حکومت الیکشن کو ملتوی کرنا چاہتی ہے؟

جیسے کم سِنی اور ضعیفی میں بیر ہوتا ہے، جیسے صبح شام سے نہیں مل سکتی، ندی صحرا سے بغل گیر نہیں ہو سکتی اور روشنی کا اندھیرے سے ملاپ ممکن نہیں‘ ویسے ہی آمریت پسند حکمرانوں کے لیے الیکشن شجرِ ممنوع کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اگر جمہوری سیاسی جماعتیں ہی آمریت کی روش اختیار کرنے لگیں تو پھر کیا کیا جائے؟ جمہوریت پسندوں پر تو یہ سوچ کر ہی لزرہ طاری ہو جاتا ہے۔ نجانے کیوں ہمارا حکمران طبقہ ہر بار یہ فراموش کر دیتا ہے کہ ہر وہ عمل جسے رات کے پُراسرار گوشوں میں مخفی رکھا جاتا ہے‘ مستقبل اسے اٹھا کے اجالے میں لے آتا ہے۔ تنہائی کے راز جلد ہی ہر کسی کے ہونٹوں پر آ کر آشکار ہونے لگتے ہیں۔ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں یہ عقدہ کھلنا ہی ہے کہ آخر مسلم لیگ (ن) مردم شماری کی آڑ میں الیکشن سے راہِ فرار کیوں اختیار کرنا چاہتی ہے؟ اسے کیوں لگتا ہے کہ الیکشن چھ ماہ کے لیے ملتوی ہو جائیں تو اس کی چاندی ہو سکتی ہے؟ کیا اسے کوئی گارنٹی دی گئی ہے؟ یہ اگر کوئی راز ہے تو ایک دن عیاں ہونا ہی ہے۔ حقیقت جو بھی ہے‘ ایک دن سامنے آ کر رہے گی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق ہونے چاہئیں جبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کہتے ہیں کہ 2018ء میں ساری سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کیا تھا کہ اگلا الیکشن نئی مردم شماری کے تحت ہی ہو گا۔ اصولی طور پر یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر نئی مردم شماری ہو گئی ہے تو پھر انتخابات پرانی مردم شماری پر کیوں ہوں؟ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا خیال پہلے کیوں نہ آیا؟ اب جبکہ اسمبلی اپنی مدت پوری کر کے رخصت ہو رہی ہے اور دس دن سے بھی کم وقت بچا ہے‘ تب ہی یہ خیال کیوں آیا‘ وقت پر ساری تیاری کیوں نہ کی گئی؟ اگر الیکشن نئی مردم شماری پر کرانے ہیں تو پہلے قیمتی وقت کیوں ضائع کیا گیا؟ مردم شماری کے تمام مراحل پندرہ مئی تک مکمل ہو گئے تھے اور تیس مئی کو عبوری نتائج کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔ اس سب کے باوجود مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا کر نئی مردم شماری کا نوٹیفکیشن کیوں جاری نہیں کیا گیا؟ جون اور جولائی میں اس بابت کوئی پیش رفت دیکھنے میں کیوں نہ آئی؟ کیا حکومت کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب ہے؟ اب اطلاعات آ رہی ہیں کہ حکومت نے نئی مردم شماری کو نوٹیفائی کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔ اگر اگلے ایک‘ دو روز میں یہ اجلاس ہوتا ہے تو پھر الیکشن کا خدا ہی حافظ ہے کیونکہ اس کے بعد ایک نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا۔ نئی حلقہ بندیاں ہوں گی۔ تمام صوبوں اور شہروں کی اسمبلی نشستیں تبدیل ہوں گی۔ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کا کام تھوڑا پیچیدہ ہے‘ اس میں چار ماہ تو آسانی سے لگ جائیں گے۔ اس کے بعد لگ بھگ 55 دن کا الیکشن شیڈول ہو گا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کم از کم چھ ماہ تاخیر سے ہوں گے۔
آئین کی آرٹیکل 51 کی ذیلی شق پانچ میں لکھا ہے کہ الیکشن آخری نوٹیفائی مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔ اگر نئی مردم شماری کے نتائج نوٹیفائی ہو گئے تو آئینی طور پر الیکشن کمیشن انتخابات کے التوا کا پابند ہو جائے گا۔ پھراس کے بعد کیا ہو گا؟ کیا ایک بار پھر اپوزیشن جماعتیں سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دیں گی؟ یا سوموٹو ایکشن لیا جائے گا؟ اگر دونوں میں سے کوئی ایک صورت بھی پیش آتی ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے احکامات پر من و عن عمل کیا جائے گا؟ پنجاب اور کے پی کے انتخابات کے حوالے سے بھی متعدد عذر پیش کیے گئے تھے‘ اب بھی وہی صورتحال دہرائی جا سکتی ہے۔ اگر اس بار بھی اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کی بے توقیر ی کی گئی تو یہ جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے نیک شگون نہیں ہو گا۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حکومت نے مردم شماری کو لے کر اتنی لاپروائی کیوں برتی ہے؟ قومی خزانے سے 35 ارب روپے خرچ کرکے بھی اسے متنازع کیوں بنا دیا گیا؟ سب سے زیادہ حیرت ان جماعتوں پر ہے جو پہلے مردم شماری کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتی تھیں اور اب ببانگِ دہل یہ کہتے نہیں تھکتیں کہ الیکشن نئی مردم شماری کے تحت ہی ہونے چاہئیں۔ کیا انہیں بھی کسی طرف سے کوئی پیغام دیا گیا ہے؟ کیا ان جماعتوں کی ڈور بھی کسی اور جگہ سے ہلائی جا رہی ہے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مردم شماری اور الیکشن کو لے کر حکمران اتحاد منقسم ہو چکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم نئی مردم شماری کے تحت الیکشن کے حق میں ہیں مگر پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ایف) الیکشن میں التو ا کی خواہاں نہیں ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ مشترکہ مفادات کونسل میں نئی مردم شماری کی مخالفت کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ پنجاب، کے پی اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ کیا کریں گے؟ وہ وزیراعلیٰ سندھ کے ہمنوا ہوں گے یا مردم شماری کی توثیق کریں گے؟
حکمران اتحاد مردم شماری کے معاملے کو جس نہج پر لے جا چکا ہے‘ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پردے کے پیچھے کچھ اور چل رہا ہے اور عوام کو کچھ اور دکھایا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس صورتحال کے تین پہلو ہو سکتے ہیں؛ اول یہ کہ حکومت واقعتاً الیکشن کا التوا چاہتی ہے تاکہ میاں نواز شریف ستمبر کے وسط میں پاکستان آئیں اور اس کے بعد تین سے چار ماہ میں اپنے کیسز سے جان چھڑا سکیں۔ مارچ‘ اپریل میں جب الیکشن ہوں تو وہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہوں۔ دوسری وجہ زیادہ گمبھیر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی چیئرمین کی نااہلی اور گرفتاری کی منتظر ہو۔ اسے یہ لگ رہا ہو کہ مہنگائی کے باعث وہ مکمل طور پر غیر مقبول ہو چکی ہے اور اگر ایسے میں الیکشن ہو گئے تو عوام اتحادی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کے مزید کمزور ہونے کا انتظار کیا جائے۔ آپ خود فیصلہ کریں‘ اگر پی ٹی آئی کے چیئرمین کو سزا ہو جاتی ہے تو پھر عوام کے پاس کیا آپشن ہو گا؟ توشہ خانہ کیس آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ سابق وزیراعظم کی درخواستیں سپریم کورٹ سے مسترد ہو چکی ہیں جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیشن عدالت میں جج تبدیلی کی درخواست بھی رد کر دی ہے۔ ہاں البتہ! اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کے قابلِ سماعت ہونے یا نہ ہونے پرسیشن عدالت کو دوبارہ فیصلہ کرنے کا کہا ہے۔ توشہ خانہ کیس عدالت میں ہے‘ اس پر رائے زنی نہیں ہو سکتی؛ البتہ امر واقع یہ ہے کہ سیشن عدالت دو بار پہلے ہی توشہ خانہ کیس کو قابلِ سماعت قرار دے چکی ہے۔ تیسری بار مختلف فیصلہ آنے کا امکان کم ہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ کیس کا فیصلہ جلد ہی سنا دیا جائے گا۔
الیکشن التوا کا تیسر ا پہلو یہ ہے کہ اتحاد ی حکومت جان بوجھ کر نئی مردم شماری کا شوشہ چھوڑ رہی ہے تاکہ 35 ارب روپے خرچ کرنے کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر نہ آئے۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس محض دکھاوے کے لیے ہو۔ اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات کو جواز بنا کر نئی مردم شماری کو رد کر دیا جائے اور انتخابات پرانی مردم شماری کے مطابق ہی ہوں؛ یعنی سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ آئینی ضرورت بھی پوری ہو جائے اورحکومت پر الزام بھی نہ آئے۔
اب ایک لمحے کے لیے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ مشترکہ مفادات کونسل میں نئی مردم شماری کو نوٹیفائی کردیا جاتا ہے‘ سوال یہ ہے کہ پھر کیا ہو گا؟ اس کے بعد ایک اور آئینی مرحلہ درپیش ہو گا جسے عبور کرنا ضروری ہے اور وہ ہے اسمبلی کی نشستوں میں رد و بدل کی آئینی ترمیم۔ آئین کے آرٹیکل 51 کی ذیلی شق تین میں ترمیم کیسے ہو گی؟ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت ناگزیر ہے جو سرِ دست حکومت کو دستیاب نہیں۔ اس لیے یوں لگتا ہے کہ حکومت مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس کاغذی کارروائی کے لیے بلا رہی ہے۔ اس اجلاس سے کچھ حاصل وصول نہیں ہو گا۔ گمانِ غالب یہی ہے کہ الیکشن بروقت ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں