عمران خان عجلت میں کیو ں ہیں؟

ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ توقف اور تامل کرنے میں سلامتی ہے اور جلد بازی میں ندامت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عجلت، تیزکاری اور شتابی کے پھندے میں پھنسنے والے ہمیشہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ انہیں منزل نصیب ہوتی ہے نہ راہ ہی کا تعین ہو پاتا ہے۔ یہ کامیاب ہوتے ہیں نہ ناکامی کو دل سے قبول کرتے ہیں۔ جلدبازی اور بے صبری کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کچے پھلو ں کو پتھر مار مار کر گرا تو لیتا ہے مگر پھر بھوک مٹا پاتا ہے نہ خود کو بدہضمی سے بچا پاتا ہے۔ ایسی جلدبازی سے کہیں بہتر ہے کہ انسان صبر کا دامن تھام کر سکون سے بیٹھا رہے اور پھل کے پک کر گرنے کا انتظار کرے۔ عبدالحمید عدم یاد آتے ہیں:
عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں
میں پورے وثوق سے تو نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ ان دنوں ملک میں ہو رہا ہے وہ سیاست دانوں کی بدنیتی کے باعث ہے؛ البتہ! جو بات پورے یقین سے کی جا سکتی ہے‘ وہ یہ کہ سیاست دانوں کی جلدبازی اور لاپروائی معاشرے کو سنگین نقصانات سے دوچار کر رہی ہے۔ یہ ہمیشہ اقتدار کا انتظار کرنے کے بجائے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف محلاتی سازشیں شروع کر دیتے ہیں۔ عمران حکومت کو قبل از وقت ختم کرنے سے کم از کم ایک سبق یہ ملا ہے کہ آئندہ ایسا تجربہ نہ دہرایا جائے۔ ساڑھے تین سال کی حکومت کوچلتا کرنے سے ملک بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر کی حکومتیں دو‘ دو بار ختم کی گئیں مگر انہوں نے سسٹم کے خلاف بغاوت نہ کی۔ یوسف رضا گیلانی کو نااہل کیا گیا‘ وہ چپ چاپ گھر چلے گئے۔ میاں نوا ز شریف کو تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کے بعد تاحیات نااہل کر کے وزیراعظم کی کرسی سے اتارا گیا۔ وہ نالاں ضرور تھے مگر سسٹم کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ مگر اب تو حد ہی ہو گئی ہے۔ عمران خان نے اپنی حکومت کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر پہلے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے سے انحراف کیا اور پھر مبینہ طور پر زرمبادلہ کے ذخائر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تاکہ آنے والی حکومت آتے ہی معاشی گرداب میں پھنس جائے۔ پی ٹی آئی حکومت کی یہ سکیم کامیاب ٹھہری اور شہباز حکومت بری طرح ناکام ہو گئی۔ چلیں! بطور وزیراعظم انہوں نے جو کیا‘ سو کیا، اس کے بعد ہی چین سے بیٹھ جاتے۔ سیاسی استحکام میں اپنا حصہ ڈالتے اور دوبارہ مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے کا انتظار کرتے۔ افسوس! خان صاحب نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ ''جو تم کرو گرے‘ وہ ہم کریں گے‘‘ کی پالیسی اپنائی گئی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ پورا ملک گزشتہ ایک سال سے سیاسی عدم استحکام، افراتفری اور غیر یقینی کا شکار ہے۔ سیاست کی ناؤ ہچکولے کھا رہی ہے اور حکومت کی کشتی میں سوراخ ہو چکا ہے۔ معیشت کا جہاز ڈوبنے کو ہے مگر کسی کو بھی اس کی فکر نہیں۔
یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے عوام نے ہجوم کا روپ دھار لیا ہے اور سیاست دانوں کو اپنی سیاست ہی سے فرصت نہیں۔ ملک جن حالات کو پہنچ چکا ہے‘ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ معیشت کوچھوڑیں‘ کیا یہاں آئین کی پاسداری کی جا رہی ہے؟ کیا قانون کا کوئی احترام ہے؟ کیا ایف آئی آر کی کوئی اہمیت رہ گئی ہے؟ کیا چادر اور چار دیواری کی لاج رکھی جا رہی ہے؟ کیا عدلیہ کا احترام ہو رہا ہے؟ کیا کسی کو ریاست اپنے پاؤں پر کھڑی دکھائی دے رہی ہے؟ اگر نہیں‘ تو پھر قصور کس کا ہے؟ عمران خان پر سیاسی مقدمات کی سنچری ہونے کو ہے۔ بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ توشہ خانہ کیس ایک سنجیدہ نوعیت کا کیس ہے جس میں خان صاحب کی نااہلی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ بادی النظر میں انہوں نے حقائق چھپائے ہیں۔ انہیں اس کیس میں عدالت کا ضرور سامنا کرنا چاہیے تھا مگر وہ ایک بار بھی پیش نہیں ہوئے۔ عدالتوں نے انہیں راستہ دیا مگر خان صاحب نے فائدہ نہ اٹھایا۔ سیشن عدالت نے ناقابلِ ضمانت وارنٹ نکال دیے مگر وہ پھر بھی لیت ولعل سے کام لیتے رہے۔ پولیس انہیں گرفتار کرنے گئی مگر ہجوم نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں یہ کون لوگ ہیں‘ جو زمان پارک کے باہر بیٹھے ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ کیا انہیں کوئی اور کام نہیں ہے؟ یہ لوگ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کیسے پالتے ہیں؟ ان کی ایسی کون سی مجبوری ہے جو انہوں نے اتنا بڑا رسک لیا؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تین دن تک زمان پارک میں جس طرح کی لاقانونیت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا‘ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی؟ کیا قانون کی پاسداری ایسے کی جاتی ہے؟ کیا ریاست کے سامنے ایسے ہی سینہ تان کرکھڑا ہوا جاتا ہے؟ پولیس گرفتار کرنے آئی تھی تو گرفتاری دینے میں حرج کیا تھا؟ چند روز بعد ضمانت مل ہی جانا تھی۔ کیا اس سے پہلے کوئی سیاستدان‘ کوئی سابق وزیراعظم جیل نہیں گیا؟ جس طریقے سے عمران خان پیشیوں پر عدالت جاتے ہیں‘ ایسے کون جاتا ہے؟ ہزاروں لوگوں کو اپنے ساتھ عدالت کیوں لے جایا جاتا ہے؟ جج صاحبان کو گھنٹوں انتظار کیوں کرایا جاتا ہے؟ کیا امریکہ اور برطانیہ میں ایسا ممکن ہے؟ اگر یہ رویہ کسی برطانوی سیاست دان نے روا رکھا ہوتا تو سوچیں کیا ہوتا؟ اب تو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ عمران خان کا فرمان ہی قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر نہیں‘ تو پھر ہم بطور قوم اس عمل کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟
اس میں کیا شبہ ہے کہ عمران خان وزیراعظم بننے کے بعد مسلسل غیر مقبول ہو رہے تھے مگر وزارتِ عظمیٰ کو چھوڑتے ہی وہ دوبارہ مقبولت کے راستے پر نکل کھڑے ہوئے۔ امریکہ مخالف بیانیے نے انہیں پھر سے عوام کا چہیتا لیڈر بنا دیا۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اُس مقبولیت کے ساتھ بھی دوبارہ اقتدار میں آ سکتے تھے۔ انہیں کسی لانگ مارچ کی ضرورت تھی نہ دھرنوں کی۔ قومی اسمبلی سے مستعفی ہونا اہم تھا نہ دو صوبوں میں اپنی حکومتیں ختم کرنے کی ضرورت تھی۔ عمران خان نے شاید عوام کا مزاج دیکھ کر سسٹم سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا۔ انہو ں نے ''ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کا فارمولا اپنایا۔ انہوں نے ہر وہ کام کیا جس سے سسٹم کمزور ہو۔ بدلے میں حکومت نے بھی وہی رویہ اختیار کیا۔ ایک کے بعد ایک ایف آئی آر کاٹی گئی۔ گرفتاریا ں کی گئیں مگر عمران خا ن کے سامنے بند نہ باندھ سکی۔ ا ب عمران خان مقبولیت کے بامِ عروج پر ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں جیت اپنی مٹھی میں قید نظر آ رہی ہے اور وہ اب اہم حلقوں کو نیچا دکھانے کے آرزو مند ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ پیڑ پر مسلسل پتھر تو مار رہے ہیں مگر پھل ابھی کچا ہے۔ وہ اقتدار کے کچے پھل سے اپنی بھوک نہیں مٹا سکیں گے بلکہ الٹا بدہضمی کا شکار ہو جائیں گے۔ پھر کیا کریں گے؟ گزشتہ ایک سال کے سیاسی عدم استحکام اور اقتدار کی رسہ کشی نے ملک کو معاشی طور پر وہاں پہنچا دیا ہے جہاں اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی عمران خان کے لیے مشکلات ہی مشکلات ہوں گی۔ انہیں جیسے تیسے حکومت تو شاید مل جائے مگر اسے چلائے گا کون؟ عمران خان کی سیاسی اور غیر سیاسی دشمنیاں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ اب کوئی ان کی مدد نہیں کرے گا۔ یقین جانیں! اگر سیاست دانوں نے فوری طورپر اناؤں کی قربانی نہ دی اور مل بیٹھ کرکوئی سیاسی حل نہ نکالا تو پھر حالات کو مزید بگڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ وفاقی حکومت کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرناہوگا۔ محض عمران خان پر مقدمات بنانے اور تصادم کی راہ پر چلنے سے ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔اقتدار میں آنے کی جلدی سیاست دانوں کو ہوتی ہے اور اس کی سزا عوام کو بھگتنا پڑتی ہے۔ ستم دیکھیں کسی کا گھر جل جاتا ہے اور کوئی اس آگ سے اپنے ہاتھ سینکتا ہے۔ منیش شکلا کا شعر ملاحظہ کریں :
کتنی عجلت میں مٹا ڈالا گیا
آگ میں سب کچھ جلا ڈالا گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں