پی ٹی آئی پر پابندی؟

پی ڈی ایم حکومت کا چلن بھی عجیب ہے‘ اتنا عجیب کہ ہر شخص کو الجھن اور کشمکش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ماضی کی حکومتیں اپنے آخری دو‘ تین ماہ الیکشن کا سوچتی تھیں‘ پٹرول، ڈیزل، گیس اور بجلی کے نر خ کم کیے جاتے تھے‘ تنخواہ دار طبقے کے کندھوں پر سے ٹیکسز کا بوجھ کم کیا جاتا تھا، مہنگائی میں کمی لانے کے لیے ہر حربہ بروئے کار لایا جاتا تھا، کاروباری سرگرمیاں بڑھانے کے لیے شرحِ سود کم کی جاتی تھی، مارکیٹ میں دخل اندازی کرکے ڈالر کی قدر میں گراوٹ لائی جاتی تھی، روزگار کے مواقع بڑھانے اور ترقی کی شرح میں اضافے کے لیے زرِمبادلہ کے ذخائر کا بے دریغ استعمال ہوتا تھا مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت ایسا کچھ نہیں کر رہی۔ کیا اسے آئندہ الیکشن سے کوئی دلچسپی نہیں ہے؟ کیا اسے معلوم ہے کہ اس کی معاشی کارکردگی نے اسے انتخابات کے میدان میں اترنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا؟ یا پھر اس حکومت کو لگتا ہے کہ وہ سیاہ کرے یا سفید‘ عوام کو ریلیف دے یا مہنگائی کی دلدل میں دھکیل دے‘ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا؟ وہ کیوں سمجھتی ہے کہ الیکشن جب بھی ہوں‘ جیت پی ڈی ایم کا مقدر ہو گی؟
گزشتہ دو ماہ میں موجودہ حکومت نے کیا کچھ نہیں کیا! کل ہی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں لگ بھگ بیس روپے تک کا اضافہ کیا گیا۔ کون سی حکومت ہے جو اپنے آخری ہفتے میں پٹرول اور ڈیزل کو اس قدر مہنگا کر کے جاتی ہے؟ ایک ہفتہ قبل بجلی کے بنیادی ٹیرف میں تین روپے سے ساڑھے سات روپے تک کا اضافہ کیا گیا۔ کیا یہ جانے والی حکومت کا چلن ہوتا ہے؟ ایک روز قبل شرحِ سود کو بائیس فیصد پر برقرار رکھا گیا۔ سوال یہ ہے کہ حکومت نے جاتے جاتے شرحِ سود کم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ پندرہ دن قبل روپیہ مستحکم ہو رہا تھا، انٹربینک میں ڈالر کا ریٹ 275 روپے تک تھا جو اب دوبارہ بڑھ کر 287 روپے پر چلا گیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ حکومت نے اپنی مدت کو ختم ہوتا دیکھ کر بھی مارکیٹ میں دخل اندازی نہیں کی؟ ڈالر ریٹ کو روکنے کی کوشش نہیں کی؟ گیس کا بھی یہی حال ہے۔ شدید گرمیوں کے موسم میں بھی گیس کی لوڈشیڈنگ جاری ہے، رات نو‘ دس بجے کے بعد گھریلو صارفین کے لیے گیس میسر نہیں ہوتی۔ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں کو دیکھیں تو انہیں بھی جیسے پَر لگے ہوئے ہیں۔ ایک دن ایک قیمت ہوتی ہے اور دوسرے دن دوسری۔ حکومت بنیادی ضروریات کی چیزوں کی قیمتیں کم کیوں نہیں کر رہی؟ اس نے غریب اور متوسط طبقے کو سبسڈی دینا کیوں بند کر دی ہے؟ آپ زیادہ دور مت جائیں‘ سابق دور کو دیکھ لیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین جب وزیراعظم تھے تو انہوں نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آتا دیکھ کر آئی ایم ایف معاہدے سے صریح انحراف کرتے ہوئے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں چار ماہ کے لیے 150 روپے پر منجمد کر دی تھیں جبکہ بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی پانچ روپے کم کر دی تھی۔ ان فیصلوں کے باوجود ان کی حکومت تو نہیں بچ سکی تھی البتہ معیشت کا جنازہ ضرور نکل گیا۔ سرکار کو ماہانہ 120 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ کیا شہباز حکومت کے وزرا بتانا پسند کریں گے کہ وہ جو ناقابلِ فہم فیصلے کر رہے ہیں‘ اس کا سبب کیا ہے؟ انہیں عوام کا خیال کیوں نہیں؟ وہ اپنی سیاست کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں کیوں نہیں مار رہے؟ کیا وہ ان فیصلوں کے ساتھ الیکشن میں ووٹ مانگیں گے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ الیکشن التوا کا شکار ہو جائیں گے؟ کیا انہیں یہ بتا دیا گیا ہے کہ اگلی بار بھی یہی سیٹ اَپ چلے گا کیونکہ پی ٹی آئی تو اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار چکی ہے؟ کیاکوئی ہے جو اس بات کا جواب دے سکے!
معیشت کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے مجھے پی ڈی ایم حکومت کی معیشت بارے سنجیدگی پسند آئی ہے۔ جب یہ خبر میرے سامنے آئی تو مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ حکومت نے اپنے آخری ہفتے میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بیس روپے تک کا اضافہ کر دیا ہے۔ اگر حکومت نو اگست کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو پھر انتظار بھی کیا جا سکتا تھا۔حکومت کے جانے کے بعد نگران حکومت پٹرول‘ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر سکتی تھی اور پی ڈی ایم حکومت اس طوق کو اپنے گلے میں ڈالنے سے بچ جاتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری معیشت جس نہج پر پہنچ چکی ہے وہاں بچکانہ اور سیاسی فیصلے کرنے کی گنجائش بالکل نہیں بچی۔ آنے والی حکومتوں کو بھی موجودہ حکومت کے اس طرزِ عمل کی پیروی کرنی چاہیے۔ انہیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ملک مقدم ہے یا عوام؟ قومی مفادات ضروری ہیں یا سیاسی مفادات؟ ملک کے لیے مشکل فیصلے کرنا اہم ہے یا عوام کو وقتی ریلیف دینا اہمیت کا حامل ہے؟ الیکشن ضروری ہیں یا معیشت؟ آپ ترقی یافتہ ممالک کا تجزیہ کریں‘ ان سب ممالک میں ایک بات مشترک ملے گی اور وہ ہے مشکل معاشی فیصلے۔ جب یہ ممالک معیشت کو بڑھاوا دینے کا سوچ رہے تھے تو پھر انہوں نے دیرپا فیصلے کیے اور عوام کے وقتی ریلیف کو مدنظر نہیں رکھا۔ اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو ہمیں بھی معاشی پالیسیوں میں استحکام لانا ہو گا اور سیاسی مفادات یا عوام کے وقتی ریلیف پر ملکی و قومی مفاد کو ترجیح دینا ہو گی، ورنہ ہم ایسے ہی کشکول لے کر ایک ملک سے دوسرے اور ایک فنانشل ادارے سے دوسرے فنانشل ادارے کی چوکھٹ پر بیٹھے رہیں گے۔
اگر شہباز حکومت نے الیکشن کے باوجود مشکل معاشی فیصلے کرنے سے گریز نہیں کیا تو ہمیں بطور قوم اسے داد ضرور دینی چاہیے مگر حکومت جاتے جاتے جو قانون سازی کر رہی ہے یا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے‘ وہ صورتحال بہت تشویشناک ہے۔ حکومت نے سینیٹ میں پُرتشدد انتہا پسندی کی روک تھا م کا جو بل پیش کیا‘ وہ انتہائی متنازع اور خوفنا ک تھا۔ ا س بل کی مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ایف)، عوامی نیشنل پارٹی، پی ٹی آئی، بی اے پی اور جماعت اسلامی کے سینیٹرز نے بھرپور مخالفت کی۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ بل پیش کرنے والی جماعت ہی اس کی مخالفت کر دے۔ اس بل کے تحت نظریاتی عقائد، مذہبی اور سیاسی معاملات یا فرقہ واریت کی خاطر دھمکانا، طاقت کا استعمال اور تشدد کرنا، اکسانا یا حمایت کرنا جس کی قانون میں ممانعت ہو‘ پُرتشدد انتہا پسندی کہلائے گی۔ یہی نہیں‘ کسی فرد یا تنظیم کی مالی معاونت کرنا جو پُرتشدد انتہا پسند ہو‘ یا پُرتشدد انتہا پسندی کو اچھا عمل بنا کر پیش کرنا اور اس مقصد کے لیے معلومات پھیلانا بھی پُرتشدد انتہا پسندی کے زمرے میں آئے گا۔ اس کے علاوہ پُرتشدد فرد یا تنظیم کی اشاعت پر پابندی ہوگی، پاسپورٹ ضبط، اسلحہ لائسنس منسوخ، اثاثے اور اکاؤنٹس منجمد کر دیے جائیں گے۔ پُرتشدد انتہا پسند فرد یا تنظیم الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے گی۔ ایسے شخص کو تین سے دس سال تک سزا اور بیس لاکھ تک جرمانہ کیا جائے گا۔ پُرتشدد انتہا پسند تنظیم کو پچاس لاکھ جرمانہ اور تنظیم تحلیل کر دی جائے گی جبکہ معاونت یا سازش یا اکسانے والے شخص کو بھی دس سال تک قید اور بیس لاکھ روپے جرمانہ ہو سکے گا۔
یہ بل سینیٹرز کی مخالفت کے باعث ایجنڈے سے نکال دیا گیا۔ حکومتی سینیٹرز کہتے ہیں کہ اس میں ضروری تبدیلیاں کی جائیں گی اور پھر اس پر بحث ہو گی۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر کا موقف ہے کہ یہ بل محض پی ٹی آئی پر پابندی کا بل ہے، اگر ایسی بات ہے تو پھر حکومت کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ کل کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ ہاتھوں سے لگائی یہ گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑیں۔ ایسا نہ ہو کہ وقت کا پہیہ الٹا گھومے اور ایسی متنازع قانون سازی کرنے والی جماعتیں خود ہی اس کی زد میں آ جائیں۔ نو مئی کے ذمہ داروں کو ضرور سز ا ملنی چاہیے مگر پی ٹی آئی پر پابندی نہیں لگنی چاہیے کیونکہ یہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے نیک شگون نہیں ہو گا۔ حکومت اتنی جلد بازی اور انتہائی حد تک جانے سے گریز کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں