معاشی کھلواڑ کی کہانی

اصل دکھ یہ نہیں کہ معیشت، معاشرت اور سیاست میں بگاڑ آ چکا ہے بلکہ حقیقی غم یہ ہے کہ ڈوبتی ناؤ کو پار لگانے کی کوئی صلاحیت کسی کے پاس دکھائی نہیں دے رہی۔ اس وقت ملک حالات کے رحم و کرم پر ہے۔ تباہی قریب سے قریب تر ہو رہی ہے مگر جو مسندِ اقتدار پر براجمان ہیں وہ انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں اور جنہیں اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کی جلدی ہے‘ وہ سیاسی عدم استحکام کے آتش دان کو ایندھن مہیا کر رہے ہیں۔ اہلِ سیاست کو ادراک ہی نہیں کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس چکے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ بدحالی بڑھ رہی ہے۔ جینا حقیقت میں مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان اب واقعتاً ایک خواب بن چکے ہیں۔
کوئی بھی ملک ہو‘ سیاسی استحکام کے بغیر معیشت چل ہی نہیں سکتی۔ امریکہ اور برطانیہ و یورپ میں سیاسی عدم استحکام آ جائے تو وہاں بھی معیشت اوندھے منہ گر پڑے گی۔ گزشتہ سال بائیس فروری کو روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو پوری دنیا کی اکانومی متاثر ہوئی۔ اتنا نقصان ہوا کہ لوگ کورونا کی معاشی تباہ کاریوں کو بھول گئے۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں اگر روس اور یوکرین کے حالات نارمل رہتے تو عالمی معیشت کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ جب دو ملکوں کی لڑائی پوری دنیا کو متاثر کر سکتی ہے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ پاکستان کو تو دو طرفہ نقصان ہوا۔ عالمی مہنگائی کا ناگ بھی ہمیں ڈستا رہا اور سیاسی عدم استحکام نے بھی معیشت کو مفلوج کیے رکھا۔ آج ہم معاشی طور پر جہاں کھڑے ہیں‘ محض ایک دن میں یہاں نہیں پہنچے۔ یہ دہائیوں کی غلط سیاسی اور معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ زیادہ دور مت جائیں‘ میں سمجھتا ہوں کہ 2016ء تک پاکستان کے معاشی حالات کسی قدر بہتر تھے مگر پھر سیاسی عدم استحکا م کی ایسی آندھی چلی کہ سب کچھ بکھر گیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ سوائے پچھتاوے کے کچھ باقی نہیں بچا۔ کچھ بڑوں کی انا اور ذاتی پسند و ناپسند نے ملک و قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ آئیے! ایک ایک کر کے ماضی قریب کے ان تمام سیاسی اور معاشی فیصلوں کا ذکر کرتے ہیں جن کے باعث ملک آج دیوالیہ ہونے کی نہج پر ہے۔
(1) عدالتی و قانون پیچیدگیوں سے قطع نظر‘ اگر خالصتاً سیاسی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو 28 جولائی 2017ء کو میاں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے بے دخل کرنے کا فیصلہ ناقابلِ فہم تھا۔ اس سے ملک کو سیاسی اور معاشی‘ دونوں طرح نقصان ہوا۔ کاش! اس وقت یہ فیصلہ نہ کیا جاتا۔ میاں نواز شریف کو پانچ سال پورے کرنے دیے جاتے اور پھر عوام خود فیصلہ کرتے۔
(2) 2018ء کے انتخابات سے پہلے جس طرح سیاسی جماعتوں کو توڑا گیا اور ایک مخصوص جماعت میں سیاست دانوں کو اکٹھا کیا گیا‘ جن سیاست دانوں نے انکار کیا ان پر جیسے مقدمات بنائے گئے‘ گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں‘ ڈرایا‘ دھمکایا گیا‘ یہ طریقہ کار انتہائی غلط تھا۔ اس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور افراتفری بڑھی اور معیشت پٹڑی سے اتر گئی۔
(3) معیشت کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا جب اسد عمر صاحب نے وزارتِ خزانہ کی زمامِ کار سنبھالی۔ اسد عمر صاحب پہلی بار اس منصب پر بیٹھے تھے۔ انہوں نے معاشی معاملات کو بہت ہلکا لیا۔ انہیں شاید اندازہ ہی نہیں تھا کہ اکانومی پیپر ورک سے نہیں چلتی‘ اس کے لیے عملی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ اس وقت ملک کے معاشی حالات ایسے تھے کہ فوری طور پر آئی ایم ایف کے پاس جانا ناگزیر تھا مگر وہ لیت و لعل سے کام لیتے رہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ سٹیٹ بینک کے پاس اس وقت جو دس ارب ڈالر کے قریب زرمبادلہ کے ذخائر تھے‘ جو چھ ارب ڈالر سے بھی کم ہو گئے۔ مارچ 2019ء میں جب حالات بے قابو ہونے لگے تو آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ آئی ایم ایف نے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی تاریخ کا مشکل ترین پروگرام پی ٹی آئی حکومت کو دیا‘ جو آج تک چل رہا ہے۔ ہر نئی قسط پر اس پروگرام کی شرائط کڑی سے کڑی ہو رہی ہیں۔
(4) اسد عمر صاحب جب اکانومی کو نہ سنبھال سکے تو ان کی چھٹی کرا دی گئی اور حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کچھ بہتر کام کیا‘ چند سٹرکچرل ریفارمز کیں‘ جس سے مہنگائی تو بڑھی مگر اکانومی ٹریک پر آنا شروع ہو گئی۔ پھر نجانے کیوں خان صاحب نے انہیں فارغ کر دیا اور ان کی جگہ پہلے حماد اظہر اور پھر شوکت ترین کو لایا گیا۔ شوکت ترین بھی اسد عمر کی طرح اکانومسٹ نہیں تھے۔ انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے حفیظ شیخ کی ساری محنت ضائع کر دی۔ ان کے دور میں سب سے زیادہ قرضہ لیا گیا۔ قرض کے ڈالروں سے درآمدات بڑھائی گئیں جس سے معیشت میں وقتی ابال آیا اور گروتھ بڑھ گئی جبکہ ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوا۔ یہ عجیب معاشی پالیسی تھی کہ آپ ڈالر خرچ کر کے روپیہ بنائیں۔ اس پالیسی کا نقصان یہ ہوا کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ ساڑھے سترہ ارب ڈالر پر چلا گیا، بجٹ خسارہ تاریخ میں پہلی بار 5300 ارب روپے کے قریب رہا اور تجارتی خسارہ بھی چالیس ارب ڈالر سے زیادہ ہو گیا۔
(5) پی ڈی ایم نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا تو پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایف سے ایک ماہ پہلے ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پٹرول اور ڈیزل پر سبسڈی دے کر بجلی سستی کر دی۔ اس اقدام سے ایم آئی ایف پاکستان سے ناراض ہو گیا۔
(6) معیشت کے ساتھ ایک کھلواڑ پی ٹی آئی حکومت کے آخری مہینے میں ہوا جب صرف ایک مہینے کے عرصے میں زرمبادلہ کے ذخائر بائیس ارب ڈالر سے کم ہو کر سترہ ارب ڈالر کی سطح پر آ گئے جبکہ سٹیٹ بینک کے ذخائر دس ارب اسّی کروڑ ڈالر رہ گئے۔
(7) عوام کو ریلیف اور سبسڈی دینے کے باوجود عمران خان وزارتِ عظمیٰ بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے اور تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ان کی حکومت رخصت ہو گئی۔ اس کے بعد زمامِ کار پی ڈی ایم نے سنبھال لی اور شہباز شریف ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد قریب ڈیڑھ ماہ تک پی ڈی ایم حکومت مخمصے کا شکار رہی۔ وہ یہ فیصلہ کرنے سے قاصر رہی کہ اسے حکومت کرنی چاہیے یا الیکشن میں جانا چاہیے۔ یہ ڈیڑھ ماہ معیشت کے لیے ایک خطرناک دور تھا۔ اس دوران گزشتہ حکومت کی دی گئی سبسڈی بھی جاری رہی اور آئی ایم ایف سے بات چیت بھی معطل رہی۔ مئی کے اواخر میں شہبازحکومت نے کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا مگر تب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دی تو کوئی مثبت جواب نہ آیا۔ آئی ایم ایف ناراض تھا کیونکہ سابق حکومت نے معاہدے کی خلافی ورزی کی تھی۔ پھر مفتاح اسماعیل نے اگلے تین ماہ تک ہر وہ کام کیا جس سے آئی ایم ایف کو راضی کیا جا سکے۔ وہ کامیاب ہوئے اور آئی ایم ایف نے قرض کی اگلی قسط جاری کر دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ حفیظ شیخ کی طرح مفتاح اسماعیل صاحب بھی بہتر کام کر رہے تھے مگر انہیں بھی اس منصب پر ٹکنے نہ دیا گیا۔
(8) اب معیشت کی تنزلی کے باب میں اسحاق ڈار صاحب کی انٹری ہوئی۔ ڈار صاحب نے وہی کام کیا جو اسد عمر نے کیا تھا۔ وہ ماضی میں جی رہے تھے‘ انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ حالات کس نہج پر ہیں اور آئی ایم ایف کی پالیسیاں کیا ہیں۔ انہوں نے آتے ہی ڈالر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی، پٹرول کو تھوڑا سستا کیا، ٹیکس لگانے سے اجتناب کیا اور دوست ممالک سے مدد طلب کی مگر سب کچھ بے سود! اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئی ایم ایف سے جو قسط گزشتہ سال نومبر‘ دسمبر میں ملنی تھی‘ ابھی تک نہیں مل سکی۔ سٹاف لیول معاہدہ تک طے نہیں پا سکا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب آپ آئی ایم ایف پروگرام میں نہیں ہوتے تو دنیا آپ کی مدد کرتی ہے نہ دیگر مالیاتی ادارے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، ڈالر بے لگام ہو چکا ہے اور مہنگائی کا طوفان تباہی مچا رہاہے۔ ستم بالائے ستم‘ سیاسی عدم استحکام بھی تھمنے میں نہیں آ رہا۔ کبھی جلسے جلوس اور کبھی لانگ مارچ۔ کبھی استعفے اور کبھی اسمبلیوں کی تحلیل۔ ملک میں جب تک یہ افراتفری رہے گی‘ معیشت سنبھلنے کا نام نہیں لے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں