دائروں کا سفر

مولانا روم کا قول ہے ''وقت لوٹ کر آتا ہے اور اپنے ہر فعل کا حساب دینا پڑتا ہے۔ اچھے کے ساتھ اچھا ہوتا ہے اور برے کے ساتھ برا، نیکی کا بدلہ نیکی سے ملتا ہے اور بدی کو بدی سے تولا جاتا ہے‘‘۔ کیا ضروری ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو ماضی میں وہ اپنے مخالف سیاسی قیدیوں کے ساتھ کرتے رہے؟ اگر موجودہ حکومت کی جانب سے وہی روش اپنائی گئی تو انہیں کال کوٹھری میں بھی رہنا پڑے گا اور سزائے موت کی چکی میں بھی۔ بیرک میں رات کو چینی پھینک کر چیونٹیوں کو بھی چھوڑا جائے گا اور چاروں اطراف میں گندگی بھی پھیلائی جائے گی۔ انہیں میٹرس کے بغیر زمین پر بھی سونا پڑے گا اور دوائیوں سے بھی انہیں محروم رکھا جائے گا۔ اے سی ملے گا نہ روم کولر۔ ٹی وی کی سہولت ہو گی نہ اخبار کی۔ کم از کم رانا ثناء اللہ، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کے ساتھ تو یہی سلوک کیاگیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ حمزہ شہباز، میاں شہباز شریف، مریم نواز، آصف زرداری، فریال تالپور، خورشید شاہ، مفتاح اسماعیل اور سعد رفیق کو مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑا ہو یا انہو ں نے قید و بند کی صعوبتوں کا ذکر کرنا ہی مناسب نہ سمجھا ہو۔ اگر آپ کو کسی نے برا بھلا کہا اور بدلے میں آپ نے بھی وہی کیا تو پھر آپ میں اور اُس میں کیا فرق رہ جائے گا؟ ادلے کا بدلہ دنیاوی روش ہے اور درگزر کرنا ایک اعلیٰ اخلاقی صفت۔ اتنی سی بات ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
توشہ خانہ کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین کو تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔ بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ وہ لگ بھگ آٹھ سال تک عملی سیاست میں حصہ نہیں لے سکیں گے کیونکہ آئین کی شق 63 ون ایچ کے تحت نااہلی سزا پوری ہونے کے پانچ سال بعد تک رہتی ہے۔ اگرخان صاحب کو اسلام آباد ہائیکورٹ اگلے چھ ماہ یا سال میں اس کیس سے بری نہیں کرتی تو پھر یہی قانون لاگو ہو گا اور اگر سابق وزیراعظم اس کیس سے بری ہو جاتے ہیں تو پھر وہ دوبارہ سیاست میں فعال ہو کر پی ٹی آئی کی کمان سنبھال سکیں گے۔
کیس کا فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں زمان پارک سے گرفتار کیا گیا اور اڈیالہ جیل لے جانے کے بجائے اٹک جیل پہنچا دیا گیا۔ آخر حکومت نے ایسا کیوں کیا؟ اس میں قانونی الجھن کوئی نہیں ہے مگر وفاق کے قیدی کو اتنی دور رکھنے کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ اسلام آباد سے قریب ترین جب اڈیالہ جیل موجود ہے تو اٹک لے جانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اٹک جیل میں اڈیالہ کی نسبت کم سہولتیں دستیاب ہیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل کہتے ہیں کہ انہیں سی کلاس میں رکھا گیا ہے، اندھیرے کمرے میں دن میں مکھیاں اور رات کو کیڑے ہوتے ہیں۔ چھوٹا سا چکی والا کمرہ ہے‘ جہاں واش روم ملحق اور اوپن ہے۔ ٹی وی کی سہولت ہے نہ اخبار کی۔ سابق وزیراعظم نے اپنے وکیل سے کہا ہے کہ انہیں ساری عمر بھی جیل میں گزارنا پڑی تو گزار لوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے کھانے کو جو کچھ بھی مل رہا ہے‘ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے اپنی بیگم سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔
اگر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے بیان میں مبالغہ آرائی نہیں ہے تو یہ صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی حیثیت اس وقت ایک مجرم کی سی ہے، بادی النظر میں عدالت نے بدنیتی اور بے ایمانی ثابت ہونے پر انہیں سزا سنائی ہے؛ تاہم اس سب کے باوجود وہ ملک کے ایک سابق وزیراعظم ہیں‘ ملک کی ایک مقبول سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ انہیں سی کلاس میں ہرگز نہیں رکھاجانا چاہیے۔ وزارتِ داخلہ پنجاب نے خان صاحب کے لیے بی کلاس کی منظوری دی ہے‘ شنید ہے کہ اس کے بعد ان کی بیرک تبدیل کر دی گئی اور سہولتوں میں بھی اضافہ کیاگیا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں سیاسی قیدیوں کو اے کلاس کی سہولتیں دی جاتی تھیں‘ جس میں 9x12 کے دو کمرے، کچن، بیڈ، اے سی، ٹی وی، میز کرسی، اخبار اور دو مشقتی مہیا کیے جاتے تھے مگر اب اے کلاس مکمل طور پر ختم کردی گئی ہے۔ سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کو بھی بی کلاس ہی دی جاتی ہے جس میں الگ سے بیرک، چارپائی، میڑس، میز، کرسی، کتابیں اور دیگر ضروریات کی چیزیں فراہم کی جاتی ہیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین کو بھی بی کلاس دی گئی ہے۔ ان کے وکلا نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں استدعا کی ہے کہ انہیں اے کلاس دی جائے اور اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔ اس پر سماعت آج (بدھ کو) ہو گی، دیکھئے کیا حکم جاری کیا جاتا ہے۔
ایک بات طے ہے کہ سابق وزیراعظم کو ہر وہ سہولت ملنی چاہیے جس کے وہ حق دار ہیں‘ ان کے ساتھ سیاسی مخالفین والا سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ میاں نواز شریف جب العزیزیہ کیس میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے تو انہیں میڈیکل بورڈ کی سفارش پر اے سی اور گھر کے کھانے کی سہولت دی گئی تھی۔ اگر قانون میں گنجائش نکلتی ہے تو پھر خان صاحب کو بھی تمام دستیاب سہولتیں ملنی چاہیے، کم ازکم کھانا تو ان کا گھر ہی سے آنا چاہیے، کیونکہ جیل کے کھانے کی بابت کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 2018ء کے الیکشن سے قبل میاں نوازشریف نے نگران وزیراعظم کو خط لکھ کر جیل میں سہولتیں بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا۔ آصف زرداری اور فریال تالپور نے بھی عدالت سے درخواست کی تھی کہ انہیں اے کلاس دی جائے مگر اس وقت ان کی درخواست مسترد کر دی گی تھی۔ اگر میاں نواز شریف اور آصف زرداری اپنے لیے سہولتوں کا تقاضا کر سکتے ہیں تو پھر انہیں کسی طور پی ٹی آئی چیئرمین کو سہولتیں دینے پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں نہیں بھولنا چاہیے کہ سیاست دائروں کا سفر ہے۔ کل میاں نواز شریف اور آصف زرداری زیرِ عتاب تھے‘ آج خان صاحب کی باری ہے۔ کون جانے کل کس کا نمبر ہو گا۔ اس لیے تلخی کو اس قدر نہیں بڑھانا چاہیے کہ کل کو خود اس کی قیمت ادا کرنا پڑے۔
سابق وزیراعظم جیل میں اپنی اہلیہ سے ملاقات کرنے کے خواہاں ہیں۔ دوسری جانب بہت سے لوگ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ خان صاحب شاید پی ٹی آئی کی قیادت شاہ محمود قریشی کو نہیں دیناچاہتے۔ جماعت کا ورکر بھی شاہ صاحب کے مصلحت پسندانہ رویے سے ناخوش ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین کی جانشینی کی ذمہ داری ان کی اہلیہ یا ان کی ہمشیرہ علیمہ خان صاحبہ کو اٹھانی پڑی کیونکہ اس سے قبل بیگم نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو، کلثوم نواز اور مریم نواز بھی ایسی صورتحال میں پارٹی کو لیڈ کر چکی ہیں۔ ان اطلاعات میں صداقت اس لیے بھی ہو سکتی ہے کہ ہمارا عمومی عوامی شعور ناپختہ ہے اور ہم فیملی پالیٹکس کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت ہمیشہ شریف خاندان کے پاس ہی رہتی ہے اور کسی دوسرے کو پارٹی صدارت کا اہل نہیں سمجھا جاتا۔ پیپلز پارٹی میں بھی یہی چلن ہے۔ جے یو آئی (ایف)، اے این پی، مسلم لیگ (ق) اور دیگر سیاسی اور قوم پرست جماعتوں میں بھی پارٹیاں خاندان کے گرد ہی گھومتی رہتی ہیں۔ البتہ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کو استثنا حاصل ہے۔ اس لیے گمان کیا جا رہا ہے کہ عوام پی ٹی آئی کی قیادت خان صاحب کی فیملی سے باہر جانے کو قبول نہیں کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بشریٰ بیگم یا علیمہ خان یہ ذمہ داری لینے سے انکار کر دیں۔ وہ دونوں گھریلو خاتون ہیں اور ابھی تک دونوں کی جانب سے سیاست سے کوئی خاص لگاؤ بھی سامنے نہیں آیا۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں شاہ محمود قریشی ہی بہترین چوائس ہیں۔ اگر خان صاحب نے اپنے خاندا ن کے حق میں فیصلہ کیا تو ان کے اقربا پروری کے خلاف بیانیے کو سخت ٹھیس پہنچے گی اور اسے ان کی سیاست کا ایک نیا نوٹرن تصور کیا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں