جب بندریا کے پاؤں جلتے ہیں تو…

کہاوت ہے کہ جب بندریا کے پاؤں جلتے ہیں تو وہ اپنے ہی بچوں کو پیروں تلے لے لیتی ہے۔ ایسا ہی کچھ حال ہماری سیاسی جماعتوں کا بھی ہے۔ جب سیاست دانوں اور حکمرانوں کو ان کے کسی فعل پر موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے تو وہ الزام کا طوق کسی اور کے گلے میں ڈالنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ معروف امریکی دانشور اور سیاسی مصنف نوم چومسکی سے کسی صحافی نے انٹرویو کرتے ہوئے پوچھا کہ لیڈر کون ہوتا ہے؟ چومسکی نے جواب دیا: جو اپنی ناکامیوں کا بوجھ اٹھانے کی ہمت رکھتا ہو۔ کیا ہمارے سیاست دانوں میں لیڈروں والی کوئی خوبی ہے؟ کیا یہ طبقہ اپنی ناکامیوں کا بوجھ اٹھانے کا حوصلہ رکھتا ہے؟ کیا انہیں ادراک ہے کہ ناکامی کی ذمہ داری نہ اٹھانا کتنی بڑی ناکامی ہے؟ آزاد گرداسپوری یاد آتے ہیں:
کبھی ناکامیوں کا اپنی ہم ماتم نہیں کرتے
مقدر میں جو غم لکھے ہیں ان کا غم نہیں کرتے
جب سے شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم اتحاد اقتدار میں آیا ہے‘ پاکستان مسائلستان بن گیا ہے۔ ہر شعبہ ناکامیوں کی داستان بیان کر رہا ہے۔ مہنگائی، معیشت کی بدحالی اور بے روزگاری عام ہے۔ بادی النظر میں لوگوں نے شہباز حکومت سے منہ پھیر لیا ہے۔ اس مہنگائی کی وجہ بھلے کچھ بھی ہو مگر موجودہ حکومت کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بجائے اس کے کہ مسلم لیگ (ن) کے اکابرین اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے‘ انہوں نے تنقید کے نشتر دوسرے اداروں پر چلانا شروع کر دیے ہیں۔ کبھی عمران حکومت کو معاشی مسائل کا اصل ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور کبھی طاقتور حلقوں کو۔ ستم یہ ہے کہ اب معزز عدلیہ بھی ان کی بیان بازی کی زد میں آ چکی ہے۔ مریم نواز نے کسی لگی لپٹی کے بغیر نام لینا شروع کر دیے ہیں۔ 2017ء کی پسِ پردہ کہانی ایک بار پھر بیان کی جا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جو کچھ مریم نواز بیان کر رہی ہیں‘ وہ درست ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ محض بیانیہ بنانے کے لیے الزامات کا دروازہ دوسری طرف کھولا جا رہا ہو مگر یہاں ایک سوال کا جواب آنا ضروری ہے۔ اگر یہ الزامات درست ہیں تو پھر اتنا عرصہ خاموشی کیوں اختیار کی گئی؟ شہباز حکومت کو ناکام ہوتا دیکھ کر تنقید کارخ دوسرے کرداروں کی جانب موڑنے کا مقصد کیا ہے؟ یہ درست ہے کہ 2013ء سے 2018ء تک کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت عمران دور سے بہت بہتر تھی مگر ماضی میں جینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ اگلے عام انتخابات میں لوگوں نے ووٹ موجودہ حکومتی کارکردگی پر دینا ہے‘ اس لیے ماضی کے ڈھول پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے جیسے مسلم لیگ (ن) کے رہنما مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو چکے ہیں اور جب ناامیدی بڑھتی ہے تو انسان کا خیال اور زبان پر سے کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔ اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ وہ کیا بات کرے اور کیا نہ کرے۔ وہ بے وقت کی راگنی شروع کر دیتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ بے وقت کی راگنی بے اثر ہوتی ہے۔
کچھ ایسا ہی حال عمران خان کا بھی ہے۔ وہ بھی اپنی ناکامیوں کا بوجھ نہیں اٹھا رہے۔ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو انہوں نے اسے اپنی حکومت کی ناکامی سمجھنے کے بجائے پہلے امریکہ کو کٹہرے میں کھڑا کیا، پھر اپنی آزاد خارجہ پالیسی کا رونا رویا، عوام کو حقیقی آزادی کی آس دلائی، پھر نیوٹرلز کی گردان پڑھی، کسی کو میر جعفر اور میر صادق سے تشبیہ دی، کبھی پیسہ چلنے کا الزام لگایا، کبھی کوئی الزام تو کبھی کوئی تہمت۔ آخر میں سارا ملبہ قمر جاوید باجوہ صاحب پر ڈال دیاکہ سب کچھ انہوں نے کیا، اس سب میں کہیں بھی انہوں نے اپنی حکومت کی ناکامیوں کا تجزیہ نہیں کیا۔ انہوں نے ناکام تجربات سے کچھ سیکھا نہ اصلاح کی کوشش کی۔ اگر وہ اپنی معاشی پالیسیوں اور اس کے ذمہ داروں کا ہی تعین کر لیتے تو عین ممکن تھا کہ پاکستان کو یہ حالات نہ دیکھنا پڑتے۔
لوگ عمومی طور پر تین طرح کے ہوتے ہیں۔ اول: جو دوسروں کے ناکام تجربات سے سبق حاصل کرتے ہیں اور ان کی غلطیاں نہیں دہراتے۔ یہ ذہین ترین لوگ ہوتے ہیں۔ دوم: وہ لوگ جو اپنی ناکامیوں اور غلط فیصلوں سے سبق پکڑتے ہیں اور انہیں دہرانے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ سمجھ دار افرادہوتے ہیں۔ سوم: یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ناکامیوں سے سیکھتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے ناکام تجربات سے۔ یہ ضدی ہوتے ہیں اور انہیں کسی صورت تیز فہم نہیں کہا جا سکتا۔ اگر عمران خان خود کوصاحبِ فراست اور قابلِ تقلید سمجھتے ہیں تو انہیں اعتراف کرنا ہو گا کہ عثمان بزدار اور محمود خان کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ درست نہ تھا۔ اسد عمر، حفیظ شیخ اور شوکت ترین کی پالیسیوں نے ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا۔ ان کی زیادہ تر ٹیم نئی اور کم تجربہ کار تھی جس کے باعث ناکامیوں کی فہرست لمبی ہوتی گئی۔ اگر خان صاحب یہ تسلیم کر لیتے تو انہیں کسی احتجاج کی ضرورت ہوتی نہ لانگ مارچ کی۔ وہ اسمبلیاں تحلیل کرتے نہ جیل بھرو تحریک شروع ہوتی۔ انہیں لانگ مارچ کر کے کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوا تھا اور نہ جیل بھرو تحریک کا کوئی اثر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر جیل بھرو تحریک مؤثر ہوتی تو خان صاحب خود بھی گرفتاری دیتے اور شاہ محمود قریشی، اسد عمر، ولید اقبال اور اعجاز چودھری کے خاندان گرفتاریوں کو غیر قانونی کہہ کر عدالتوں کا رخ نہ کرتے۔
صرف عمران خان ہی نہیں‘ مسلم لیگ (ن) کو بھی بہت سے اعترافات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ماننا پڑے گا کہ عمران حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔ عالمی سطح پر مہنگائی کی لہر کا ادراک کرتے ہوئے شہباز شریف کا حکومت بنانے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ اگر عمران خان نے قومی اسمبلی توڑ کر غیر آئینی کام کیا تھا تو شہباز شریف کو حلف اٹھاتے ہی نئے الیکشن کا اعلان کر دینا چاہیے تھا۔ اگرمفتاح اسماعیل ٹھیک کام کر رہے تھے تو اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ نہیں بنانا چاہیے تھا۔ جب تک حکومت یہ غلطیاں نہیں مانے گی تب تک اصلاح کا عمل شروع نہیں ہو گا۔ وہ ایسے ہی الیکشن سے راہِ فرار اختیار کرتی رہے گی جیسے اِن دنوں کر رہی ہے۔ میری دانست میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کا نہ ہونا سیاسی فیصلہ ہے، آئینی طور پر اس حوالے سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اگر آئینی رکاوٹ ہوتی تو سوموٹو ایکشن نہ لیا جاتا۔ سپریم کورٹ کا لارجر بنچ بنانے کا فیصلہ صائب ہے تاکہ سارے بحران ایک ہی بار حل ہو جائیں۔ یقینا اس دوران یہ نکات بھی زیرِ غور آئیں گے کہ اگر کوئی گورنر وزیراعلیٰ کی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط نہیں کرتا تو پھر وہ نوے دن کے اندر الیکشن کی تاریخ دینے کا مجاز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں‘ تو پھر الیکشن کمیشن اپنے طور پر تاریخ دے سکتا ہے یا نہیں؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر صوبے کی اسمبلی توڑنے کا اختیار وزیراعلیٰ کے پاس ہے تو کیا پارٹی ہیڈ وزیراعلیٰ کو اسمبلی توڑنے کے لیے مجبور کر سکتا ہے؟ یہ بھی عین ممکن ہے کہ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑنے کا سارا عمل ہی غیر قانونی قرار پائے اور الیکشن خود بخود آگے چلے جائیں۔ عدالت پنجاب اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ پر فیصلہ دے چکی ہے کہ پارٹی سربراہ کو پارلیمانی پارٹی کے ہیڈ پر فوقیت نہیں ہے۔ اگر پارلیمانی لیڈر کا فیصلہ حتمی ہے تو پارٹی سربراہ اپنا کوئی فیصلہ وزیراعلیٰ پر کیسے مسلط کر سکتا ہے؟
سب کی نظریں اس وقت سپریم کورٹ پر ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آئندہ چند دنوں میں اس سیاسی بحران کا خاتمہ ہو جائے گا‘ وگرنہ سیاستدانوں نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ وہ آئین کو پامال کریں۔ نجانے کیوں ہمارے سیاست دانوں پرجب بھی کوئی سیاسی آزمائش آتی ہے تو وہ آئین کا تقدس فراموش کر دیتے ہیں۔ پھر وہی کہاوت یاد آتی ہے کہ جب بندریا کے پاؤں جلتے ہیں تو وہ اپنے ہی بچوں کو پیروں تلے لے لیتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں