عمر عطا بندیال کا عہد تمام ہوا

اقتدار ،طاقت اور اختیار کی دنیا عارضی ہوتی ہے۔ جو بھی مسندِ اقتدار پر براجمان ہوتا ہے اسے ایک نہ ایک دن یہ کرسی خالی کرنا ہی ہوتی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال صاحب نو سال تک سپریم کورٹ کے جج اور لگ بھگ بیس ماہ تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے۔ جسٹس بندیال اپنے آخری خطاب میں آبدیدہ ہو گئے اور کہا کہ میری حالت اب ڈوبتے سورج جیسی ہے۔ کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار اپنے الواعی خطاب میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا: میں آج کے بعد گمنامی میں چلا جاؤں گا اور میرا کوئی نام بھی نہیں لے گا۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی قمر جاوید باجوہ کی طرح بھرپور وقت گزارا۔ دونوں شخصیات کا آخری خطاب ان تمام لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے جو اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھتے ہیں‘ جو وزیراعظم، وزیراعلیٰ، وزیر داخلہ، آئی جی اور چیف جسٹس جیسے بااختیار عہدے سنبھالتے ہیں۔ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں اقتدار کا سورج غروب ہونا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے جتنی دیر برسرِ اقتدار رہیں انصاف کا ترازو تھامے رکھیں اور عدم توازن کا شکار مت ہوں۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا دور بہت ہنگامہ خیز رہا۔ اس دور میں سیاسی افراتفری عروج پر رہی اور ایک کے بعد ایک آئینی بحران جنم لیتا رہا۔ ان کے دور میں سپریم کورٹ میں پہلی بار اس قدر گروپنگ اور دھڑے بندی دیکھنے میں آئی۔ ان پر آئینی معاملات پر فل کورٹ نہ بنانے، من پسند ججز پر مشتمل بینچ بنانے اور ایک مخصوص سیاسی لیڈر کو فیور دینے کا الزام لگتا رہا۔ صرف ساتھی ججز نے ہی نہیں‘ سیاستدانوں نے بھی ان پر دل کھول کر تنقید کی۔ کون سا سیاستدان ہے جس نے ان پر الزامات کی بوچھاڑ نہیں کی اور تنقید کے نشتر نہیں برسائے۔ پی ٹی آئی چیئرمین عوامی جلسوں میں گلہ کرتے رہے کہ تحریک عدم اعتماد کے وقت رات بارہ بجے عدالتیں کھولی گئیں اور شاہراہِ دستور پر بکتر بندگاڑیاں کھڑی کی گئیں۔ انہوں نے قومی اسمبلی تحلیل کی تو بندیال صاحب کی عدالت نے سوموٹو ایکشن کیوں لیا؟ میاں نواز شریف سے لے کر شہباز شریف تک اور آصف علی زردری سے لے کر بلاول بھٹو زرداری تک‘ سب نے دل کھول کر بندیال صاحب کو ہدفِ تنقید بنایا۔ مولانا فضل الرحمن تو جلوس لے کر سپریم کورٹ کے باہر پہنچ گئے تھے مگر بندیال صاحب نے ہمیشہ تحمل، گریس، بردباری اور پختگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کبھی پلٹ کر کسی سیاستدان کو جواب نہیں دیا۔ انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور افتخار چودھری کی طرح کبھی کسی سیاستدان کو عدالت میں بلا کر اس کی تذلیل نہیں کی۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ساتھی ججز کے اعتراضات کا بھی میچورٹی کے ساتھ سامنا کیا۔ ان کا دور اس لیے بھی تنازعات سے بھرپور تھا کہ ملک میں سیاسی انتشار آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔ سیاسی طور پر اتنے دگرگوں حالات شاید ہی کسی اور چیف جسٹس کے زمانے میں رہے ہوں اور شاید ہی کبھی ملکی تاریخ میں سیاسی انتشار کے اثرات اعلیٰ عدالتوں میں اس طرح دیکھنے کو ملے ہوں۔
جب بھی کسی وزیراعظم، وزیراعلیٰ، چیف جسٹس یا کسی مقتدر شخصیت کا عہد تمام ہوتا ہے تو صحافی ہونے کے ناتے ہمارا کام ہے کہ اس دور کا تجزیہ کریں۔ عمر عطا بندیال نے بطور چیف جسٹس جہاں بہت اچھے فیصلے کیے‘ وہیں کچھ متنازع فیصلے بھی ان سے سرزد ہوئے۔ آئیے! ایک ایک کرکے ان کے مشہور فیصلوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال جہاں عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کے لیے کوشاں رہے‘ وہیں سیاسی معاملات نے بھی ان کو مکمل طور پر گھیرے رکھا۔ سیاستدان جو کام پارلیمنٹ میں نہ کر سکے وہ عدالتوں کی طرف اچھال دیے گئے۔ سیاسی جماعتیں جس قانون سازی کا راستہ پارلیمنٹ میں نہ روک سکیں‘ اس کی راہ میں عدالتوں کے ذریعے رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال سب سے پہلے اس وقت خبروں میں نمایاں ہوئے جب انہوں نے تین اپریل 2022ء کو سابق وزیراعظم عمران خان کی طرف سے قومی اسمبلی توڑنے کے اقدام پر سوموٹو لیا اور اسے پھر اسے غیر آئینی قدم قرار دیتے ہوئے اسمبلی کو بحال کر دیا۔ جس طرح پی ٹی آئی چیئرمین نے صدرِ مملکت اور سپیکر کے ساتھ مل کر واضح آئینی شقوں کو روندا تھا‘ اس کی نظیر جمہوری ادوار میں کم ہی ملتی ہے۔ میری نظر میں یہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے بہترین فیصلوں میں سے ایک تھا۔ اس کے بعد رواں سال جنوری میں جب پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تحلیل کی گئیں تو نوے روز میں الیکشن ناگزیر تھا مگر پی ڈی ایم حکومت اور الیکشن کمیشن نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس غیر آئینی اقدام پر بھی چیف جسٹس نے سوموٹو ایکشن لیا اور پنجاب میں الیکشن کے لیے صدر کو تاریخ دینے کا کہا اور کے پی میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے گورنر کو حکم دیا۔ جب اس حکم پر عمل نہ ہوا تو سپریم کورٹ نے خود ہی الیکشن کے لیے چودہ مئی کی تاریخ متعین کر دی۔ اس وقت چیف جسٹس بندیال پر بہت پریشر تھا مگر انہوں نے آئین کے ساتھ کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ بھی ان کے دور کے اہم ترین فیصلوں میں سے ایک ہے مگر بدقسمتی سے اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اس کے باوجود چیف جسٹس نے تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کو ہوا نہ دی، وگرنہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم اور چیف الیکشن کمشنر پر توہینِ عدالت کی کارروائی ہوتی مگر انہوں نے ایسا کرنے سے اجتناب کیا۔ یہی نہیں‘ جاتے جاتے انہوں نے نیب ترامیم کے حوالے سے جو فیصلہ دیا وہ بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جس طرح سپریم کورٹ نے ان ترامیم کو کالعدم قرار دیا ہے‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نیب کے مروجہ قانون میں ترامیم ناگزیر ہیں اور پی ڈی ایم حکومت نے کچھ ترامیم بہت اچھی بھی کی تھیں مگر ان ترامیم سے جس طرح بڑے پیمانے پر ترامیم کرنے والے سیاستدانوں کو فائدہ ہوا‘ اس سے عوامی سطح پر بہت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ان ترامیم سے میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، مراد علی شاہ، حمزہ شہباز، شوکت ترین، عامر کیانی، خسرو بختیار، فریال تالپور، سلیم مانڈوی والا، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، اکرم خان درانی، اسحاق ڈار اور شوکت عزیز سمیت متعدد سیاستدانوں کے کیسز خارج ہو گئے تھے۔ اب عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد یہ سب کیسز دوبارہ کھل جائیں گے۔
سابق چیف جسٹس نے بہت سے متنازع فیصلے بھی دیے جس کے بعد ملک میں مزید بحرانوں نے جنم لیا۔ انہوں نے صدارتی ریفرنس پر آئین کے آرٹیکل 63 اے کی جو تشریح کی اس سے آئین کی ایک شق ساکت ہو گئی۔ انہوں نے فیصلہ دیا کہ جب بھی کوئی ممبر پارلیمنٹ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر ووٹ دے گا‘ اس کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا اور وہ اسمبلی کا ممبر بھی نہیں رہے گا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کسی کا جرم تسلیم کیے بغیر اسے سزاد ے دیں؟ جب ووٹ شمار نہیں ہو گا تو آزادانہ رائے کا اظہار کیسے ہو گا؟ سابق چیف جسٹس نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کو بھی گیارہ اگست کو کالعدم قرار دیا تھا۔ یہ ایک اچھی قانون سازی تھی جس میں سپریم کورٹ کے سوموٹو کیسز میں اپیل کا حق دیا گیا تھا۔ کسی بھی کیس میں اپیل کا حق نہ ہونا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عدالت کو اس قانون سازی کو کالعدم قرار نہیں دینا چاہیے تھا۔ سابق چیف جسٹس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر بھی سٹے دیا تھا اور اب فل کورٹ اس کیس کی سماعت کرنے جا رہا ہے۔ اگر فل کورٹ نے اس قانون سازی کو درست قرار دے دیا تو پچھلے چار ماہ میں بننے والے عدالتی بینچر اور ان کے فیصلوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ یہی نہیں‘ سابق چیف جسٹس نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر بھی کوئی فیصلہ نہیں کیا اور متعدد سماعتوں کے بعد خاموشی اختیار کر لی۔ دوسرا‘ پنجاب اور کے پی الیکشن کی طرح بندیال صاحب نے قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد نوے روز میں الیکشن نہ کرانے پر سو موٹوایکشن لیا نہ سپریم کورٹ بار کی پٹیشن پر توجہ دی۔ انہیں کم از کم ان کیسز کا فیصلہ ضرور کرنا چاہیے تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں