موت کا سفر

اقتدار، اختیار اور دولت کی ہوس انسان سے اچھے اور برے کی تمیز چھین لیتی ہے جبکہ بھوک، غربت اور افلاس لاقانونیت کی جانب مائل کرتے ہیں۔ جب سے سانحہ یونان ہوا ہے‘ یہ دونوں خیالات لوگوں کے ذہنوں میں گھر کیے ہوئے ہیں۔ کچھ افراد کا ماننا ہے کہ بیروزگاری اور مہنگائی نے ان سینکڑوں‘ ہزاروں پاکستانیوں کو غیر قانونی راستے پر دھکیلا۔ دوسری طرف ان لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ اندوہناک واقعہ دولت کی بے پناہ ہوس کا شاخسانہ ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو‘ لگ بھگ چار سو پاکستانیوں کی بے بسی اور کسمپرسی کی موت نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہر دل اس سانحے پر سوگوار ہے اور ہر آنکھ آشکبار۔
پاکستان میں انسانی سمگلنگ اور ٹریفکنگ کا مکروہ دھندہ دہائیوں سے جاری ہے۔ حکومتیں آتی اور چلی جاتی ہیں مگر انسانی سمگلروں کی ناکہ بندی نہیں ہو پاتی۔ ایف آئی اے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کرتی رہتی ہے مگرانسانی سمگلروں کا نیٹ ورک بریک نہیں ہوتا۔ چند سال قبل غیر قانونی طریقے سے یورپ جاتے ہوئے پچاس کے قریب پاکستانی کنٹینر میں دم گھٹنے سے جان کی بازی ہار گئے تھے۔ اس پر بہت شور مچا، واویلا ہوا، بڑے بڑے دعوے کیے گئے مگر سب بے سود۔ اگر اُس وقت ان انسانی سمگلروں کا قلع قمع کر دیا جاتا‘ ان کے خلاف پوری قوت سے آپریشن کیا جاتا تو شاید یونان میں سینکڑوں پاکستانی بے موت نہ مرتے۔ برطانوی میڈیاکے مطابق ڈوبنے والی کشتی میں پاکستانیوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا تھا۔ باقی ملکوں کے شہریوں کو کشتی کے اوپر کے حصے میں رکھا گیا تھا جبکہ ہمارے ہم وطنوں کو نیچے دھکیل دیا گیا تھا۔ جب کشتی خراب ہوئی تو بہت سی اموات دم گھٹنے کے باعث بھی ہوئیں۔ جب پاکستانی نیچے سے اوپر کے حصے میں آنے کی کوشش کرتے تو انہیں زد و کوب کیا جاتا اور واپس بھیج دیا جاتا۔ پاکستانیوں کی اتنی تذلیل کیوں کی گئی؟ کیا وہ انسان نہیں تھے؟ کیا ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ پاکستانی تھے؟ ستم بالائے ستم یونان کے کوسٹ گارڈ کشتی کو ڈوبتے ہوئے دیکھتے رہے اور انسانی جانوں کو بچانے کی کوشش تک نہ کی گئی۔ پورا یونان سراپا احتجاج ہے مگر اب کیا فائدہ! مرنے والے تو لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ بہت سی لاشیں اب بھی لاپتا ہیں۔ اقوام متحدہ کے دبائو پر سرچ آپریشن دوبارہ شروع کیا گیا ہے‘ دیکھیں اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر سال ہزاروں پاکستانی غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ کیا اس کی وجہ غربت ہے یا کچھ اور؟ غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کا رجحان پنجاب کے پانچ سے چھ اضلاع اور آزاد کشمیر کی حد تک ہی کیوں محدود ہے؟ پاکستان کے دیگر علاقوں کے شہری غیر قانونی راستہ اختیار کیوں نہیں کرتے؟ میری دانست میں یہ مسئلہ اس قدر گمبھیر نہیں ہے کہ اسے سمجھا نہ جا سکے۔ پاکستانیوں کے برطانیہ اور یورپ جانے کی کہانی کا آغاز صدر ایوب خان کے دور سے ہوتا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں جب منگلا ڈیم بنانے کا فیصلہ ہوا تو بہت سے گائوں‘ دیہات اس کی زد میں آ ئے تھے۔ لوگوں نے احتجاج شروع کر دیا۔ انہی دنوں پاکستان کو برطانیہ سے کچھ ورک ویزوں کی آفر ہوئی تھی لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ منگلا ڈیم کے متاثرین کے ہر گھرانے سے ایک شخص کو برطانیہ بھیج دیا جائے۔ ان لوگوں نے وہاں جا کر محنت کی اور اپنے اہلِ خانہ کو پیسے بھیجنا شروع کر دیے۔ اس پیسے سے میرپور شہر میں نئے نئے گھر‘ کوٹھیاں اور بنگلے بنائے جانے لگے، گاڑیاں خریدی گئیں، لائف سٹائل کو بہتر کیا گیا اور کچھ لوگوں نے کاروبار بھی شروع کر دیا۔ چند ہی سالوں میں پورا علاقہ خوشحال ہوگیا تو ساتھ والے اضلاع کے لوگوں نے بھی ترغیب حاصل کی۔ انہوں نے اپنی زمینیں بیچیں اور برطانیہ اور یورپ جانے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان علاقوں میں غربت ختم ہونے لگی۔ ہر کسی کے پاس دولت کے انبار لگ گئے۔ اب یہ عالم ہے کہ آزاد کشمیر، گجرات، جہلم، منڈی بہاؤ الدین اور گوجرانوالہ کے تقریباً ہر دوسرے گھر سے کوئی نہ کوئی فرد یورپ میں مقیم ہے۔ لوگ لاکھوں روپے دے کر یورپ جاتے ہیں اور جو قانونی طریقے سے نہیں جا پاتے وہ غیر قانونی طریقہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اس غیر قانونی طریقے کو ان مخصوص اضلاع میں ''ڈنکی لگانا‘‘ بولا جاتا ہے۔ صرف اَن پڑھ یا نیم خواندہ افراد ہی نہیں‘ اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی منہ زور خواہشات کے آگے بے بس ہو جاتے اور ڈنکی لگاتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ رجحان محض غربت کے باعث ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو باقی اضلاع کے لوگ بھی یہ راستہ اختیار کرتے کیونکہ غربت تو پورے ملک میں یکساں ہے۔ گوادر سے لے کراچی اور گلگت بلتستان تک‘ ہر طرف مہنگائی کا راج‘ بھوک کی حکمرانی ہے اور غربت نے چہار سو ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ دوسروں کو دیکھ کر امیر ہونے کی خواہش ہر سال ہزاروں لوگوں کو موت کے سفر پر بھیجتی ہے۔ ان میں سے کچھ افراد راستے میں ہی مارے جاتے ہیں اور کچھ کو قسمت ان کی منزل تک پہنچا دیتی ہے۔
پاکستان سے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کے تین راستے ہیں؛ زمینی، فضائی اور بحری۔ پہلا زمینی راستہ کراچی سے تفتان، ایران، ترکیہ اور وہاں سے یورپ۔ دوسرا زمینی راستہ کراچی سے لسبیلہ اور کیچ سے ہوتا ہوا ایرانی سرحد تک جاتا ہے اور پھر ترکیہ اور یورپ۔ تیسرا زمینی راستہ کوئٹہ، تفتان، ایران، ترکیہ اور یورپ کا ہے۔ پہلے ترکیہ سے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کی جاتی تھی مگر اب اس سرحد پر زیادہ سختی ہونے کی وجہ سے لیبیا کے راستے یونان میں داخل ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر سمندری راستے کی بات کریں تو کراچی اور گوادر سے عمان اور وہاں سے ترکیہ اور پھر یورپ۔ کچھ امیر لوگ فضائی راستہ بھی اختیار کرتے ہیں۔ وہ کراچی سے دبئی، وہاں سے لیبیا اور پھر کشتیوں کے ذریعے بحیرۂ روم سے ہوتے ہوئے یورپ میں داخل ہوتے ہیں۔ ایران اور ترکیہ میں پہاڑی راستہ بھی آتا ہے۔ انسانی سمگلر یورپ جانے کے خواہشمند افراد کو چار سے پانچ دن تک ان پہاڑوں میں چلاتے رہتے ہیں اور جو راستے کی سختی کی وجہ سے مر جاتا ہے یا بیمار ہو کر چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا‘ اسے وہیں پھینک کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ مرحلہ عبور کرنے کے بعد کنٹینروں میں چھپا کر آگے لے جایا جاتا ہے‘ اس کے علاوہ بھی نجانے کون کون سے غیر انسانی عمل سے گزارا جاتا ہے۔ ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق 2017ء میں 7000 کے قریب لوگوں نے غیر قانونی طریقے سے بارڈر کراس کیا جبکہ دو سال پہلے 19 ہزار لوگوں کو مختلف ممالک سے ڈی پورٹ کیا گیا تھا کیونکہ وہ غیر قانونی طریقوں سے ان ملکوں میں داخل ہوئے تھے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر یہ افراد محض غربت اور بیروزگاری سے تنگ آکر غیر قانونی طریقے سے یورپ جاتے ہیں تو ان کے پاس سمگلروں کو دینے کے لیے بیس سے پچیس لاکھ روپے کہاں سے آتے ہیں؟ اتنے پیسوں سے اپنے ملک میں اچھا خاصا کام شروع کیا سکتا ہے، پھر اتنا بڑا رسک لینے کی ضرورت کیا ہے؟
پاکستان میں صرف انسانی سمگلنگ ہی نہیں ہوتی‘ انسانی ٹریفکنگ کا دھندہ بھی عروج پر ہے۔ کچھ لوگوں کو اغوا اور بہت سے شہریوں کو خرید کر دوسرے ممالک میں لے جایا جاتا ہے‘ جہاں ان کے اعضا فروخت کیے جاتے ہیں۔ یونائیٹڈ نیشن آفس آن ڈرگز اینڈ کرائم کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر سال پاکستان سے تین لاکھ لوگوں کو ٹریفک کیا جاتا ہے جن میں کمسن بچے اور بچیاں بھی شامل ہیں۔ پاکستان نے 2000ء میں یونائیٹڈ نیشنز کنونشن پر دستخط کیے تھے لیکن 2018ء میں انسانی سمگلنگ اور ٹریفکنگ میں تفریق کرتے ہوئے 'پریونشن آف ٹریفکنگ ان پرسن ایکٹ‘ اور 'پریونشن آف سمگلنگ آف امیگرنٹس ایکٹ‘ لاگو کیے‘ جن پرآج بھی مؤثر طریقے سے عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔ پی پی سی کے سیکشن 371 اے اور بی میں بھی اس حوالے سے سزائیں موجود ہیں مگر کسی کو کوئی خوف ہی نہیں۔ سانحہ یونان سے پاکستان کی بہت جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ ہمیں اب اس مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنا ہے۔ انسانی سمگلروں کے خلاف بلاتفریق کریک ڈاؤن ناگزیر ہو چکا ہے اور قوانین پر عمل درآمد بھی ضروری ہے۔ نوجوانوں کو بھی اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنا ہو گا۔ یورپ ضرور جائیں مگر قانونی طریقے سے۔ غیر قانونی راستہ موت کا سفر ہے۔ خدارا! اپنی جان اور ملک کی عزت کا خیال رکھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں