(ن) لیگ والی غلطی مت کریں

عرب کے فسوں گر شاعر قیس کے ایک شعر کا ترجمعہ ملاحظہ کریں: عشق اور غم میں سب سے بڑی مماثلت یہ ہے کہ ان کا بوجھ اٹھانے والے صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں‘ خدا جنہیں عشق کرنے اور غم سہنے کی تو فیق دیتا ہے وہ بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ مت بھولیں کہ سیاست مفادات کا کھیل اور ضرورتوں کی دنیا ہے۔ جب تک مفادات کی سانسیں چلتی ہیں پارٹی قیادت سے وفا کی جاتی ہے اور ہر طرح کی دھوپ کو برداشت کیا جاتا ہے مگر جیسے ہی مفادات کا کھیل تمام ہوتا ہے‘ بے وفائی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ پی ٹی آئی قیادت کا بھی یہی المیہ ہے کہ اس کے ساتھی عشق میں وفا اور غم میں برداشت کے قائل نہیں‘ اسی لیے ایک ایک کرکے چلتے بنے۔ پرویز خٹک ہوں یا محمود خان، عثمان بزدار ہوں یا فواد چودھری، علی زیدی ہوں یا عمران اسماعیل‘ ان تمام افراد کے جانے سے پی ٹی آئی اور چیئرمین پی ٹی آئی کو اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا اعظم خان کے اعترافی بیان سے ہو سکتا ہے۔
اعظم خان سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری تھے۔ وہ ہر وقت سائے کی مانند ان کے ساتھ رہتے تھے۔ سابق وزیراعظم ہر اچھا‘ برا کام ان کے ذریعے کراتے تھے۔ اعظم خان کا وعدہ معاف گواہ بننا خان صاحب کی سیاست کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ وہ صرف سائفرکے معاملے پر گواہی نہیں دیں گے بلکہ القادر ٹرسٹ اور توشہ خانہ کیس میں بھی بطور گواہ عدالت میں پیش ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایسا ہوا تو اعظم خان کی گواہی تمام ثبوتوں اور تمام گواہان پر حاوی ہو گی۔ القادر ٹرسٹ اور توشہ خانہ کیس کے تانے بانے وزیراعظم آفس اور وزیراعظم ہاؤس ہی سے ملتے ہیں اور وہاں سارے معالات اعظم خان ہی چلاتے تھے۔ یہ دونوں کیسز اس وقت عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں اور اگر اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے کوئی سٹے نہ آیا تو دو ماہ کے اندر اندر ان کیسز کا فیصلہ آ سکتا ہے‘ جس کے بعد گمانِ غالب ہے کہ‘ میاں نوازشریف کی طرح‘ خان صاحب کی سیاست پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
اعظم خان کے اعترافی بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سائفر کے معاملے پر سابق وزیراعظم سے دو غلطیاں سرزد ہوئیں اور ان دونوں کی الگ الگ سزائیں ہیں۔ اعظم خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ''سائفر بیانیہ سابق وزیراعظم کا سیاسی ڈرامہ اور سوچی سمجھی سازش تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے تمام ترحقائق کو چھپا کرسائفر کا جھوٹا اور بے بنیاد بیانیہ بنایا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں سائفر کو غلط رنگ دے کر عوام کا بیانیہ بدل دوں گا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر ڈرامے کے ذریعے عوام میں ملکی سلامتی کے اداروں بارے نفرت کا بیج بویا۔ سائفر کو جان بوجھ کر ملکی سلامتی کے اداروں اور امریکہ کی ملی بھگت کا غلط رنگ دیا گیا۔ ہمارے منع کرنے کے باوجود انہوں نے ایک سیکرٹ مراسلہ اپنی حکومت بچانے اور ذاتی مفاد کے لیے عوام میں لہرایا‘‘۔ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے یہ سب کچھ اپنے ذاتی مفاد کے لیے کیا تو یقینا یہ وزیراعظم کے حلف اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی کلاز پانچ کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا۔ اس عمل سے ملکی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہوئے۔ قانون میں اس جرم کی سزا چودہ برس قید ہے۔
اعظم خان کے اعترافی بیان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ''سابق وزیراعظم نے سائفر اپنے پاس رکھ لیا جو قانون کی خلاف ورزی تھی۔ سائفر واپس مانگنے پر انہوں نے کہا کہ وہ گم ہو گیا ہے‘‘۔ قانون کہتا ہے کہ کسی بھی خفیہ دستاویزکو کوئی بھی سرکاری عہدے دار اپنی ذاتی ملکیت میں نہیں رکھ سکتا۔ اگر کوئی شخص اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور پھر خفیہ دستاویز کو گم کر دیتا ہے تو اس کو دو سے تین سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اگر دستیاب حقائق کی بنیاد پر تجزیہ کیا جائے تو بادی النظر میں سابق وزیراعظم نے دونوں جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں سمجھایا گیا ہو کہ ایسا نہ کریں اور یہ بھی ممکن ہے انہیں ان جرائم کی شد ت کا اندازہ نہ ہو مگر دونوں صورتوں میں قانون کی خلاف ورزی تو ہوئی ہے۔ اب حکومت ان پر مقدمہ بنانے جا رہی ہے‘ اس ضمن میں ایف آئی اے نے انہیں 25 جولائی کو طلب کیا ہے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی چیئرمین اور اعظم خان کی ایک آڈیو بھی منظر عام پر آچکی ہے جس میں وہ سائفر پر 'کھیلنے‘ کا کہہ رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے آج تک اس آڈیو کی تردید نہیں کی۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اعظم خان نے مذکورہ بیان انڈسٹریل ایریا اسلام آباد کے مجسٹریٹ آوید بھٹی کے روبرو ریکارڈ کرایا ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ یہ بیان ضابطہ فوجداری 164 کا نہیں ہے۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت بیان ریکارڈ کرنے کے لیے ملزم کو بھی طلب کیا جاتا ہے جو اس معاملے میں پی ٹی آئی کے چیئرمین ہیں مگر انہیں نہیں بلایا گیا۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ بیان دفعہ 164 کا ہے یا نہیں؟ اہم بات یہ ہے کہ اعظم خان نے اعترافی بیان ریکارڈ کرایا ہے یا نہیں! اس اعترافی بیان میں لگائے گئے الزامات سچ ہیں یا نہیں؟ اگر یہ محض الزامات ہیں‘ تو بھی ان الزامات کا لگانے والا کون ہے؟ کیا میڈیا نے یہ بیان خود ہی ان سے منسوب کر دیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پی ٹی آئی اعظم خان سے تردید کیوں نہیں کرا دیتی؟ وہ اس وقت اپنے گھر میں ہی موجود ہیں اور دو دن سے ان کے بیان کو لے خوب واویلا ہو رہا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ وہ خاموش کیوں ہیں؟ اگر انہوں نے بیان ریکارڈ نہیں کرایا تو سابق وزیراعظم کے دفاع میں سامنے کیوں نہیں آ رہے؟ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ یہ بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ نہیں ہوا‘ تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق صرف اس صورت میں پڑتا ہے اگر یہ بیان سرے سے اعظم خان نے دیا ہی نہ ہو۔ اس لیے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کو چاہیے پروپیگنڈا کرنے کے بجائے اعظم خان کا تردیدی بیان سامنے لائے۔ بات کو گھمانے سے حقائق تبدیل نہیں ہو جاتے۔
ایف آئی اے نے خان صاحب کے ساتھ اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کو بھی طلب کیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر تعاون نہ کیا گیا تو مذکورہ تینوں افراد کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے یہاں تک کہا ہے کہ سائفر گم نہیں ہوا بلکہ اب بھی چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس ہے‘ جس کو برآمد کرانے کے لیے ریڈ کی جا سکتی ہے۔ قبل ازیں ایک انٹرویو میں خان صاحب خود یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ ان سے سائفر گم ہوگیا تھا‘ یہ وڈیو بیان بھی ان کی مشکلات میں اضافہ کرے گا۔
حکومت اب چند ہفتوں کی مہمان ہے اور الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ وہ اکتوبر کے وسط تک الیکشن کرا دے گا۔ یہ الیکشن پی ٹی آئی کے لیے بہت اہم ہے۔ اگر خان صاحب کو کسی مقدمے میں سزا ہو گئی تو پی ٹی آئی کو امیدوار ہی نہیں ملیں گے اور اگر معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو بھی اس کے پاس سارے حلقوں کے لیے امیدوار نہیں ہوں گے۔ حالات کی تپش بڑھ رہی ہے اس لیے اسے غصہ دکھانے کے بجائے تحمل سے کام لینا ہو گا۔ اگر اسے اپنے پارٹی ورکرز سے لگاؤ ہے تو پھر دوقدم پیچھے ہٹ کر بات کرنا ہو گی۔ حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں اورسارے کیسز دھیرے دھیرے میچور ہو رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ پی ٹی آئی کو بچانا ہے یا اپنی سیاست کو‘ یا پھر دونوں کی قربانی دینی ہے۔ اگر وہ اس وقت سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں اور پارٹی کے معاملات کسی اور کے حوالے کر دیتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ پارٹی بچ جائے۔ جب حالات ٹھیک ہوں تو وہ دوبارہ عملی سیاست میں فعال ہو جائیں۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو خدشہ ہے کہ پارٹی اور خان صاحب کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گی۔ میری تجویز ہے کہ وہ غلطی مت دہرائیں جو پاناما کیس میں میاں نواز شریف نے کی تھی اور جس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں