سیاست پر پابندی لگا دیں؟

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں سب سے بنیادی فرق سیاسی شعور کا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں سیاست کے نام پر سازش، انتقام، بہتان تراشی، بدتہذیبی، جھوٹ، کرپشن، اقربا پروری اور لغو گفتگو کی جاتی ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں سیاست کو عباد ت اور ملکی و قومی خدمت کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔ جاپان کی ترقی کا راز عوام کی سیاست میں عدم دلچسپی ہے۔ وہاں کے لوگ سب کچھ کرتے ہیں مگر سیاست پر مباحثہ توکجا‘ سیاسی معاملات پر بات چیت تک نہیں کرتے۔ جاپان میں سیاست شہریوں کا ذاتی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ کوئی کسی سے اس کے سیاسی نظریات کے بارے میں استفسار نہیں کرتا۔ جاپان کے لوگ سوشل میڈیا اور نجی محفلوں میں دانشوری بگھارنے کے بجائے ہنر سیکھتے ہیں اور اپنے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ حکمرانوں کو کوستے نہیں بلکہ ان کا دست و بازو بنتے ہیں۔ آپ جاپان میں دس سال گزار لیں‘ آپ کو پتا تک نہیں چلے گا کہ وہاں کب الیکشن ہوئے اور کب حکومت تبدیل ہو گئی۔ ریلیاں نکالی جاتی ہیں نہ جلسو ں پر وسائل کا ضیاع ہوتا ہے۔ سٹرکیں بند ہوتی ہیں نہ شاہراہوں کو سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں سے بھر دیا جاتا ہے۔ وہاں سیاسی مفادات کے لیے اسمبلیاں توڑی جاتی ہیں نہ نئے الیکشن کرانے میں لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے۔ اس ساری ریاضت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جاپان نے کرشماتی طور پر صنعتی ترقی کی ہے اور اس کی معیشت امریکہ اور چین کے بعد دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔
میں مانتا ہوں کہ سیاسی شعور بالغ نظری کا ایک اہم جُز ہے۔ عوام میں سیاسی شعور کا ہونا حکمرانی کی دوڑ میں توازن قائم کرتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ''سیاسی شعور‘‘ کی فراوانی ہو گئی ہے۔ پورے معاشرے کو غیر ضروری اور غیر منطقی نظریات نے جکڑ لیا ہے۔ ہم سیاسی شعور کے نام پر قصیدہ گوئی کرتے ہیں یا الزام تراشی۔ جھوٹ بولتے ہیں یا مخالفین کی تضحیک کرتے ہیں۔ کیا ترقی یافتہ ممالک میں بھی ''سیاسی شعور‘‘ کے نام پر یہی کچھ ہوتا ہے؟ کیا یورپ، امریکہ اور برطانیہ میں یونہی سیاست کے نام پر وقت کا ضیاع کیا جاتا ہے؟ نجانے کیوں ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جیسے انجینئرنگ، میڈیکل، بزنس، سائنس اور وکالت کے شعبے ہیں‘ سیاست بھی ویسا ہی ایک شعبہ ہے‘ جسے مخصوص افراد کو ہی کرنا چاہیے۔ پورا معاشرہ سیاسی کیسے ہو سکتاہے؟ اگر کاروباری شخصیات بزنس پر توجہ دینے کے بجائے سیاسی موضوعات پر سوچیں گی تو ترقی کیسے ہو گی؟ اگر سائنس دان سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں گے تو نئی نئی ایجادات کیسے ہوں گی؟ ڈاکٹرز اور انجینئرز اپنے کام کو عبادت سمجھنے کے بجائے سیاست کو اولین ترجیح دینے لگیں گے تو نظام کیسے چلے گا؟
جب تک ابلاغ کے ذرائع محدود تھے‘ معاشرے میں توازن برقرار تھا۔ لوگ ووٹ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے مگر جیسے جیسے جدت آتی گئی‘ سیاست زحمت محسوس ہونے لگی۔ ہمیں جو دکھایا جاتا ہے‘ ہم ویسے ہی بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاست دان سیاست کرتے ہیں اور ہم اسے اپنا نصب العین بنا لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی کالک کو باہر لے آیا ہے۔ جھوٹ، بدتمیزی، بدتہذیبی اور الزام تراشی کی روش بدقسمتی سے ہماری معاشرتی جبلت بن چکی ہے۔ اب پورا ملک ہی سیاسی طور پر تقسیم دکھائی دیتا ہے۔ کون سا ایسا گھر، ایسا شہر، ایسا محکمہ یا ایسا ادارہ ہے جہاں یہ تقسیم نہیں ہے۔ سیاست کی وجہ سے بھائی بھائی کا دشمن بن رہا ہے۔ ایک ہی گھر میں ماں اور بیٹی کے سیاسی نظریات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ سیاسی تقسیم کی وجہ سے خاندانی نظام بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ عوام ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں اور عدم برداشت آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ اس سیاسی تقسیم کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہوا ہے کہ ریاستی و انتظامی اداروں میں بھی تقسیم کی ایک لکیر ابھر چکی ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ ہر جگہ سیاست مکمل طور پر سرائیت کر چکی ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے لڑ رہا ہے۔ سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کا کیس دیکھ لیں۔ کیسے ایک سیاسی جماعت ان کی پشت پرکھڑی ہے اور کیسے دوسری سیاسی جماعت ان کو نکالنے کے درپے ہے۔ غلام محمود ڈوگر کو لے کر الیکشن کمیشن کا ایک موقف ہے اور عدالت کا دوسرا۔ ایک زمانہ تھا جب آنے والے آفیسرز جانے والوں کے خلاف مہم چلایا کرتے تھے مگر اب کیسا وقت آ گیا ہے کہ حاضر سروس صاحبان ایک دوسرے کے خلاف خط لکھ رہے ہیں۔ معاشرے کا کوئی فرد بھی دوسرے کے نظریات کو برداشت نہیں کر پا رہا۔ کیوں؟ ہر شخص خود کو دوسرے سے بالاتر سمجھتا ہے۔ کوئی کسی دوسرے کی دلیل ماننے کو تیار ہے نہ منطق۔ سب کا بس ایک ہی نعرہ ہے‘ میں ٹھیک ہوں‘ میرا لیڈر ہی سچا ہے‘ میری جماعت سب سے بہترین سیاسی پارٹی ہے‘ میری رائے ہی حتمی ہے اور باقی سب چور ہیں یا نالائق۔ یقین مانیں! اس سیاسی تقسیم نے ہمیں مکمل طور پر بے نقاب کر دیا ہے۔ ہمارے معاشرے کے اندر جو گند بھرا ہوا تھا‘ وہ اب بالائی سطح پر آ گیا ہے۔
سیاسی شعور یہ ہے کہ آپ ووٹ کی طاقت کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ سیاسی شعور یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ کسی سیاسی لیڈر کے گھر کے باہر ڈیرے ڈال لیں اور اسے قانون کی رسائی سے دور کر دیں۔ سیاسی شعور یہ بھی نہیں ہے کہ کوئی لیڈر جیل سے نکل کر علاج کی عرض سے بیرونِ ملک روانہ ہو جائے اور عدالتوں کے بلانے کے باوجود واپس نہ آئے‘ اس سب کے باوجود اس کے اس اقدام کا دفاع کیا جائے۔ جمعرات کو لاہور میں احتجاج کے دوران پی ٹی آئی کے کارکن علی بلال (ظلِ شاہ) کی ہلاکت بہت بڑا سانحہ ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے‘ اتنی کم ہے۔ اب تک کے شواہد یہ بتاتے ہیں کہ اسے کینال روڑ سے گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں اس کی موت واقع ہو گئی۔ اس بے قصور شخص پر انتہائی درجے کا تشدد ہوا۔ بادی النظر میں اس کی ہلاکت کی ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے مگر کیا پی ٹی آئی کو اس سے بری الزمہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ میرا ایک قریبی دوست اسلام پورہ‘ لاہور کا رہائشی اور علی بلال کا محلے دار ہے۔ وہ اسے بچپن سے جانتا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ علی بلال کی ذہنی حالت درست نہیں تھی۔ اس کا وقتاً فوقتاً علاج بھی ہوتا رہتا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب سے زمان پارک میں خان صاحب کے گھر کے باہر خیمے لگے ہیں‘ اسے وہاں کون لے کر گیا؟ جس شخص کی ذہنی حالت درست نہیں تھی‘ اسے احتجاج میں کس نے شامل کرایا؟ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ اس دن احتجاج سے غائب کیوں تھی؟ سڑکوں پر صرف ورکرز لاٹھیاں کیوں کھا رہے تھے؟ گرفتاریاں دینے کے لیے صرف عام کارکنان ہی کیوں تھے؟ ایم پی ایز، ایم این ایز اور دیگر پارٹی عہدیدران کہاں تھے؟حکومت اور پولیس کا فعل یقینا ناانصافی پر مبنی تھا مگر علی بلال جیسے کارکنوں کا استعمال کرنا کہاں کی سیاست ہے؟
میری دانست میں عام لوگوں کو ایسے احتجاجوں کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ یہ سیاست دانوں کا کام ہے اور انہیں ہی زیب دیتا ہے۔ علی بلال کی ہلاکت سے عوام کو ضرور سبق حاصل کرنا ہو گا۔ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ سیاست پر بے جا مباحثے کرنے سے دماغی بیماریاں، منفی سوچ، ذہنی دباؤ اور جذباتی پن بڑھ جاتا ہے جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اس سے دوستیاں ختم ہو جاتی ہیں اور تعلقات کو گھن لگ جاتا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو سوچنا ہو گا کہ سیاسی اشتعال انگیزی سے ملک کا فائدہ نہیں ہو سکتا۔ اس سے معیشت ٹھیک ہوتی ہے نہ مہنگائی قابو میں آتی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھتے ہیں نہ ہی حکمرانوں کی انتظامی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر نوجوان ملک و ریاست کی بھلائی چاہتے ہیں تو لفظی گولہ باری کو ترک کرکے انہیں خود کو ہنرمند بنانا ہو گا۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی کمیوں اورکوتاہیوں کا ادراک کریں اور خود کو غیر سیاسی کر لیں۔ نوجوان جتنی جلدی خود کو غیر سیاسی کریں گے‘ ملک اتنی جلدی معاشی اور سیاسی گرداب سے نکل آئے گا۔ ایسی سیاست جس کی کوکھ سے سازش، افراتفری اور عدم استحکام جنم لیں‘ ایسی سیاست پر پابندی لگا دینی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں