نشتن‘ گفتن‘ برخاستن

خاموشی فنا سے زیادہ کرب ناک ہوتی ہے اور سچ نہ بولنے کا دکھ جان لیوا ہوتا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری سیاست بیک وقت راز بھی ہے اور آشکار بھی۔ اہلِ سیاست کو لفظوں کی فسوں گری آتی ہے اور جنہیں سیاست پر مَلکہ حاصل ہے وہ زبان کی اس چاشنی سے محروم ہیں۔ وہ کھل کر بول سکتے ہیں نہ اپنا ما فی الضمیر بیان کر سکتے ہیں۔ اس لیے سیاست دان ہی سیاست کا چہرہ ہوتے ہیں۔ گزشتہ پچھتر برسوں کی داستان بتاتی ہے کہ کوئی تھا جو سیاست دانوں کو کنٹرو ل کرتا رہا‘ جو انہیں بے لگام ہونے سے روکتا رہا‘ جو انہیں خوہشات کے کھلے سمندر میں ڈوبنے سے بچاتا رہا۔ سوال یہ ہے کہ اب ایسا کیوں نہیں کیا جا رہا؟ سیاست دانوں نے ملک، آئین اور قانون کو اکھاڑا بنا دیا ہے مگر کوئی روکنے والا ہی نہیں۔ کیوں؟
آئینِ پاکستان کہتا ہے کہ سیاست، حکومت اور قانون سازی اہلِ سیاست کا کام ہے۔ مقتدر شخصیات اور ادارے اس میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ ستم ملاحظہ کیجئے! جب آئین کی خلاف ورزی کر کے سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی کی جاتی تھی تو سیاست دانوں میں توازن قائم تھا۔ کسی میں اتنی جرأت نہ تھی کہ سرکشی کی راہ اختیار کرتے ہوئے آئین کی پامالی کا مرتکب ہو، سپریم کورٹ کے فیصلوں کو ہوا میں اُڑائے، اعلیٰ عدلیہ پر تنقید کے نشتر چلائے، الیکشن کرانے سے انکار کرے، الیکشن کمیشن کو فنڈز دے نہ سکیورٹی، عالمی معاہدوں سے انحراف کرے، خارجہ پالیسی میں رخنہ ڈالے، دوست ممالک پر جھوٹے الزامات لگائے اور من مرضی کو قانون کا درجہ دیدے۔ اہلِ سیا ست ایسا کرنے سے پہلے ہزار بار سوچا کرتے تھے مگر اب الٹی گنگا بہہ نکلی ہے۔ سیاست دان سیاہ کریں یا سفید، جھوٹ بولیں یا سچ، ملک کو فائدہ دیں یا نقصان، آئین پر عمل کریں یا انحراف، اداروں میں تصادم ہو یا ہم آہنگی، عوام کو پھول پیش کریں یا کانٹے، مہنگائی ہو یا بدانتظامی، کاروباری ماحول سازگار ہو یا عدم استحکام کی آندھی سب کچھ بہا کر لے جائے‘ کسی کو چنداں فرق نہیں پڑتا۔ جو توازن کی علامت تھے وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھانے میں مگن ہیں اور سیاست دانوں کی لڑائی ختم کرانے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کر رہے۔ آخر کب تک ملک اس روش کا متحمل ہو سکتا ہے؟ آخر کب تک سیاست کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا جا سکتا ہے؟ آخر کب تک پھول کانٹوں کی چبھن برداشت کر سکتے ہیں؟ آخر کب تک بپھرے ہوئے جانوروں کو تیار فصل تباہ کرنے کا اختیار دیا جا سکتا ہے؟ کسی کو تو آگے بڑھ کر یہ سب روکنا ہوتا ہے۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سیاست کی بساط پر سیاست کے اصل کھلاڑیوں کی واپسی ہوئی ہے‘ اسی لیے حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے آمادہ ہوئے ہیں ورنہ دو طرفہ برف پگھلنے کا سبب اور کیا ہو سکتا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے مقتدر حلقوں نے چیف جسٹس صاحب کو بریفنگ دی ہے‘ حالات بدلے بدلے سے ہیں۔ تناؤ اور انتشار کے ماحول میں کمی آئی ہے اور سیاسی مذاکرات کے قصیدے پڑھے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مذاکرات تو شروع ہو گئے ہیں مگر کیا یہ نتیجہ خیز ثابت ہوں گے؟ دونوں طرف سے سنجیدگی دکھائی جائے گی یا ہٹ دھرمی کی روش برقرار رہے گی؟ پی ٹی آئی اپنے دیرینہ موقف سے پیچھے ہٹ چکی ہے اور چودہ مئی کے بجائے جولائی میں یکساں الیکشن کے لیے راضی ہے۔ کیا حکومت بھی لچک کا مظاہرہ کرے گی؟ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہو سکیں گے؟ اور سب سے بڑھ کر‘ وزیراعظم اور کابینہ نااہلی کی تلوار سے بچ پائیں گے یا پارلیمنٹ کو ایک اور وزیراعظم کی قربانی دینا پڑے گی؟ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی‘ دونوں ہی کسی مجبوری یا محض دکھاوے کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہیں اور اصلاً دونوں اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ فریقین بس ایک دوسرے کو بیانیے کے دوڑ میں زیر کرنا چاہتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم بااختیار ہے نہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی۔ حکومتی کمیٹی کو کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کو اکتوبر میں الیکشن کے لیے راضی کیا جائے اور بدلے میں مقدمات میں نرمی برتی جائے گی، نئے مقدمات نہیں بنائے جائیں گے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی کمیٹی کو چیئرمین پی ٹی آئی نے ہدایات کی ہیں کہ اگر حکومت فوری طور پر قومی اسمبلی توڑ کر الیکشن کرانا چاہتی ہے تو ہی بات چیت کوآگے بڑھایا جائے‘ اور اگر وہ دوبارہ ستمبر‘ اکتوبر میں الیکشن کی بات کرے تو مذاکرات کو طول دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جب دونوں طرف کے حالات یہ ہوں تو مذاکرات کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اپنائے بغیر کوئی مثبت پیش رفت کیسے ممکن ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ ان سیاسی مذاکرات سے کوئی مثبت نتیجہ نکلے گا اور پورے ملک میں یکساں الیکشن کی راہ ہموار ہو سکے گی۔ یہ محض نشتن، گفتن، برخاستن کی مشق ہے‘ دیکھئے کب تک جاری رہتی ہے۔
مجھے ذاتی طور پر سب سے زیادہ افسوس قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس دیکھ کر ہوتا ہے۔ اداروں کی بالادستی کی جنگ نے ہمارے ارکانِ اسمبلی کو بے لگام کر دیا ہے۔ ایسی ایسی گفتگو کی جا رہی ہے کہ سن کر کان لال ہو جاتے ہیں اور ان سے دھواں نکلنے لگتا ہے۔ خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ کے بیانات دل دہلا دینے والے ہیں۔ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ ہم تین رکنی بینچ کے کسی فیصلے کو نہیں مانتے جبکہ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ''اگر عدالت نے ہمیں توہین عدالت میں طلب کیا تو ہم انہیں توہین پارلیمنٹ میں طلب کریں گے، اگر وہ نہیں آئے تو ہم بھی نہیں جائیں گے‘‘۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے اور وہ کسی کو بھی طلب کر سکتی ہے مگر آئین کا آرٹیکل 68 کہتا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ججز کے کنڈکٹ کو پارلیمنٹ میں موضوعِ بحث ہی نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر پارلیمنٹ میں ججز کے کنڈکٹ پر گفتگو نہیں ہو سکتی تو انہیں طلب کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ سیدھی سیدھی دھونس اور دھمکی ہے، عدلیہ کو پریشر میں لانے کی کوشش اور میری دانست میں آئین شکنی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو انتشار اور فساد بڑھے گا۔ پھر وزیراعظم کا 180 ارکان سے ''اعتماد‘‘ کا ووٹ لینا بھی کام نہیں آئے گا۔ پھر توہینِ عدالت کی کارروائی بھی ہو سکتی ہے اور انہیں عہدے سے ہٹایا بھی جا سکتا ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ محاذ آرائی سے گریز کرے اور مذاکرات کو اہمیت دے۔ ملک اس وقت جس پاتال میں ہے‘ وہاں سے اسے نکالنا نہایت ضروری ہے۔ مذاکرات ہی وہ واحد راستہ ہیں جو ملک کو آئینی، سیاسی، معاشی اور سماجی بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔
سیاست دانوں کو اب تک ادراک ہو چکا ہو گا کہ اصل سٹیک ہولڈرز کی واپسی ہو چکی ہے۔ اگر وہ دونوں حریفوں کو مذاکرات کے لیے راضی کر سکتے ہیں تو اپنی بات بھی منوا بھی سکتے ہیں۔ اس وقت حالات بہت خراب ہیں‘ عام آدمی کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ مہنگائی کا عفریت غریبوں کی زندگیاں نگل رہا ہے۔ سفید پوش طبقہ برتر حالات سے نہایت پریشان ہے۔ کاروبار بند ہو رہے ہیں اور بیروزگاری کا گراف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ خدارا! ملک اور قوم پر رحم کھائیں اور مسئلے کے حل کی جانب بڑھیں‘ ورنہ سیاسی کشیدگی جو راہ اختیار کر رہی ہے‘ وہاں آگے صرف تباہی ہے۔ آگے وہ دلدل ہے جس میں ہم پہلے بھی متعدد مرتبہ دہائیوں کے لیے دھنس چکے ہیں۔ اگر سیاست دانوں نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نہ کیا تو ہم ایک بار پھر اس دلدل میں دھنس جائیں گے۔ پھر مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ کچھ آئے گا نہ پی ٹی آئی کے۔ پیپلز پارٹی کا دامن بھی خالی رہے گا اور جے یو آئی کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔ پھر خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے 'چند‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں