کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی

کامیابی اور ناکامی کا تعلق عمر، تجربے اور تعلیم سے زیادہ صلاحیت، اہلیت اور لگن سے ہوتا ہے۔ سخت محنت انسان کی صلاحیتوں کو نکھار دیتی ہے اور مٹی کو بھی کندن بنا دیتی ہے۔ کون کہتا ہے کہ اعلیٰ پرفارمنس دکھانے کے لیے وقت کی فراوانی اور دہائیوں کا ساتھ چاہیے؟ اگر ایسا ہوتا تو آج شیر شاہ سوری کا کوئی نام لیوا نہ ہوتا۔ وہ تو صرف پانچ سال حکمران رہا مگر تاریخ کے اوراق پر اس کا نام سنہرے حروف سے لکھا ہے۔ سعادت حسن منٹوصرف 42 سال زندہ رہے مگر اردو ادب کا ذکر ان کے نام کے بغیر ادھورا ہے۔ اسی طرح مدھو بالا اور شِو کمار بٹالوی‘ دونوں ہی 36 سال کی عمر میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے مگر کیا فلمی دنیا سے مدھو بالا اور پنجابی شاعری سے شو کمار بٹالوی کو مائنس کیا جا سکتا ہے؟ سکندر یونانی نے 33 سال کی عمر میں آدھی دنیا فتح کر لی تھی۔ نیرو اور سکندر کا تعلق ایک ہی خطے سے تھا مگر دونوں میں فرق اہلیت کا تھا۔ نیرو بزدلی، بے حسی اور ناکامی کا استعارہ بن گیا اور سکندر‘ سکندرِ اعظم کہلایا۔
گزشتہ روز ایک وفاقی وزیر سے ملاقات ہوئی۔ موصوف کہنے لگے کہ اگر ہماری حکومت کو ایک سال اور مل جاتا تو ہم ملک کے معاشی اور سیاسی مسائل کو ہمیشہ کے لیے حل کر دیتے۔ میں نے عرض کی کہ آپ کی خواہش آئینِ پاکستان کی نفی ہے۔ آئین صرف جنگ کے دنوں میں اسمبلی کی مدت بڑھانے کی اجازت دیتا ہے مگر سرِ دست ملک کو ایسی کوئی صورتحال درپیش نہیں ہے۔ میں نے انہیں پنجابی کا ایک محاور ہ سنایا 'جیہڑے لہور وچ بھیڑے او پشور وی بھیڑے‘ (جو لاہور میں برے ہیں‘ وہ پشاور میں بھی برے ہی رہیں گے)۔ جو حکومت سوا سال میں کچھ نہیں کر سکی‘ اسے ایک سال مزید بھی مل جائے تو وہ کیا مختلف کر لے گی؟ شہباز حکومت کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو اس نے معیشت کے مسائل کو کم نہیں بلکہ دوچند کیا ہے۔ اگر جذباتی ہونے کے بجائے صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جاتا تو یقینا حالات کی کشتی بھنور سے نکل سکتی تھی۔ قرض لے کر حکومت چلانا اور پھر قرض اتارنے کے لیے مزید قرض لینا، یہ کہاں کی معاشی پالیسی ہے؟ کون سے ترقی یافتہ ملک نے ایسا کیا ہے؟ کون سی معیشت کی کتاب میں ایسا لکھا ہے؟ سٹیٹ بینک نے قرضوں کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق شہباز حکومت نے اپنے پہلے گیارہ ماہ کے دوران 11 ہزار 130 ارب کا قرضہ لیا ہے۔ حکومت نے اوسطاً یومیہ 33 ارب 89 کروڑ اور ہر گھنٹے میں 1 ارب 40 کروڑ 95 لاکھ روپے قوم کے سر پر قرضوں کا بوجھ لادا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے اختتام پر ملک کا مجموعی قرضہ 44 ہزار 644 ارب تھا جو اب بڑھ کر 58 ہزار 962 ارب روپے ہو چکا ہے۔ ملک مکمل طور پر قرضوں کے گرداب میں پھنس چکا ہے اور اس میں کسی ایک حکومت کا نہیں بلکہ ماضی کی ساری حکومتوں کا قصور ہے۔ کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ ساری سیاسی جماعتوں کا دوش ہے۔ مصطفی زیدی کا شعر ملاحظہ کریں:
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
میں نے وفاقی وزیر صاحب سے کہا: آپ کی حکومت تو معاشی مسائل کا ادراک ہی نہیں کر سکی۔ مہنگائی 13 فیصدسے بڑھ کر 38 فیصد پر چلی گئی تھی‘ جو اب کچھ کم ہو کر 29 فیصد پر آئی ہے، ڈالر کی قدر 188 سے بڑھ کر 287 پر چلی گئی، برآمدات اور ترسیلاتِ زر ایک سال میں سات ارب ڈالر کم ہو گئیں، زرِمبادلہ کے ذخائر 11 ارب ڈالر سے گھٹ کر چار ارب ڈالر پر آ گئے، ایل سیز بند ہونے کے باعث درآمدات کے کاروبار کو تالے لگ گئے، ملک کی بڑی صنعتوں کی گروتھ منفی میں چلی گئی، سرکلر ڈیٹ بڑھ گیا اور بے روزگاری عام ہو گئی۔ حکومت گرتی معیشت کا راستہ روکنے میں ناکام رہی۔ ہاں البتہ! سیاسی مخالفین کو اس نے ضرور دیوار سے لگا دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ''کارنامہ‘‘ حکومت کا ہے بھی یا نہیں؟ غیر جانبدار ہوکر تجزیہ کیا جائے تو پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ میں حکومت سے زیادہ عمل دخل خان صاحب کے اپنے غلط اور غیر سیاسی فیصلوں کا ہے۔ حکومت کی کوششوں سے بڑھ کر اس حال کو پہنچانے میں ان کی اپنی ضد، اَنا اور ہٹ دھرمی کا زیادہ ہاتھ ہے۔ حکومت انہیں گرانے میں شاید کبھی کامیاب نہ ہو پاتی اگر نو مئی کو پی ٹی آئی خود اس کا جواز پیش نہ کرتی۔ منیر نیازی یاد آتے ہیں:
کجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ 'سانوں‘ مرن دا شوق وی سی
طاقتوروں کی دنیا کا اصول ہے کہ مرتے کو مارا جاتا اور گرتے کو گرایا جاتا ہے۔ نو مئی کے بعد پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین جیسے ہی کمزور ہوئے‘ حکومت کا حوصلہ ہمالیہ کو چھونے لگا۔ حکومت نے نو مئی کے پُرتشدد واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف درج ہونے والے مقدمات میں پی ٹی آئی چیئرمین کو بھی نامزد کردیا ہے۔ ان میں دو راولپنڈی‘ ایک گوجرانوالہ اور ایک فیصل آباد کا مقدمہ ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین پر نو مئی کی منصوبہ بندی کرنے اور عوام کو اشتعال دلانے کے الزامات ہیں۔
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ بہت جلد چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کر لیا جائے گا اور پھر ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں کیس چلے گا۔ اگر اعلیٰ عدالتوں سے ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلہ نہ آیا تو جلد نو مئی کے سارے کرداروں اور منصوبہ سازوں کو سزا سنا دی جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو پی ٹی آئی کا شیرازہ مکمل طور پر بکھر جائے گا۔ یہی نہیں‘ حکومت نے پی ٹی آئی چیئرمین کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنے کے لیے نیب ترمیمی آرڈیننس بھی جاری کیا ہے جس کی سب سے اہم شق ہے کہ کسی کو کوئی فائدہ پہنچانے کے بدلے تحائف لینا جرم تصور ہو گا اور بارِ ثبوت بھی ملزم پر ہو گا۔ میری دانست میں یہ قانون محض پی ٹی آئی چیئرمین کے لیے لایا گیا ہے اور مذکورہ شق القادر ٹرسٹ کیس کے الزامات کو مدنظر رکھ کرشامل کی گئی ہے۔ اس کیس میں پراپرٹی ٹائیکون کو فائدہ پہنچانے کے بدلے زمین اور ہیرے‘ جوہرات کے تحائف لینے کا الزام ہے۔ یہی نہیں‘ چیئرمین نیب کو مقدمے میں سے کسی کو وعدہ معاف گواہ بنانے کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے۔ یہ شق بھی پی ٹی آئی چیئرمین پر الزامات ثابت کرنے کے لیے معاون ہو گی کیونکہ اطلاعات ہیں کہ دواہم شخصیات کو وعدہ معاف گواہ بنانے کے غرض سے تیار کر لیا گیا ہے اور ان میں سے ایک شخص کا تعلق سابق وزیراعظم کی کابینہ سے ہے۔
وفاقی وزیر نے بہت سی گفتگو آف دی ریکارڈ کی‘ جسے ضبطِ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا مگر مجھے اندازہ ہو گیا کہ آنے والے دنوں میں سیاست میں مزید تیزی آئے گی۔ الیکشن سے قبل حکومت کے سارے مخالفین عملی سیاست سے بہت دور جا چکے ہوں گے۔ موجودہ حکمران اتحاد ہی ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑے گا اور پھر دوبارہ سب مل کر حکومت بنائیں گے۔ پی ٹی آئی کا اسمبلیوںمیں کوئی نام لیوا نہیں ہو گا۔ حکمران اتحاد کھل کرکھیلے گا اور اسے کوئی روکنے والا نہیں ہوگا۔ یہ حکومت کی پلاننگ ہے‘ ہو گا کیا‘ یہ وقت کے ساتھ واضح ہوتا جائے گا؛ تاہم اگر ایسا ہوا‘ تو میں ایک بار پھر خان صاحب سے مل کر ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ آخر انہیں اتنی عجلت کیوں تھی؟ انہوں نے دوسروں کو گراتے گراتے خود کو ہی کیوں پاتال میں گرا لیا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں