شرپسندوں کا دفاع مت کریں

بھارت خلا میں مشن بھیج رہا ہے، آئی ٹی کے شعبے میں انقلاب برپا کر رہا ہے، انڈسٹری اور زراعت کی دنیا میں نت نئے رجحانات متعارف کرا رہا ہے، عوام کو مفت بجلی، علاج اور تعلیم فراہم کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے مگر شومیٔ قسمت! ہماری ترجیحات ہی سطحی قسم کی ہیں۔ ہم آج بھی مباحثوں میں پڑے ہیں کہ مرغی پہلے آئی تھی یا انڈا؟ رات کی کوکھ سے دن نکلتا ہے یا دن کے دامن سے رات نمودار ہوتی ہے؟ صبح زیادہ دلکش ہوتی ہے یا شام؟ گزرے چھ ماہ سے ہم یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکے کہ وزیراعلیٰ اسمبلی توڑ دے تو الیکشن کب ہوں گے؟ وزیراعلیٰ قبل از وقت اسمبلی ختم کرنے کا اختیار پارٹی سربراہ کو دے سکتا ہے یا نہیں؟ ابھی تک ان مباحثوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا کہ ہم اب ایک نئی بحث میں پڑ گئے کہ پارلیمنٹ بالادست ہے یا عدلیہ؟ پارلیمنٹ قانون سازی کرے تو عدلیہ اسے سٹرائیک ڈاؤن کر سکتی ہے یا نہیں؟ عدلیہ کے لیے رولز بنانے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے یا نہیں؟ چیف جسٹس بینچ بنانے کافیصلہ کریں گے یا تین سینئر ججز؟ آئینی پٹیشنز سننے کے لیے بینچ کی نوعیت کیا ہو گی؟ سوموٹو کیس میں ملزم کو اپیل کا حق ملنا چاہیے یا نہیں؟ ان معاملات کی گرد بھی ابھی نہیں بیٹھی تھی کہ اب ہمیں تکرار کے لیے نیا موضوع مل گیا ہے۔ ملٹری کورٹس میں سویلینز کا کیس ٹرائل کے لیے پیش ہو سکتاہے یا نہیں؟ آرمی ایکٹ کب عمل میں آتا ہے؟ کن جرائم پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟ عام شہریوں نے کب کب آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ کی خلاف ورزی کی؟ یہ فیصلہ کیسے کیا جاتا ہے کہ فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ملزم ہے یا نہیں؟
ہم بھی عجیب قوم ہیں۔ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب بھاگ رہے ہیں۔ وہ معاملات جو دہائیوں پہلے طے ہو جانے چاہئیں تھے‘ آج بھی تازہ زخم کی مانند رس رہے ہیں۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں نو مئی کے پُرتشدد واقعات میں ملوث شر پسندوں کو ملٹری کورٹس سے بچانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ پی ٹی آئی کے چیئرمین کی استدعا سمجھ میں آتی ہے کہ وہ خود ان کیسز میں ملزم ہیں۔ وہ عدالت کے دروازے پر دستک نہیں دیں گے تو کون دے گا؟ ویسے اصولی طور پر تو ان کے پاس معترض ہونے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے کیونکہ جب وہ وزیراعظم تھے تو ان کے دور میں پچیس سویلینز کا کیس ملٹری کورٹس میں چلا تھا اور ان میں سے تین کو تو سزائے موت تک سنائی گئی تھی۔ اگر وہ ملٹری کورٹس کے اتنے ہی خلاف تھے تو مسندِ اقتدار پر بیٹھ کر خاموش کیوں رہے؟ اس وقت انہیں عام شہریوں کا خیال کیوں نہیں آیا؟ یہی سوال میں اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ جیسے قانونی ماہرین سے بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ چھ دہائیوں سے ملٹری کورٹس کا قانون موجود ہے اور سویلینز بھی اس کی زد میں آتے رہے ہیں‘ پہلے عام شہریوں کے حق کے لیے آپ کیوں کھڑے نہیں ہوئے؟ کیا صرف پی ٹی آئی کے چیئرمین اور ان کے ورکرز ہی سویلینز کے زمرے میں آتے ہیں؟ پچیس کروڑ عوام میں سے کوئی دوسرا شخص آپ کی پٹیشن کا حق دار کیوں نہیں ٹھہرا؟ نو مئی کے ملزمان سے اس ہمدردی کی وجہ کیا ہے؟ میری چند گزارشات سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب سے بھی ہیں۔ کیا بطور سابق چیف جسٹس خواجہ صاحب کو اپنے پرانے کولیگز کے سامنے پٹیشن لے جانے سے اجتناب نہیں کرنا چاہیے تھا؟ کیا سپریم کورٹ کے رولز انہیں ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟ جب 2015ء میں فل کورٹ فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ دے چکا ہے تو انہیں دوبارہ ایسی عرضی لے کر سپریم کورٹ جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ایسا بھی نہیں کہ انہیں علم نہ ہو‘ خواجہ صاحب خود فل کورٹ کا حصہ تھے اور انہوں نے ملٹری کورٹس کی مخالفت کی تھی۔
آرمی ایکٹ بہت واضح ہے۔ اس میں صاف لکھاہے کہ اس ایکٹ کا اطلاق آرمی کے افراد کے علاوہ ان سویلینز پر بھی ہو گا جو ملٹری کی حدود میں جرم سرزد کریں گے۔ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کہتی ہے: آرمی ایکٹ ان تمام سویلینز پر لگایا جا سکتا ہے جنہوں نے فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا ہو یا فوج اور قانون نافذکرنے والے اداروں پر حملہ کیا ہو یا ریاست کے خلا ف ہتھیار اٹھایا ہو یا عسکری معاملات میں دخل اندازی کی ہو یا خوف و ہراس پھیلایا ہو۔ آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ 9 مئی کو عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا تھا یا نہیں؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے ہوئے تھے یا نہیں؟ عسکری معاملات میں دخل اندازی کی گئی تھی یا نہیں؟ عوامی سطح پر خوف و ہراس پھیلا گیا تھا یا نہیں؟ اگر یہ سب جرائم سرزد ہوئے تھے اور قانون بھی موجود ہے تو پھر ملٹری کورٹس کی مخالفت سمجھ سے بالاتر ہے۔ میں مانتا ہوں کہ سول عدالتیں موجود ہیں‘ کیس وہاں بھی چل سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہماری لوئر کورٹس میں فوری انصاف ملتا ہے؟ ایسا بھی نہیں کہ سول عدالتوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ ہزاروں ملزمان کے کیسز دہشت گردی اور دیگر عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ ملٹری کورٹس میں تو اب تک صرف 59 افراد کا کیس ٹرائل کے لیے بھجوایا گیا ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق لاہور کے 28، راولپنڈی کے 8، گوجرانوالہ کے 10، میانوالی کے 5 اور فیصل آباد کے 5 افراد ان میں شامل ہیں۔ دوسری طرف پنجاب حکومت کی عدالت میں پیش کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث 39 خواتین اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر جیلوں میں ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت 51 مقدمات میں 108 ملزما ن جسمانی اور 1247 جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔ دیگر قوانین میں 86 ملزمان جسمانی اور 2464 جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں جبکہ ایم پی او کے تحت 21 افراد جیلوں میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان ہزاروں ملزمان کی بات کیوں نہیں کی جا رہی؟ صرف 59 ملزمان کے لیے ہی اتنا واویلا کیوں کیا جا رہا ہے؟
ملٹری کورٹس کے حوالے سے کیس سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے ماضی کو سامنے رکھ کر فیصلہ سنانا چاہیے۔ سپریم کورٹ میں متعدد بار فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلے آچکے ہیں۔ اب کی بار یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ 2007ء میں مشتاق احمد بمقابلہ سیکرٹری دفاع کیس میں کیا کہا گیا تھا؟ 2015ء میں اکیسویں ترمیم کیس میں فل کورٹ نے کیا فیصلہ دیا تھا اور 2017ء میں زمان خان بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کیس میں کیا فیصلہ آیا تھا؟ ان عدالتی فیصلوں میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کو جائز قرار دیا گیا تھا۔ جسٹسقاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے بینچ کو ہی غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس بینچ کا فیصلہ سب کے لیے قابلِ قبول ہوگا یا نہیں؟ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب عرفان قادر کہہ چکے ہیں کہ ملٹری کورٹس کے خلاف سپریم کورٹ کے بینچ کے فیصلے کو کوئی ماننے کو تیار نہیں ہو گا۔اگر فیصلہ خلاف آیا تو اس پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا اور اس کا بھی وہی حال ہو گا جو پنجاب الیکشن کے حوالے سے فیصلے کا ہوا تھا۔ یہ انتہائی نازک صورتحال ہے اور فریقین سے تحمل اور بردباری کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اگر ایسے ہی سپریم کورٹ اور حکومت آمنے سامنے آتے رہے تو ملک کا بہت نقصان ہو گا۔ عوام کو فوری انصاف ملے گا نہ سانحہ 9 مئی کے کرداروں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکے گا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر کی کیا صورتحال ہے۔ اگر ہم ماضی کی طرح چھوٹ دیتے رہے تو کوئی نہ کوئی بگاڑ پیدا کرتا ہی رہے گا۔ اگر ہمیں ملک کا امن عزیزہے تو پھر نو مئی کے واقعات میں ملوث شرپسندوں کو عبرت کا نشان بنانا ہو گا۔ جو قومیں شرپسندوں کا دفاع کرتی ہیں وہ تباہی کے راستے پر چل نکلتی ہیں۔ شرپسندوں سے کسی طور نرمی نہیں برتنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں