۔ اس فیصلے کے بعد شاید ہی اس شق پر عمل درآمد ہو سکے۔ صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ پارٹی پالیسی سے منحرف ہونے والے ارکان کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ جب ووٹ ہی شمار نہیں ہوگا تو آرٹیکل 95 پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟ اپوزیشن نے جب تحریک عدم اعتماد پیش کی تو اس پر قائم مقام سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے ایک رولنگ دے کر عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کر دیا، جس پر وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری صدر کو بجھوا دی اور قومی اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔ سپریم کورٹ نے اس اقدام کا سوموٹو نوٹس لیا اور قاسم سوری، عمران خان اور صدرِ پاکستان کے اس اقدام کو آئین سے متصادم قرار دیا۔ اگر سیاست دان اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے تو کیا یہ نوبت آتی؟ وزیراعظم اور صدر کے فیصلے کو ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ یوں رد کرتی؟
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی‘ اس کے بعد تحریک انصاف نے اسمبلیوں سے یکطرفہ طور پر استعفیٰ دے دیا اور پھر حکومت کے ہر اقدام کی قومی اسمبلی میں مخالفت کرنے کے بجائے اس کو عدالتوں کے ذریعے روکنے کی کوشش کی۔ جب حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب بنے تو اس وقت سپیکر پنجاب اسمبلی قائدِ ایوان کا انتخاب کرانے سے گریزاں تھے۔ عدالت کے حکم پر ہی یہ انتخاب ممکن ہو سکا تھا۔ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کے منحرف ہو جانے کے بعد نئے لوگوں کو ایم پی اے نہیں بنا رہا تھا‘ اس پر بھی لاہور ہائیکورٹ سے فیصلہ لیا گیا تھا۔ حمزہ شہباز کی جگہ پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب بنے تو وہ فیصلہ بھی سپریم کورٹ سے آیا تھا۔ اس کے بعد ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کی رولنگ بھی عدالت کے ذریعے ہی کالعدم قرار دی گئی تھی۔ یہی نہیں‘ گورنر کے بجائے صدرِ مملکت کا وزیراعلیٰ پنجاب سے حلف لینے کا فیصلہ بھی عدالت ہی نے سنایا۔ گورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو جب اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تو اس سے گریز کیا جا رہا تھا‘ یہ معاملہ بھی عدالت ہی میں طے ہوا تھا۔ ابھی پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی اپیل بھی زیر سماعت ہے۔ ایک طرف الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے خاتمے کا کیس تو دوسری طرف الیکشن کمیشن کے متعدد فیصلوں کے خلاف اپیلیں بھی زیرِ سماعت ہیں۔
دامنِ تحریر میں گنجائش نہیں ورنہ درجنوں مزید مثالیں موجود ہیں کہ جب سیاستدانوں نے پارلیمانی جھگڑوں کو عدالتوں کے ذریعے حل کیا۔ کیا کسی جمہوری ملک میں ایسے ہوتا ہے؟ اگرچہ پارلیمنٹ اور عدالت دونوں معتبر آئینی ادارے ہیں مگر ہمارے سیاستدان خود ہی اپنے اختیارات اپنے تابع محکموں کے سپرد کر دیتے ہیں اور بعد ازاں کہتے ہیں کہ ان کو تو کوئی اور کنٹرول کر رہا تھا، افسر شاہی ان کے مخالفین سے ہمدردی رکھتی تھی، پالیسی سازی کا اختیار کسی اور کے پاس تھا، یقین نہیں آتا تو عمران خان کی حالیہ تقریریں سن لیں‘ سارے عقدے کھل جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں