الیکشن ہوں گے یا نہیں؟

اشیا کی ظاہری ہیئت ہمارے جذبات کے تحت تغیر پذیر ہوتی ہے اور وہ ہمیں حسین اور سحر آفریں دکھائی دیتی ہے۔ حالانکہ حسن و فسوں ہماری اپنی ذات میں ہوتا ہے۔ یہی المیہ ہمار ے حکمرانوں اور عوام کے ساتھ درپیش ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ورکرز اور لیڈر شپ کی نظر سے دیکھا جائے تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی نظر آئیں گی‘ چار سو خوشحالی ہی خوشحالی ہوگی‘ مہنگائی ہوگی نہ بے روزگاری‘ لاقانونیت ہوگی نہ رشوت ستانی‘ صنعتیں پھلتی پھولتی اور برآمدات خطے میں سب سے زیادہ دکھائی دیں گی۔ زراعت کا شعبہ ترقی کر رہا ہوگا اور کسان خوشحالی کے گیت گاتے پھریں گے۔ پورے ملک میں ڈھونڈے سے غربت کا سراغ ملے گا نہ غریب کی جھونپڑی کا پتہ۔ یہی نہیں‘ اگر پی ٹی آئی کے ورکرز اور اکابرین کی آنکھ سے دیکھا جائے تو ملک معاشی طور پر ڈیفالٹ ہو چکا ہوگا‘ ہر شعبے میں بربادی اور تنزلی نظر آئے گی‘ پورا ملک جبر اور ظلم کی اندھیر نگری کا منظر پیش کرے گا‘ نو مئی دشمن کی سازش لگے گی اور چیئرمین پی ٹی آئی سچ اور حق کا استعارہ محسوس ہوں گے‘ پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی سے مستعفی ہونا‘ وفاقی حکومت گرانے کے لیے لانگ مارچ کرنا‘ دھرنے دینا‘ شاہراہیں بندکرنا‘ قمر جاوید باجوہ کو میر صادق اور میر جعفر کہنا‘ نومبر کی تعیناتی کو متنازع بنانا‘ جیل بھرو تحریک شروع کرنا‘ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں توڑنا‘ ملک میں سیاسی عدم استحکام لانا‘ پارٹی چیئرمین کی گرفتاری کے بعد پُر تشدد احتجاج کی منصوبہ بندی کرنا بھی ٹھیک لگے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں قصور کس کا ہے؟ عوام کیوں اپنی پسندیدہ جماعت اور لیڈر کے خلاف ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتے؟ عوام کیوں حکمرانوں کی نااہلیوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالتے ہیں؟ عوام کیوں سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ نہیں کہتے؟ عوام کیوں سیاسی جماعتوں کی ترجمانی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں؟
میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر حکمران اتحاد اتنا پُراعتماد کیوں ہے؟ انہیں کیوں لگتا ہے کہ آئندہ حکومت بھی پی ڈی ایم کی ہوگی؟ اس اعتماد کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ چند روز قبل یہی سوال میں نے ایک وفاقی وزیر پوچھا۔ موصوف نے پہلے زور دار قہقہہ لگایا اور پھر گویا ہوئے: اگر آپ کو تاریخ سے دلچسپی ہے تو آپ کو معلوم ہوگا ترائن کی پہلی جنگ میں کیا ہوا تھا؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وفاقی وزیر نے اپنی بات کو آگے بڑھانا شروع کیا: اس جنگ میں راجپوت بادشاہ پرتھوی راج چوہان کے پاس ایک لاکھ فوج تھی اور شہاب الدین غوری کے ساتھ چند ہزار سپاہی۔ راجپوتوں نے تھوڑی دیر میں ہی شہاب الدین غوری کی فو ج کو مسل کر رکھ دیا تھا۔ شہاب الدین غوری خود شدید زخمی ہوئے گئے تھے اور انہوں نے خلجی غلام کے ذریعے میدانِ جنگ سے بھاگ کر جان پچائی تھی۔ اس لیے یاد رکھیں مقابلہ ہمیشہ برابر کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ ہمارا پی ٹی آئی کے ساتھ کیا مقابلہ؟ ان کے پاس تو سارے حلقوں میں کھڑے کرنے کے لیے امیدوار بھی نہیں ہوں گے۔ وفاقی وزیر نے بات ختم کی تو میں نے کہا: آپ حد سے زیادہ پُر اعتماد ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کا اعتماد ہی آپ کو لے ڈوبے۔ تاریخ گواہ ہے کبھی بھی دشمن کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔ جس نے بھی یہ غلطی کی اس نے منہ کی کھائی۔ آپ ترائن کی پہلی جنگ کو چھوڑیں‘ آپ ترائن کی دوسری جنگ کی بات کریں۔ پرتھوی راج چوہان کے پاس تین لاکھ سے زائد فوج تھی اور شہاب الدین غوری کے ساتھ صرف ایک لاکھ سپاہی۔ اس جنگ میں بھی دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں تھا مگر پرتھوی راج چوہان کو اس کے غرور‘ تکبر اور حد درجہ اعتماد کی باعث شکست ہوئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ پرتھوی راج چوہان شہاب الدین غوری سے بڑا جنگجو تھا مگر اس کی غلطی یہ تھی کہ اس نے اپنے حریف کو کمزور سمجھ لیا تھا۔ اس نے لڑنے سے پہلے ہی جشن کا اعلان کردیا تھا۔ راجپوت فوج ساری رات شراب نوشی کرتی رہی اور نشے میں دھت ہوکر سو گئی۔ غوری نے موقع غنیمت جان کر حملہ کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پرتھوی راج چوہان کی فوج کو کچل ڈالا۔ اس لیے پی ڈی ایم حکومت کو الیکشن سے پہلے جشن منانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے یہی آپ کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہو۔ وفاقی وزیر نے ایک بار پھر زور دار قہقہہ لگایا اور اس کا کوئی جواب دیے بغیر بات بدل دی۔
مسلم لیگ (ن) دعویٰ کر رہی ہے کہ اگلا وزیراعظم بھی ان کا ہوگا جبکہ پیپلز پارٹی بلاول بھٹوکو وزیراعظم بنانے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے آصف علی زرداری اپنی لابنگ کر رہے ہیں اور میاں نواز شریف بھی بھرپور زور لگا رہے ہیں۔ دونوں کی ایک بار پھر دبئی میں ملاقات ہوئی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق نگران وزیراعظم کا تاحال فیصلہ نہیں ہو سکا ہے اور دونوں رہنماؤں نے معاشی ایمرجنسی لگانے کے آپشن پر بھی بات چیت کی ہے۔ میری معلومات اس سے مختلف ہیں۔ نگران وزیراعظم کو لے کر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ نگران وزیراعظم وہی ہوگا جس کو میاں نواز شریف کی تائید حاصل ہوگی۔ ہاں البتہ! آصف علی زرداری نے اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنانے پر اعتراض کیا ہے جس پر میاں نواز شریف نے انہیں مثبت جواب دیا ہے مگر واقفانِ حال کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار نگران وزیر خزانہ ہو سکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) یہ دلیل دے رہی ہے کہ وزیر خزانہ نے الیکشن کروانا ہے نہ بیوروکریسی میں تعیناتیاں کرنی ہیں۔ یہ نگران وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ اور الیکشن کمیشن کا کام ہے اور وہی کریں گے۔ اسحاق ڈار کا معاشی پالیسیوں کے تسلسل کے لیے وزیر خزانہ رہنا ضروری ہے۔ یہ منطق سننے کے بعد آصف علی زرداری خاموش ہو گئے‘ اس لیے اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ رہنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں اگر حکمران اتحاد الیکشن کو متنازعہ بنانا چاہتا ہے تو ضرور اسحاق ڈار کا کڑوا گھونٹ بھر لے ورنہ عام آدمی اس لاجک کو نہیں مانے گا۔ اسحاق ڈار کسی طور بھی غیر جانبد ار نہیں ہو سکتے اس لیے انہیں نگران کابینہ میں بھی نہیں ہونا چاہیے۔
آپ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ اگر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری میں نگران حکومت کی تشکیل پر کوئی اختلافات نہیں ہیں تو دونوں بار بار کیوں مل رہے ہیں؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی پارلیمانی قوت بڑھانا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی خواہاں ہے اور زرداری صاحب تیس نشستیں مانگ رہے ہیں۔ دونوں جماعتوں نے بات چیت کے لیے کمیٹیاں بنا دی ہیں۔ نگران حکومت کی آڑ میں حکمران اتحاد سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے آپشن پر غور کر رہا ہے۔ دیکھئے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ میاں نواز شریف کا موقف ہے کہ پی ٹی آئی کے کمزور ہونے کے بعد ہمیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑنا چاہیے اور جب حکومت سازی کا مرحلہ آئے تو اتحادی حکومت بنانی چاہیے۔ رہی یہ بات کہ وزیراعظم کون ہوگا؟ تو اس کا فیصلہ سیٹیں دیکھ کر کیا جائے گا۔ جس جماعت کے پاس زیادہ سیٹیں ہوں گی وہ اپنا وزیراعظم بنا لے گی اور دوسری پارٹیاں کابینہ کا حصہ ہوں گی۔ اس کے علاوہ ایک اور نکتے پر دونوں جماعتیں تاحال متفق نہیں ہیں اور وہ ہے الیکشن کی تاریخ۔ پیپلز پارٹی نومبر تک الیکشن کروانے پر بضد ہے مگر مسلم لیگ (ن) میں دو آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک گروپ کہتا ہے کہ مقررہ وقت میں الیکشن کروا دیے جائیں کیونکہ نو مئی کی وجہ سے پی ٹی آئی کمزور ہو چکی ہے۔ دوسرے گروپ کا ماننا ہے کہ جب تک پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ نہیں آجاتا اوروہ پابندِ سلاسل نہیں ہو جاتے‘ الیکشن میں جانا بہت بڑا رسک ہوگا۔ اس لیے چھ ماہ انتظار میں کوئی قباعت نہیں ہے۔ خدا جانے دونوں میں سے کون سا گروپ اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوگا۔ الیکشن جب بھی ہوں عوام نے تو اپنی اپنی پسندیدہ جماعت کی ترجمانی ہی کرنی ہے۔ کوئی الیکشن کے بروقت انعقاد کو سراہے گا اور کوئی انتخابات کے التوا پر بغلیں بجائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں